سائنسہفتہ بھر کی مقبول ترین

پاکستان میں تیارکردہ وینٹیلیٹر: ’اس کا معیار عالمی سطح کا ہے اور قیمت کم ہو گی‘

Share

عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں اگر احتیاظ نہ برتی گئی تو کورونا کے مریضوں کے تعداد اگلے چند ہفتوں کے اندر لاکھوں میں جا سکتی ہے۔ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں ڈاکٹر پہلے ہی کہہ چکے ہیں لاک ڈاؤن میں نرمی کے وجہ سے کورونا کے مریضوں میں اضافہ ہوا ہے۔

ڈاکٹروں نے خبردار کیا ہے کہ اگر پاکستان میں کورونا کے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھتی ہے تو ملک کا طبّی نظام اس بوجھ کو برداشت نہیں کر پائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈاکٹر، ہسپتالوں میں بستر اور طبّی سہولیات انتہائی ناکافی ہیں۔

جب کووڈ 19 کے مریض زیادہ ہوں گے تو ان میں ایسے افراد کی تعداد بھی زیادہ ہو گی جنہیں انتہائی نگہداشت میں رکھنے کی ضرورت ہو گی۔ پاکسان کو ایسے مریضوں کی جان بچانے کے لیے جن طبّی آلات کی ضرورت پڑے گی ان میں وینٹیلیٹر بھی شامل ہیں۔

پاکستان میں آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کے سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں محض دو ہزار سے کچھ زیادہ وینٹیلیٹر موجود تھے۔ کورونا وبا کے پیشِ نظر پاکستان مزید تین ہزار وینٹیلیٹر درآمد کرنے کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

تاہم بیرونِ ممالک سے اس وقت وینٹیلیٹر منگوانے میں دو مشکلات ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی وینٹیلیٹر کی اشد ضرورت ہے اس لیے ان کی تیاری اور ترسیل سست روی کا شکار ہے۔ اور پھر ان کی قیمت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ پہلے ہی ایک وینٹیلیٹر 35 لاکھ روپے سے زائد میں پاکستان پہنچتا تھا۔

اس صورتحال میں موزوں ترین حل یہ تھا کہ پاکستان وینٹیلیٹر خود بنا لے۔

آج سے قبل تو ایسا کبھی نہیں ہوا تھا، تاہم اب ہوا ہے۔ مقامی انجینیئرز نے وینٹیلیٹرز کے چند نمونے تیار کیے ہیں جن کی ابتدائی جانچ پڑتال جاری ہے۔

پاکستان انجینیئرنگ کونسل کے چیئرمین جاوید سلیم قریشی نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘گذشتہ ماہ جب مشکل کی اس گھڑی میں انہوں نے ملک کے طبّی شعبے کی مدد کرنے کے خیال سے کوشش کا آغاز کیا تو انہیں وینٹیلیٹر بنانے کے 40 سے زیادہ نمونے اور درخواستیں موصول ہوئیں۔’

ان میں سے چند کا انتخاب ہوا جن میں سے تاحال دو وینٹیلیٹرز کو دواؤں کے ریگولیٹری ادارے یعنی ڈریپ نے کلینیکل ٹرائل کی اجازت بھی دی ہے۔

انجینیئرنگ کونسل، ڈریپ اور طبّی ماہرین کی جانب سے جن وینٹیلیٹرز کی جانچ پڑتال جاری ہے ان میں ڈاکٹر ریاض الدین اور ان کے ساتھیوں کا تیارشدہ وینٹیلیٹر بھی شامل ہے۔

ماہرین کی طرف سے ابتدائی جانچ کے دو مراحل سے اس وینٹیلیٹر کو کامیابی سے گزارا جا چکا ہے جبکہ رواں ہفتے کے اوائل میں اس کا تیسرا مرحلہ منعقد ہو گا جس میں وینیٹیلیٹر کا انڈیورینس ٹیسٹ ہو گا یعنی دیکھا جائے گا کہ وہ کتنے گھنٹے مسلسل چل سکتا ہے۔ اس سے اگلا مرحلہ کلینیکل ٹرائلز کا ہو گا۔

کیا یہ وینٹیلیٹر درآمد کردہ وینٹیلیٹر کا متبادل ہو سکتا ہے؟

وینٹیلیٹر
ڈاکٹر ریاض کے مطابق عام حالات میں ایک اچھے معیار کے وینٹیلیٹر کو درآمد کرنے کی قیمت 30 سے 35 لاکھ روپے پڑتی ہے۔ تاہم ان کے وینٹیلیٹر کی قیمت اس سے آٹھ سے دس گنا کم ہو گی

