مریم نواز کی ای سی ایل سے نام نکالنے کی درخواست پر وفاقی حکومت کو سات دن میں فیصلہ کرنے کا حکم
لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی بیٹی مریم نواز کی جانب سے ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے اپنا نام نکلوانے کی درخواست پر وفاقی حکومت کو مسلم لیگ ن کی نائب صدر کا موقف سن کر فیصلہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس باقر نجفی اور جسٹس انوار الحق پنوں پر مشتمل دو رکنی بینچ نے یہ حکم مریم نواز کی جانب سے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کے لیے دائر کی گئی درخواست پر سماعت کے بعد پیر کو دیا ہے۔
صحافی عباد الحق کے مطابق عدالت نے یہ معاملہ وفاقی حکومت کے متعلقہ فورم یعنی وزارتِ داخلہ کے تحت کام کرنے والی ای سی ایل کی نظرِ ثانی کمیٹی کو بھجواتے ہوئے حکم دیا ہے کہ وہ سات دن کے اندر مریم نواز کا موقف سن کر قانون کے مطابق فیصلہ کرے۔
شریف خاندان کی ملکیت چودھری شوگر ملز کے ذریعے منی لانڈرنگ کے الزام میں لاہور ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ نے چار نومبر 2019 کو مریم نواز کی ضمانت منظور کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا تھا۔
ان کا نام اگست 2018 سے ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں موجود ہے جس کی وجہ سے وہ بیرونِ ملک سفر نہیں کر سکتیں۔
پیر کو سماعت کے دوران وفاقی حکومت کے نمائندے ایڈیشنل اٹارنی جنرل پاکستان اشتیاق اے خان نے درخواست کی مخالفت کی اور نشاندہی کی کہ درخواست قابل سماعت نہیں ہے۔
اشتیاق خان نے واضح کیا کہ مریم نواز نے عدالت سے رجوع کرنے سے پہلے متعلقہ مجاز فورم سے رجوع نہیں کیا۔ اس پر جسٹس علی باقر نجفی نے استفسار کیا کہ کیا ای سی ایل سے نام کے اخراج کے لیے حکومت کو نظرثانی درخواست دی گئی جس پر مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے نفی میں جواب دیا اور جواز پیش کیا کہ وفاقی حکومت کے وزرا کھلے عام کہہ رہے کہ مریم کو باہر نہیں جانے دیں گے۔
مریم نواز کے دوسرے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے موقف اختیار کیا کہ عدالت نے مریم نواز کی ضمانت منظور کرتے وقت پاسپورٹ اور زر ضمانت جمع کرانے کی ہدایت کی تھی اسی وجہ سے براہ راست عدالت سے رجوع کیا گیا۔
اس پر فاضل جج نے ریمارکس دیے اگر کابینہ کا موقف ہوتا ہے کہ پاسپورٹ عدالت کے کہنے پر ضبط ہے تو پھر ہم دیکھ لیں گے
ادھر لاہور ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ نے مریم نواز کے پاسپورٹ کی واپسی کے لیے ایک متفرق درخواست پر نیب کو 16 دسمبر کے لیے نوٹس بھی جاری کر دیے ہیں.
دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ نے مریم نواز کی متفرق درخواست پر نیب کو نوٹس جاری کر دیئے. جس میں مریم نواز نے اپنے پاسپورٹ کی واپسی کی استدعا کی ہے.
خیال رہے کہ مریم نواز کا پاسپورٹ عدالتی احکامات کی روشنی میں لاہور ہائیکورٹ کی تحویل میں ہے. نیب نے مریم نواز کی ضمانت کی درخواست کی سماعت کے دوران یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ضمانت منظور ہونے پر وہ بیرون جاسکتیں. اسی خدشے پر لاہور ہائیکورٹ نے پاسپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا تھا.
