پاکستان: کیا کھیلوں کے انتظامی معاملات سنبھالنا صرف فوجی افسران کی ذمہ داری ہے؟
پاکستان میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کی طرح کھیلوں کے انتظامی معاملات میں بھی مسلح افواج کے حاضر یا ریٹائرڈ افسران کی موجودگی کوئی نئی بات نہیں ہے تاہم اس ضمن میں بحری اور فضائی فورسز کے مقابلے میں بری فوج کا اثرورسوخ ہمیشہ نمایاں نظر آتا ہے۔
پاکستان میں کھیلوں کے معاملات چلانے کے دو بڑے ادارے پاکستان سپورٹس بورڈ اور پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن ہیں۔
پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن میں حال ہی میں انتخابات منعقد ہوئے جن میں رائے دہی کی نوبت اس لیے نہیں آئی کیونکہ صدر سمیت تمام ہی عہدیداران بلامقابلہ منتخب ہو گئے۔
بلا مقابلہ جیتنے والے صدر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ ) سید عارف حسن ہیں۔ تاہم یہاں اہم بات یہ ہے کہ وہ پہلی بار سنہ 2004 میں صدر بنے تھے یعنی وہ گذشتہ 15 برس سے اس عہدے پر براجمان ہیں۔
دوسری جانب پاکستان سپورٹس بورڈ میں متعدد مرتبہ ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر پاکستان آرمی سے تعلق رکھنے والے افسران کی تقرری ہوتی رہی ہے۔
کتنی فیڈریشنز کی کمان مسلح افواج کے عہدیداران کے پاس ہیں؟
پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن سے الحاق شدہ قومی فیڈریشنز کی تعداد 34 ہے۔ ان 34 میں سے 11 ایسی فیڈریشنز ایسی ہیں جن کے صدور سویلین نہیں ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ سید عارف حسن تیراندازی کی فیڈریشن کے صدر ہیں جبکہ میجر جنرل ریٹائرڈ اکرم ساہی (ایتھلیٹکس)، بریگیڈیئر ریٹائرڈ افتخار منصور (باسکٹ بال)، لیفٹیننٹ جنرل میاں محمد ہلالہ (گالف)، بریگیڈیئر ریٹائرڈ خالد سجاد کھوکھر (ہاکی)، ایڈمرل ظفر محمود عباسی (شوٹنگ)، وائس ایڈمرل محمد امجد خان نیازی (کشتی رانی)، ایئر مارشل عاصم ظہیر (سکیئنگ)، ایئرچیف مارشل مجاہد انور خان (سکواش)، میجر ریٹائرڈ ماجد وسیم (سوئمنگ) اور لیفٹیننٹ کرنل وسیم احمد تائیکوانڈو کے صدر ہیں۔
پاکستان شوٹنگ فیڈریشن کے صدر ایڈمرل ظفر محمود عباسی بحریہ کے جبکہ ائیرچیف مارشل مجاہد انور خان فضائیہ کے سربراہ ہیں۔
فوجی افسران کی فیڈریشنز میں موجودگی کیوں؟
یہ سوال ہر دور میں کیا جاتا رہا ہے اور یہ بھی جاننے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ آیا حاضر یا ریٹائرڈ فوجی افسران سویلین افسران کے مقابلے میں زیادہ بہتر انداز سے ان فیڈریشنز اور اداروں کو چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟
پاکستان ایتھلیٹکس فیڈریشن کے صدر میجر جنرل (ریٹائرڈ) اکرم ساہی کا کہنا ہے کہ کسی بھی ایسے فوجی افسر کو کھیلوں کی فیڈریشن میں تب تک نہیں آنا چاہیے جب تک اس نے خود اس کھیل میں حصہ نہ لیا ہو، اسے چاہیے کہ وہ کوئی اور کام کرے۔
وہ کہتے ہیں کہ انھیں چند دوسرے کھیلوں کی فیڈریشنز کا صدر بننے کی پیشکش بھی ہوئی لیکن انھوں نے ایتھلیٹکس کا انتخاب اس لیے کیا کیونکہ وہ خود ایتھلیٹ رہے ہیں۔