ڈاکٹر ریاض الدین کراچی کی این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے الیکٹریکل انجینیئرنگ کے شعبے کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور یونیورسٹی ہی میں قائم ہیپٹکس، ہیومن روبوٹکس اینڈ کنڈیشن مانیٹرنگ لیبارٹری کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔ وینٹیلیٹر اسی لیبارٹری میں تیار کیا گیا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ریاض الدین نے بتایا کہ ان کا تیار کردہ وینٹیلیٹر عالمی معیار کے عین مطابق ہے جو ان تمام تر طریقوں سے لیس ہے جو کسی بھی درآمد کردہ وینٹیلیٹر میں موجود ہوتے ہیں۔ انہیں تکنیکی زبان میں موڈز کہتے ہیں۔

‘اس میں تمام تر موڈز استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ اس کا معیار کسی بھی درآمدکردہ وینٹیلیٹر کے جیسا ہے لیکن اس کی قیمت کم ہو گی۔’

ڈاکٹر ریاض کے مطابق اس کو انتہائی نگہداشت کے شعبہ میں کسی بھی عمر یا کتنا بھی وزن رکھنے والے مریض کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

یونیورسٹی کے وائس چانسلر سروش حشمت لودھی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے ساتھیوں نے جو وینٹیلیٹر تیار کیا ہے وہ سات موڈز پر کام کر رہا ہے جبکہ ضرورت اس وقت محض چھ موڈز کی ہے۔

اس وینٹیلیٹر کو کن مریضوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے؟

وینٹیلیٹر بنیادی طور پر ایک ایسا مصنوعی نظام تنفس ہے جو سانس کے بیماریوں یا دیگر ایسے امراض میں مبتلا افراد کو سانس لینے میں مدد دیتا ہے جنہیں سانس لینے میں دشواری ہو۔ اس کو دو قسم کے بنیادی طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے یعنی انِویسو اور نان اِنویسو۔

انویسو طریقہ کار میں مریض کے پھیپھڑوں تک ایک ٹیوب پہنچائی جاتی ہے جسے ووینٹیلیٹر کے ساتھ ایک بریدنگ سرکٹ کے ذریعے جوڑ دیا جاتا ہے۔

نان انویسو طریقہ کار میں مریض کے منہ پر سانس لینے والا ماسک لگا کر سانس لینے میں مدد دی جاتی ہے۔

ڈاکٹر ریاض الدین اور ان کے ساتھی علی جمشید، محمد احمد اور عبید ظفر نے جو وینٹیلیٹر تیار کیا اسے ان دونوں قسم کے مریضوں میں استعمال کیا جا سکے گا اور اس کو پریشر کنٹرول یا والیم کنٹرول دونوں موڈز پر چلایا جا سکتا ہے۔

کووڈ 19 جو کہ نظامِ تنفس کی بیماری ہے اور اس کا کوئی علاج تاحال موجود نہیں تو زیادہ علیل ہو جانے والے مریضوں کو وینٹیلیٹر پر رکھا جا سکتا ہے تا کہ ان کو اس وقت تک زندہ رکھا جا سکے جب تک ان کا مدافعاتی نظام وائرس کو شکست نہیں دے دیتا۔ اس طرح مریض کی جان بچائی جا سکتی ہے۔

درآمدکردہ کے مقابلے یہ وینٹیلیٹر کتنا سستا ہو گا؟

وینٹیلیٹر
پاکستان انجینیئرنگ کونسل کے ماہرین اس کے جانچ پڑتال کر رہے ہیں جس کے بعد یہ وینٹیلیٹر کلینکل ٹرائلز کے لیے دستیاب ہو گا

پاکستان وینٹیلیٹر یا اس طرح کے دیگر الیکٹرو میڈیکل آلات ہمیشہ باہر سے منگواتا ہے۔

ڈاکٹر ریاض کے مطابق عام حالات میں ایک اچھے معیار کے وینٹیلیٹر کو درآمد کرنے کی قیمت 30 سے 35 لاکھ روپے پڑتی ہے۔ تاہم ان کے وینٹیلیٹر کی قیمت اس سے آٹھ سے دس گنا کم ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ چونکہ وینٹیلیٹر ایک زندگی بچانے والہ آلہ ہے اس لیے اس کے اندر استعمال ہونے والے پرزہ جات کے معیار کے حوالے سے کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔

‘یہ انتہائی اہم اور نازک آلہ ہے اور اسے انسانی زندگی بچانے کے لیے استعمال کیا جانا ہے اس لیے آپ اس کے معیار کے حوالے سے کسی قسم کا رسک نہیں لے سکتے۔’

