اجالوں کا بلاوا
ابھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا اور میں افسوسناک حالت میں کتابوں سے بھری اپنی لائبریری کو گم سم گھور رہی تھی۔ آدھی رات کو، ہر طرف اندھیرا سا چھایا ہوا تھا۔ کچھ ڈھونڈ نے کی چاہ میں چلنے لگی، تبھی تاریکی نے مجھے آ پکڑا۔ نہیں جانتی تھی کہ کدھر جا رہی ہوں۔ بس کسی صاف ستھرے راہ کی تلاش میں تھی تاکہ گندگی سے میری سفید جوتیوں کو داغ نہ لگے۔
اکیلی تھی، اور الجھی ہوئی بھی، اُن راہوں سے دشوار سفر مجھے طے کرنا تھا۔ سوچ سوچ کر آنکھیں نم تھیں۔ چنانچہ میرے اندر سے یہ آواز آ ئی !
“تم یہاں، رات کے اندھیرے میں، کیا کرنے جا رہی ہو؟! اکیلی بھی، کہاں جا رہی ہو؟!”
میں نے کہا:
“مجھے اجالوں کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ مجھے کوئی بلاتا ہے۔ شاید وہاں میری منزل ہے۔”
غیب سے ایک آواز آئی:
“میں ان اُجالوں تک تمہیں لے جاؤں گا۔”
میں نے کہا:
“تُو کون ہے؟!” اور تجھے کیسے راہ سے آشنا ہوئی؟!”
اس نے کہا:
“میں تمہاری مرضی اور احساس کی آواز ہوں۔ میرے ساتھ چلو!”
اسے بہت سخت مرحلہ عبور کرنا تھا۔ میں اس کے ساتھ چل پڑی تھی۔ اندھیرے میں ٹھوکر نہ کھائی اور اجالوں تک پہنچ گئی۔
میری مرضی اور احساس کی آواز اجالوں کے پاس مجھے پہنچا کر چھوڑ دیا۔
اس سفر میں کئی غلطیاں سرزد ہوئیں اور پہاڑ کی چوٹی جیسی اونچی رکاوٹیں کھڑی ہوئی لیکن مرضی اور احساس کی آواز کو سر کرنا نا ممکن تھا۔ حالانکہ نفرت، کینہ، دشمنی، حسد، جلن، بے رحمی، مکر، گستاخی، غیبت، توہین اور تذلیل جیسی رکاوٹیں راہ میں آئی تھیں ۔
ایک ناقابلِ برداشت اور شدید خیالات میرے ذہن سے متصادم ہونے لگے۔ اچانک مجھے محسوس ہوا کہ میرے سر پر بے رحم ہتھوڑوں سے میری کھوپڑی کو چکنا چور کیا جارہا تھا۔
تبھی میں سوچنے لگی، میں ایسی چیزوں میں کیوں مبتلا ہوں؟!
جب میں کسی سے نفرت نہیں کرتی!!
جب میں کسی سے دشمنی نہیں کرتی!!
جب میں کسی کو اذیت نہیں دیتی!!
پھر!
اپنی عزتِ نفس رکھنے کے لئے میں جو کر سکتی تھی، اُس نے کیا۔
میں نے ہمیشہ جینے کے لیے اپنا حق لینے کی کوشش کی۔ کبھی آنسو بہاتی تھی، کبھی میرے سینے میں آتش فشاں پھٹنے لگتی تھی۔ اور بعض اوقات اچانک مجھے پاگل پن کا دورہ پڑتا اور میں اپنی مٹھی سے سر اور چہرے کو مارتی تھی۔ یہانتکہ میرے چہرے کے ہر حصے لرزنے لگتے۔اور میں اکیلی ، روتی ، ریزہ ریزہ محسوس کرتی اور میرا بدن لرزتا تھا۔ مجھے یوں محسوس ہورہا تھا کہ موسمِ سرما کی شدید ٹھنڈ میں میرا برہنہ جسم کانپ رہا ۔
اُس وقت مجھے ایک مددگار اور ایک ساتھ دینے والے ہاتھ کی اشد ضرورت تھی۔ جو مجھے اس عذاب سے نکال سکے۔
میں آہستہ آہستہ چل رہی تھی جیسی کوئی روح کراہتی ہو، درد سے تڑپتی، زندگی اور خود کشی کے درمیان متذبذب تھی۔ تبھی ایک ہاتھ مجھ تک بڑھا اور کہا:
“اپنا ہاتھ مجھے دے دو!”
میں چونک کر ڈر گئی کہ ہاتھ دوں۔ اور سوچنے لگی شاید اس ہاتھ کا مالک بھی ایک دشمن نہ ہو۔
اس نے دوبارہ مجھ سے کہا اور اس کی آواز میں خلوص دلی ظاہر تھی اور اس کے چہرے پر فرشتوں کی مسکراہٹ نقش تھی:
اس نے کہا:
“مجھ سے مت ڈرو!”
میں نے کہا:
“تُو کون ہے؟!”
اس نے مجھ سے کہا :
“میں قابلِ بھروسہ مند ہوں، قابلِ یقین ہوں اور قابل اعتماد ہوں۔ میں تمہارا دوست ہوں۔
اس کی بات سن کر میں ہچکچائی۔
اُس نے اصرار کر کے کہا:
“تمہیں میرے ساتھ چلنا ہوگا۔ میں راہ کے رازوں کو جانتا ہوں۔ سلامت اور حفاظت کے ساتھ تمہیں پہنچانے میں مدد کروں گا۔ میں تمہیں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا۔”
اُس کی حوصلہ بھری آواز اور مسکراہٹ میرے دل کی گہرائیوں میں اتر گئی تھی۔ میرے دل نے مجھے آواز دی: “اسے اپنا ہاتھ دے دو”۔
میں نے اُس کو اپنا ہاتھ دے دیا۔
اُس نے میرا ہاتھ پکڑ ا اور کہا:
“اب ذرا آسماں کی طرف دیکھو!
کیا دیکھ رہی ہو؟”
میں نے کہا:
“میں ایک بادل دیکھ رہی ہوں”
اُس نے کہا:
“چلو اس بادل پر سوار ہوتے ہیں”۔ وہاں تمہیں تمام خوشیاں، روشنی اور ہوا ملیں گے اور وہاں کمال اور تخلیقیت کے عالم میں تمہیں سکون ملے گا۔ جس کی تمہیں تمنا ہے”۔