ڈائنوسارز کا خاتمہ کرنے والا شہابِ ثاقب آخر اتنا ہلاکت خیز کیوں تھا؟
اس حوالے سے ایک واضح تصویر ابھرنے لگی ہے کہ زمین سے چھ کروڑ 60 لاکھ سال قبل ٹکرانے والا شہابِ ثاقب کس قدر تباہ کن تھا۔
ڈائنوسارز سمیت زمین کی 75 فیصد انواع کا خاتمہ کر دینے والا یہ خلائی پتھر ایک نئی تحقیق کے مطابق جس جگہ زمین سے ٹکرایا، تباہی پھیلانے کے لیے اس سے زیادہ خطرناک جگہ کوئی نہیں ہو سکتی تھی اور اس کے علاوہ اس کا زمین سے ٹکرانے کا زاویہ بھی سب سے ہلاکت خیز تھا۔
کمپیوٹر سمیولیشن اور اس گڑھے کی جگہ پر کی گئی تحقیق سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ٹکرانے والا یہ پتھر زمین کی سطح سے 60 ڈگری کے زاویے سے ٹکرایا، جس سے بے پناہ ماحولیاتی نقصان ہوا۔
ہمیں معلوم ہے کہ خلیجِ میکسیکو میں جن چٹانوں سے یہ پتھر ٹکرایا ان میں معدنی جپسم کی وجہ سے سلفر یا گندھک کی بڑی مقدار موجود تھی۔ جب یہ مواد فضا میں اوپر تک بلند ہوا اور آبی بخارات کے ساتھ ملا تو اس نے ‘عالمی جاڑے’ کو جنم دیا۔
اور ٹکراؤ کے زاویے نے یقینی بنایا کہ یہ ماحولیاتی بحران شدید تر اور طویل ہو۔
امپیریئل کالج لندن کے پروفیسر گیرتھ کولنز بتاتے ہیں: ’45 سے 60 ڈگری کے زاویے پر ٹکراؤ چٹانوں کو بخارات میں تبدیل کرنے اور ملبے کو فضا میں اچھالنے میں بہت مؤثر ہوتا ہے۔ اگر ٹکراؤ اس سے کم یا اس سے زیادہ زاویے پر ہو تو جتنا مادہ فضا میں پہنچے گا وہ اس قدر موسمیاتی تبدیلی کا سبب نہیں بنے گا۔’
بی بی سی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ‘یہ واضح ہے کہ جس جگہ یہ واقعہ ہوا اس کے محلِ وقوع اور ٹکراؤ کے زاویے نے مل کر ایک ہلاکت خیز طوفان پیدا کیا۔’
اور زمین پر موجود پودوں اور جانوروں نے اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مشکلات سے بھرپور صورتحال کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔
پروفیسر کولنز اور ان کے ساتھیوں کا کام تحقیقی جریدے نیچر کمیونیکیشنز میں شائع ہو چکا ہے۔
پروفیسر کولنز ایک بین الاقوامی تحقیقی ٹیم کا حصہ ہیں جو ہلاکت کا پیغام بننے والے اس شہابِ ثاقب کے گرنے سے پیدا ہونے والے گڑھے کی ساخت پر تحقیق کر رہے ہیں۔
آج 200 کلومیٹر عرض کا حامل یہ گڑھا میکسیکیو کے جزیرہ نُما یوکاتان کے نیچے ہے اور اس کا سب سے محفوظ حالت میں موجود وسطی حصہ چکسولوب کی بندرگاہ سے تھوڑا دور ہی موجود ہے۔
یہ اندازہ لگانا بھی مشکل ہے کہ اتنا بڑا گڑھا پیدا کرنے کے لیے کس قدر قوت لگی ہوگی۔
اس شہابِ ثاقب کے بارے میں خیال ہے کہ اس کا قُطر 12 کلومیٹر تھا، اور اس نے زمین کی سب سے اوپری سطح میں تقریباً 30 کلومیٹر گہرا سوراخ کر دیا۔ جب اس پیالے نما گڑھے کی بنیاد میں موجود پتھر پگھلے تو انھوں نے چند ہی منٹوں میں دنیا کے بلند ترین پہاڑ ماؤنٹ ایوریسٹ سے بلند پہاڑ کھڑا کر دیا۔ لیکن یہ باقی نہ رہ سکا اور واپس ڈھے گیا اور باقیات کے طور پر حلقوں کی صورت میں چوٹیاں چھوڑ دیں۔