یاد رہے کہ اکرم ساہی لانگ جمپ میں پاکستان کی نمائندگی بین الاقوامی سطح پر بھی کر چکے ہیں۔
اکرم ساہی کا کہنا ہے کہ ایسے فوجی افسران یا بیورو کریٹس جنھیں کھیلوں کا شوق ہے انھیں فیڈریشنز میں ضرور آنا چاہیے تاکہ وہ کھیلوں کو فروغ دے سکیں۔
’حاضر یا ریٹائرڈ افسران کو کھیلوں کی فیڈریشنز میں لانے کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ نظم و ضبط قائم کرتے ہوئے اچھی ایڈمنسٹریشن کریں لیکن ان افسران میں کھیل کا جنون ہونا بھی بہت ضروری ہے۔‘
اکرم ساہی کہتے ہیں کہ بہت سی سپورٹس فیڈریشنز کو ایسے صدور چاہیے ہوتے ہیں جو اپنی شخصیت کی وجہ سے ان کی مالی مدد کر سکیں لیکن ان شخصیات کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ان کے ماتحت لوگ پیشہ وارانہ انداز میں کام کرنے کی صلاحیت رکھتے بھی ہیں یا نہیں؟
پاکستان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے سابق سپورٹس ایڈیٹراور سینیئر صحافی انیس الدین خان کہتے ہیں کہ یہ تاثر درست نہیں ہے کہ فوجی افسران ہر کھیل میں نظر آتے ہیں۔
کئی فیڈریشنز کے کرتا دھرتا سویلین افراد ہیں، کسی بھی کھیل کی قومی فیڈریشن کا صدر ایک طریقہ کار کے تحت منتخب ہو کر آتا ہے جو کہ سویلین بھی ہو سکتا ہے اور غیر سویلین بھی۔
انیس الدین خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کھیلوں کی ترقی میں مختلف اداروں کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے، آرمی اور واپڈا ایتھلیٹکس میں نمایاں رہے ہیں۔
’ماضی میں پی آئی اے کا کردار سب سے اہم تھا جس نے ہر کھیل کی ٹیم بنا رکھی تھی خاص کر سکواش اور ہاکی میں اس کے پاس ورلڈ چیمپیئن کھلاڑی ہوا کرتے تھے۔‘
سکواش کے سابق عالمی چیمپیئن جہانگیر خان کہتے ہیں کہ سکواش فیڈریشن کی باگ ڈور ائیر فورس سے لے کر کسی سویلین کے حوالے کرنے سے پہلے یہ سوچنا ضروری ہے کہ کیا حکومت اس کھیل کے معاملات سنبھالنے کی پوزیشن میں ہو گی؟
’کیونکہ اس وقت سکواش کو جو کچھ حکومت یا سپورٹس بورڈ سے ملتا ہے وہ ناکافی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ سکواش کا کھیل اگر بچا ہوا ہے تو وہ ایئر فورس کی وجہ سے ہی ہے جس نے نہ صرف کھلاڑیوں کی سرپرستی کی ہے بلکہ بین الاقوامی مقابلے بھی منعقد کروائے ہیں۔
کیا فوجی افسران ہمیشہ کامیاب رہے ہیں؟
برگیڈیئر روڈیم کو پاکستان کے کھیلوں کی تاریخ میں ہمیشہ اہم مقام حاصل رہا ہے۔ انھوں نے فوج میں بھرتی ہونے والے جوانوں میں سے کئی ایسے ایتھلیٹس تیار کیے جنھوں نے بین الاقوامی مقابلوں میں شاندار کارکردگی دکھائی۔
ایئرمارشل نور خان کو بلاشبہ بابائے سپورٹس کہا جا سکتا ہے جنھوں نے سکواش اور ہاکی میں گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔
وہ پاکستان کی کھیلوں کی تاریخ کے سب سے کامیاب ایڈمنسٹریٹر کے طور پر جانے جاتے ہیں جن کی منصوبہ بندی نے ہاکی اور سکواش کو بامِ عروج پر پہنچا دیا تھا۔
جنرل موسیٰ خان جب بری فوج کے سربراہ تھے تو انھیں صدر ایوب خان نے پاکستان ہاکی فیڈریشن کی باگ ڈور دی تھی۔
بریگیڈیئر حمیدی نے پہلے کھلاڑی اور پھر کپتان کی حیثیت سے اپنی پہچان بنائی۔
