کورونا وائرس: عالمی ادارہ صحت نے متنبہ کیا ہے کہ ’امیونیٹی پاسپورٹ‘ کورونا کی وبا کو پھیلا سکتے ہیں
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ حکومتیں کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کو ایسے سرٹیفکیٹس کا اجرا نہ کریں جن میں کہا گیا ہو کہ صحت یاب ہونے والے شخص کے جسم میں وائرس کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہو چکی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق مختلف حکومتوں کی جانب سے صحت یاب ہونے والے افراد کو ’خطرے سے پاک سرٹیفیکٹس‘ (جنھیں ’امیونیٹی پاسپورٹ‘ کا نام دیا گیا ہے) جاری کرنے کا مقصد لاک ڈاؤن میں نرمی برتنے کی راہ ہموار کرنا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے ایسے ’شواہد موجود نہیں‘ ہیں جو اس بات کی غمازی کر سکیں کہ کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کے جسموں میں اینٹی باڈیز تیار ہو چکے ہیں جو اس بات کو یقینی بنائیں کہ ایسے افراد دوبارہ وائرس کا شکار نہیں ہو سکتے۔
عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ حکومتوں کی جانب سے لیے جانے والے ایسے اقدامات دراصل وائرس کی منتقلی کو بڑھا سکتے ہیں۔ چند حکومتیں کورونا سے صحت یاب ہونے والے افراد کو کام پر جانے اور سفر کی اجازت دینے پر غور کر رہی ہیں۔
کورونا وائرس کی وجہ سے مختلف حکومتوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات نے عالمی معیشت کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ اب تک دنیا بھر میں کورونا کے 28 لاکھ سے زیادہ کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں اور دو لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کا کیا کہنا ہے؟
ڈبلیو ایچ او نے ایک مختصر نوٹ میں کہا ہے کہ ’اس بات کے کوئی شواہد نہیں کہ انفیکشن سے صحت یاب ہونے کے بعد جو لوگ اینٹی باڈیز تیار کر چکے ہیں انھیں دوبارہ انفیکشن نہیں ہو گا اور وہ اب اس سے محفوظ ہیں۔‘
اب تک جتنی تحقیق کی گئی ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ جو لوگ ایک بار کورونا انفیکشن سے ٹھیک ہوئے ہیں ان کے خون میں اینٹی باڈیز تیار ہو چکے ہیں، تاہم صحت یاب ہونے والے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن میں ان اینٹی باڈیز کی سطح بہت کم ہے۔
اس سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ جسم کے قوت مدافعت کے نظام میں موجود ’ٹی سیل‘ جو متاثرہ خلیوں کو ختم کرتا ہے وہ صحت یاب ہونے یا اس وائرس سے لڑنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق جمعہ تک ایسی کوئی تحقیق نہیں ہوئی ہے جو اس بات کی تصدیق کرے کہ کسی اینٹی باڈیز کی موجودگی مدافعتی نظام کو یہ صلاحیت فراہم کرتی ہے کہ وہ وائرس سے ہونے والے مزید انفیکشن کو روک سکے۔
عالمی ادارے نے کہا ہے کہ ’اس بات کے کافی شواہد موجود نہیں ہیں کہ وبا کی موجودہ صورتحال میں اینٹی باڈیز سے مدافعتی نظام کو موثر بنانے کے بعد استثنیٰ کے پاسپورٹ یا خطرے سے پاک سرٹیفکیٹ کا جاری کرنا موثر ہو گا۔‘
بی بی سی کی ہیلتھ رپورٹر ریچیل شرائر کا کہنا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کا ہدایت نامہ دنیا بھر کے محققین کی اطلاعات پر مبنی ہے۔ لیکن اس میں مزید تبدیلی ہو سکتی ہے کیونکہ ہمیں ہر روز اس وائرس کے بارے میں کچھ نئی معلومات حاصل ہو رہی ہیں۔
ابھی تک اس بات کے کوئی شواہد نہیں ملے کہ ایک بار جب آپ انفیکشن سے بچ گئے تو آپ کو دوبارہ انفیکشن نہیں ہو گا لہذا استثنیٰ پاسپورٹ کے تحت صحت یاب ہونے والے افراد کو چھوٹ دینا (سفر کرنے یا کام پر جانے کی اجازت) خطرناک ہو گا۔
جرمنی، اٹلی اور برطانیہ جیسے بہت سے ممالک میں اینٹی باڈیز پر تحقیق شروع ہو گئی ہے۔ برطانیہ میں ہر ماہ 25 ہزار افراد کے اینٹی باڈیز اور انفیکشن دونوں کے ٹیسٹ کیے جائیں گے۔
اس سے ہمیں زیادہ واضح معلومات حاصل ہوں گی کہ اینٹی باڈیز مدافعتی نظام کو دوبارہ انفیکشن نہ ہونے کے لیے کس حد تک تیار کر رہی ہے اور اس کی بنیاد پر مستقبل میں کیا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
کن ممالک میں ’استثنیٰ پاسپورٹ‘ پر غور کیا جا رہا ہے؟
گذشتہ ہفتے چلی کی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ ملک میں انفیکشن کے بعد صحت یاب ہونے والے افراد کے لیے ’ہیلتھ پاسپورٹ‘ کا اجرا شروع کیا جائے گا۔
حکام کا کہنا ہے کہ جانچ میں جن لوگوں کے جسم میں وائرس کے اینٹی باڈیز پائے جائیں گے وہ کام پر واپس آ سکتے ہیں۔
سویڈن کی حکومت نے اپنی عوام کو لاک ڈاؤن کے اس دور میں بھی بہت حد تک چھوٹ دے رکھی ہے۔ وہاں کے چند سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کم پابندیوں میں رہنے والے لوگوں کے مدافعتی نظام زیادہ سخت پابندیوں میں رہنے والوں کے مقابلے میں بہت زیادہ بہتر ہوتے ہیں۔
تاہم سویڈن کی پبلک ہیلتھ ایجنسی کے آندرے ویلنسٹین نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ استثنیٰ کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’اینٹی باڈیز کے بارے میں ہمیں زیادہ سے زیادہ جانچ کے بعد مزید معلومات حاصل ہوں گی کہ وقت گزرنے کے ساتھ کسی کو دوبارہ تو انفیکشن نہیں ہو رہا ہے۔‘
بیلجیئم میں، جہاں انفیکشن کی وجہ سے اموات کی شرح بہت زیادہ ہے، حکومت کے مشیر نے بی بی سی کو بتایا کہ 11 مئی سے آہستہ آہستہ لاک ڈاؤن میں نرمی لانے کا منصوبہ ہے۔ تاہم ان کی حکومت استثنیٰ پاسپورٹ کے سخت خلاف ہیں۔
بیلجیئم سے تعلق رکھنے والے ماہر سمیات (وائرس) پروفیسر مارک وان رینسٹ کہتے ہیں کہ ’مجھے کسی بھی شخص کو اس کی خون کی کوالٹی کی بنیاد پر سبز اور سرخ کارڈ دیے جانے کے خیال سے ہی نفرت ہے۔‘
’اس سے دھوکہ دہی بڑھے گی اور لوگ دانستہ طور پر خود کو وائرس سے انفیکٹ کریں گے۔ یہ اچھا خیال نہیں ہے۔ یہ بہت ہی بُرا تصور ہے۔‘