پروفیسر کولنز کے نقطہ نظر سے جو بات دلچسپ ہے وہ چکسولوب کے مقام پر غیر متناسب ڈھانچوں کی موجودگی ہے۔
مثال کے طور پر اگر آپ اس گڑھے کے درمیان میں دیکھیں، اس کی چوٹیوں کے حلقے اور اس اٹھی ہوئی چٹان کو دیکھیں جو زمین کی بالائی سطح کے نیچے موجود ہے، تو یہ تمام چیزیں ایک دوسرے کے عین اوپر موجود نہیں ہیں۔ یہ درحقیقت شمال مشرق سے جنوب مغرب کی سمت میں موجود ہیں اور گڑھے کا مرکز چوٹیوں کے حلقے کے درمیان ہے۔
یہ کلیہ یہ جاننے کے لیے اہم ہے کہ یہ شہابِ ثاقب کس سمت سے آیا اور زمین سے کس زاویے سے ٹکرایا۔
امپیریئل کالج کے محقق ڈاکٹر کولنز نے یو کے سائنس اینڈ ٹیکنالوجیز فیسیلیٹیز کونسل کی ڈائریک ہائی پرفارمنس کمپیوٹنگ فیسیلیٹی پر کئی سمیولیشن چلائیں۔
اور گڑھے کی حقیقی ساخت سمیولیشن میں صرف تب حاصل ہو سکتی ہے جب یہ شہابِ ثاقب شمال مشرق کی سمت سے آئے اور 60 ڈگری کے زاویے سے زمین سے ٹکرائے۔
تحقیق کی شریک مصنف پروفیسر جواینا مورگن کہتی ہیں: ‘ٹکراؤ کی سمت جاننے کا مطلب ہے کہ ہمیں اب معلوم ہے کہ مذکورہ جگہ کے کون سے حصے پر سب سے زیادہ دباؤ پڑا تھا۔
اور یونیورسٹی آف ٹیکساس (آسٹن) کے پروفیسر شان گلیک نے بی بی سی نیوز کو بتایا: ‘اس نئی ماڈلنگ سے ہمیں ٹکراؤ کے زاویے اور سمت کے بارے میں واضح جواب ملتا ہے جس سے ایک طویل عرصے سے جاری بحث کا کافی حد تک تصفیہ ہوجاتا ہے۔’
وہ کہتے ہیں کہ ’60 ڈگری کا زاویہ ان بدترین زاویوں میں سے ہے جو بڑی تعداد میں گندھک کی چٹانوں کو بخارات میں تبدیل کر کے فضا میں پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اس لیے یہ نتائج یہ سمجھنے کے لیے ضروری ہیں کہ یہ شہابِ ثاقب ہلاکت کی وجہ کیسے بنا۔
گلیک اور مورگن نے اس مہم کی سربراہی کی تھی جس نے 2016 میں چکسولوب گڑھے میں کھدائی کی تھی تاکہ ان میں سے تجزیے کے لیے کچھ پتھر حاصل کیے جا سکیں۔
اس کے بعد ایک ہائی ریزولوشن سیسمک سروے رواں گرمیوں میں کیے جانے کی توقع ہے جو اس پوری جگہ کی ایک بہتر سہ جہتی تصویر پیش کرے گا۔
زمین پر زندگی بدل دینے والا واقعہ
- سائنسدانوں کا خیال ہے کہ چھ کروڑ 60 لاکھ سال قبل ایک 12 کلومیٹر چوڑا پتھر زمین سے ٹکرایا تھا۔
- اس سے پیدا ہونے والا گڑھا تقریباً 200 کلومیٹر وسیع ہے اور اس کا بڑا حصہ زیرِ آب ہے۔
- ماہرین نے اس گڑھے میں کھدائی کی تاکہ اس کے پتھروں کا تجزیہ کیا جا سکے اور اس پورے واقعے کی منظر کشی کی جا سکے۔
- وہ کہتے ہیں کہ اس ٹکراؤ کی قوت بلاشبہ اتنی تھی کہ اس نے بڑے پیمانے پر انواع کو معدوم کر دیا۔