امجد پرویز ایڈووکیٹ کے ذریعے سینچر کو دائر کی گئی اپنی درخواست میں مریم نواز نے استدعا کی تھی کہ انھیں اپنے والد سے ملاقات اور اُن کی تیمارداری کے لیے ایک مرتبہ چھ ہفتے کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے۔
درخواست میں وزارت داخلہ، ایف آئی اے، چیئرمین نیب اور ڈی جی نیب کو فریق بنایا گیا تھا۔
درخواست میں انھوں نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ وہ ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے باوجود بیرون ملک سے والد کے ساتھ واپس آئیں اور اس کے بعد باقاعدگی سے عدالتوں میں پیش ہوتی رہی ہیں۔
درخواست میں یہ بھی بتایا گیا مریم نواز قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتی ہیں اور اسی لیے اپنی شدید بیمار ماں کو لندن میں چھوڑ کر اپنے والد کیساتھ وطن واپس پہنچیں۔
انھوں نے عدالت سے درخواست کی کہ ان کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا حکم غیر قانونی قرار دیا جائے۔
مریم نواز کے والد نواز شریف العزیزیہ ریفرنس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے طبی بنیادوں پر دی گئی ضمانت پر چھ ہفتے کے لیے ملک سے باہر ہیں۔
وہ 19 نومبر کو پاکستان سے لندن روانہ ہوئے تھے مگر مریم نواز نام ای سی ایل میں ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ نہیں جا سکی تھیں۔
پاکستان مسلم لیگ نون کی ترجمان مریم اورنگزیب نے پیر کو سابق وزیراعظم نواز شریف کی صحت کی تازہ ترین صورتحال کے حوالے سے بیان جاری کرتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹرز نے نواز شریف کو امریکہ میں علاج کروانے کی تجویز دی ہے۔
ان کے مطابق موجودہ صورتحال میں نواز شریف کی امریکہ منتقلی ڈاکٹرز کے لیے ایک چیلنج ہے اور آئندہ کے لائحہ عمل کے تعین کے لیے ان کے اندورنی اعضا کی بایوپسی کرنے پر ڈاکٹرز کی مشاورت ہوئی ہے۔
مریم نواز کی سزائیں
ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز سات سال قید کی سزا سنائے جانے کے بعد اب پاکستان کے قانون کے مطابق انتخابات میں حصہ لینے کے لیے دس سال تک نااہل ہوچکی ہیں۔ یہ نااہلی اس کیس میں بریت کی صورت میں ختم ہو سکتی ہے۔
مریم نواز کو کیلیبری فونٹ کے معاملے میں غلط بیانی پر شیڈول 2 کے تحت ایک برس قید کی سزا بھی سنائی گئی جبکہ ان پر 20 لاکھ پاؤنڈ کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ سے سزا کی معطلی کے بعد انھیں اڈیالہ جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔
اکتوبر 2018 میں نیب نے ان کی سزا کی معطلی کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی جسے سپریم کورٹ نے مسترد کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم برقرار رکھا تھا۔
انھیں اگست 2019 میں نیب نے چوہدری شوگر ملز میں مبینہ بدعنوانی کے الزام میں گرفتار کیا تھا لیکن نومبر 2019 میں انھیں لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔
ای سی ایل کیا ہے؟
وزارت داخلہ ایگزٹ کنٹرول لسٹ یا ای سی ایل میں ان افراد کے نام شامل کرتی ہے جن کے بارے میں کسی عدالت نے کوئی حکم نامہ جاری کیا ہو یا پھر نیب اور خفیہ اداروں کی طرف سے اس شخص کے بارے میں کوئی معلومات فراہم کی گئی ہوں۔
نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق وزارت داخلہ کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ اگرچہ کسی بھی شخص کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا اختیار ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل کے پاس ہوتا ہے لیکن موجودہ حالات میں یہ اختیار وزیر داخلہ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
نام ای سی ایل سے کیسے نکالا جاتا ہے؟
سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے دور میں ای سی ایل سے نام نکالنے سے متعلق ایک تین رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس کی سربراہی سیکرٹری داِخلہ کرتے تھے۔
اس کمیٹی کا اجلاس ایک مہینے میں دو بار ضرور ہوتا تھا جس میں ای سی ایل میں شامل افراد کے ناموں اور جن وجوہات کی بنا پر ان کا نام ای سی ایل میں شامل ہے اس کے بارے میں غور کیا جاتا تھا۔
سابق حکومت کے دور میں اگر کسی شخص کا نام تین سال سے ای سی ایل میں شامل ہے اور اس کے بارے میں کوئی عدالتی حکم بھی سامنے نہیں آیا تو ایسے شخص کا نام ای سی ایل سے نکال دیا جاتا تھا۔
ای سی ایل میں ایسے افراد کے نام بھی شامل تھے جن کے خلاف نہ تو نیب نے اور نہ ہی کسی عدالت نے احکامات جاری کیے ہوتے تھے۔
موجودہ دور میں ای سی ایل کا استعمال؟
وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق موجودہ حکومت کے دور میں ایک شخص کا نام بھی ای سی ایل سے نہیں نکالا گیا اور عدالتی حکم پر محض دو افراد کے نام بلیک لسٹ سے نکالے گئے تھے۔
ذرائع کے مطابق ای سی ایل سے متعلق بنائی گئی کمیٹی کا اجلاس بھی باقاعدگی سے نہیں ہو رہا۔