موجودہ حالات میں جب عالمی منڈی میں وینٹیلیٹرز کی مانگ اور قیمت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے، تو ایسے میں این ای ڈی یونیورسٹی کے تیارکردہ وینٹیلیٹر کی قیمت مزید کم ہو جائے گی۔

ڈاکٹر ریاض الدین کا کہنا تھا کہ ان کا وینٹیلیٹر ڈیزائن ایسا ہے کہ اسے کورونا کی صورتحال کے بعد بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

یہ وینٹیلیٹر مقامی طور پر کتنی جلدی تیار کیے جا سکتے ہیں؟

ڈاکٹر ریاض الدین کے مطابق ابتدائی ڈیزائن اور نمونہ تیار کرنے کا مرحلہ مشکل اور طویل تھا تاہم انہوں نے دن رات کی محنت سے اسے ایک ماہ سے بھی کم وقت میں تیار کیا ہے جبکہ اس کے بعد کا مرحلہ آسان ہو گا۔

‘کسی مخصوص صنعت کو ٹاسک دے کر اس کی تیاری کا دورانیہ بہت کم کیا جا سکتا ہے اور ہم اس کو بڑے پیمانے پر کم وقت میں تیار کر سکتے ہیں۔’

یونیورسٹی کے وائس چانسلر سروش حشمت لودھی نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان انجینیئرنگ کونسل کے ماہرین اس کے جانچ پڑتال کر رہے ہیں جس کے بعد یہ وینٹیلیٹر کلینکل ٹرائلز کے لیے دستیاب ہو گا۔

‘ان ٹرائلز کے بعد اس کے باقاعدہ لائسنسنگ کے جائے گی اور اس کے بعد یہ صنعتی سطح پر بڑے پیمانے پر تیاری کے لیے دستیاب ہو گا۔ کسی صنعت کو دے کر اس کی بڑے پیمانے پر تیاری ممکن بنائی جا سکتی ہے جس کے لیے ایک دو کلائنٹ ہیں ہمارے پاس۔’

ان کا کہنا تھا کہ ایک ماہ میں کتنے وینٹیلیٹر تیار کیے جا سکتے ہیں اس کا دارومدار اس صنعت کی صلاحیت پر منحصر ہو گا۔

وینٹیلیٹر بنانے میں کیا مشکلات درپیش تھیں؟

وینٹیلیٹر
پاکستان میں کوئی باقاعدہ ایسا ادارہ ہی موجود نہیں جو الیکٹرومیڈیکل آلات کے لیے معیار طے کر سکے اور ان کی جانچ پڑتال کے بعد ان کے منظوری دے سکے

جن دنوں میں ڈاکٹر ریاض الدین اور ان کی ٹیم نے وینیٹیلیٹر کا نمونہ تیار کیا اس وقت لاک ڈاؤن ہو چکا تھا یعنی زیادہ تر صنعتیں بند تھیں۔ ڈاکٹر ریاض کے مطابق ابتدا میں انہیں پرزہ جات کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ پاکستان انجینیئرنگ کونسل بھی ان کے ساتھ تعاون کر رہی تھی اور انہوں نے یقین دہانی کروائی کہ ‘آپ کانسیپٹ تیار کریں، بعد میں پرزہ جات کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے قریبی دوست ممالک سے منگوائے بھی جا سکتے ہیں اور پاکستان میں مقامی طور پر بھی بنائے جا سکتے ہیں۔’

وینٹیلیٹر پاکستان میں پہلے کیوں نہیں بنایا جا سکا؟

ڈاکٹر ریاض اور ان کی طرح سامنے آنے والے دیگر انجینیئرز کی کاوش یہ ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان میں مقامی طور پر اس قسم کے آلات تیار کرنے کی صلاحیت ہے۔ تو ایسا کبھی ہوا کیوں نہیں؟

اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں کوئی باقاعدہ ایسا ادارہ ہی موجود نہیں جو الیکٹرومیڈیکل آلات کے لیے معیار طے کر سکے اور ان کی جانچ پڑتال کے بعد ان کے منظوری دے سکے۔

ڈاکٹر ریاض الدین کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ‘اس سوچ کو تبدیل کرنا ضروری ہے کہ جب بھی ہمیں کسی چیز کی ضرورت پڑی اور وہ مقامی طور پر دستیاب نہیں تو اسے درآمد کر لیا جائے گا۔’

انہیں امید ہے کہ کورونا وائرس کی صورتحال کے دوران وینٹیلیٹر تیار کرنے کی ان کے کوشش سے مستقبل میں اس سوچ کو تبدیل کرنے میں مدد ملے گی۔