وہ سنہ 1960 کے روم اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتنے والی پاکستانی ہاکی ٹیم کے کپتان تھے جس کے بعد وہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سیکرٹری بھی رہے۔
اسی طرح بریگیڈیئر عاطف نے بھی کھلاڑی اور ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے قابل ذکر خدمات سرانجام دیں۔
جنرل پرویز مشرف نے اقتدار میں آنے کے بعد منگلا کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل توقیر ضیا کو پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین مقرر کیا تھا۔
ان کے دور میں قومی کرکٹ اکیڈمی قائم ہوئی اور گراؤنڈز کی حالت بہتر کی گئی تاہم اس عرصے میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی ملی جلی رہی۔
جنرل پرویز مشرف ہی نے چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف جنرل عزیز کو پاکستان ہاکی فیڈریشن کا صدر بنایا تھا۔
ان کے ساتھ بریگیڈیئر مسرت اللہ سیکرٹری بنائے گئے تھے اور یہ وہ دور ہے جب پاکستان میں ہاکی کے زوال کا سفر شروع ہوا تھا اور آج جب بریگیڈئیر(ریٹائرڈ) خالد سجاد کھوکھر ہاکی فیڈریشن کے صدر ہیں تو پاکستانی ہاکی بین الاقوامی دھارے سے باہر ہوتے ہوئے اپنی پہچان کھو چکی ہے۔
تمغے کم ہوتے چلے گئے
پاکستان اتوار کے روز سے نیپال میں شروع ہونے والی 13ویں ساؤتھ ایشین گیمز میں شریک ہے۔
یہ وہ گیمز ہیں جن میں پاکستان کے مجموعی طلائی تمغے انڈیا کے بعد سب سے زیادہ ہیں لیکن گذشتہ چند برسوں میں کارکردگی کا معیار بری طرح متاثر ہوا ہے۔
اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سنہ 2006 کے ساؤتھ ایشین گیمز میں پاکستان نے 46 گولڈ میڈلز جیتے تھے۔
سنہ 2010 کی گیمز میں یہ تعداد کم ہو کر 19 جبکہ سنہ 2016 میں صرف 12 گولڈ میڈلز تک رہ گئی۔
پچاس اور ساٹھ کے عشروں میں پاکستان آرمی کے ایتھلیٹس عبدالخالق، غلام رازق، مبارک شاہ، محمد نواز، اقبال، مرزاخان نے ایشیئن گیمز، کامن ویلتھ گیمز اور ورلڈ ملٹری گیمز میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی تھیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان مقابلوں میں آرمی کے ایتھلیٹس بھی قابل ذکر کارکردگی نہیں دکھا سکے حالانکہ نیشنل گیمز میں وہ چھائے رہتے ہیں لیکن بین الاقوامی معیار سے وہ اب دور دکھائی دیتے ہیں۔
ایتھلیٹکس کے علاوہ ریسلنگ اور باکسنگ دو ایسے کھیل تھے جن میں پاکستان نے ساؤتھ ایشیئن گیمز اور کامن ویلتھ گیمز میں قابل ذکر کارکردگی دکھائی لیکن پاکستان باکسنگ فیڈریشن کی اندرونی سیاست اور کئی اداروں میں باکسنگ ٹیموں کے ختم کیے جانے کے بعد باکسرز حالات کے ہاتھوں ناک آؤٹ ہو چکے ہیں۔
ریسلنگ میں انعام بٹ کی شاندار کارکردگی پاکستان کو طلائی کے تمغے دلا رہی ہے لیکن وہ بھی حالات کی ستم ظریفی کا شکار ہیں کیونکہ انھیں بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کے لیے ٹریننگ کی جو سہولتیں درکار ہیں پاکستان سپورٹس بورڈ وہ فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