صحت

تازہ یا ٹِن میں محفوظ، کس خوراک میں زیادہ غذائیت؟

Share

ٹِن کے ڈبوں میں محفوظ یا یخ بستہ سبزیوں کے بارے میں عموماً خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں تازہ سبزیوں کی نسبت غذائیت کم ہوتی ہے۔ لیکن ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا ہے۔

حالیہ چند ہفتوں میں جب لوگ اپنے اپنے گھروں میں خوراک کا ذخیرہ جمع کرنے کو کوششیں کر رہے ہیں تو یخ بستہ اور ٹِن کے ڈبوں میں محفوظ خوراک کی فروخت میں اضافہ ہو گیا ہے۔

یہاں تک کہ فریزر کی فروخت بھی بڑھ گئی ہے۔ لیکن ہم عاموماً یہ سیکھتے رہے ہیں کہ سبزیوں اور پھلوں میں تو غذائیت صرف ان کے تازہ ہونے میں ہوتی ہے۔

اگر ہم ٹِن کے ڈبوں میں محفوظ یا برف کی طرح جمی ہوئی سبزیاں استعمال کرتے ہیں تو کہیں ہم اپنے صحت کو نقصان تو نہیں پہنچا رہے ہیں؟

اقوام متحدہ کے عالمی خوراک کے ادارے ‘فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائیزیشن، سے وابستہ ماہرِ غذائیت فاطمہ ہاشم اس سوال کا جواب دیتے وقت کہتی ہیں کہ یہ بات ذہن میں ہونی چاہیے کہ ایسی خوراک اُس وقت بہت زیادہ لذیذ ہوتی ہے جب اس کا موسم ہوتا ہے اور وہ تازہ ہوتی ہیں۔

تازہ پھل اور سبزی اس وقت سے گلنا شروع ہو جاتی ہے جب انھیں باغات یا کھیتوں سے چن لیا جاتا ہے کیونکہ باغات کے درخت اور کھیتوں کی مٹی ان کی اپنی غذائیت اور توانائی کا ذریعہ ہوتی ہیں۔

فاطمہ ہاشم کہتی ہیں کہ ‘پکا کر کھانے والی سبزیوں کی غذائیت میں کمی واقع ہو جاتی ہے اگر انھیں دیر تک سٹور میں رکھا جائے۔’

جب ایک پھل کو چُن لیا جاتا ہے تو یہ اپنی ہی غذائیت کو استعمال کرنے لگتا ہے تاکہ اپنے خلیوں کو زندہ رکھ سکے۔ اور ان میں غذائیت کےکچھ عناصر بہت ہی نازک ہوتے ہیں۔ وٹامن سی انسانی جسم میں آئرن ہضم ہونے میں مدد دیتی ہے، کولیسٹرل کی مقدار کو کم کرتی ہے اور بے مہار ذرات سے جسم کو محفوظ رکھتی ہے، یہ آکسیجن اور سورج کی روشنی کے جسم پر بہتر اثرات بنانے میں بھی مدد دیتی ہے۔

فریج میں رکھنے سے پھلوں اور سبزیوں کے پکنے اور گلنے کا عمل سست ہوجاتا ہے، تاہم ہر پھل اور ہر سبزی کی غدائیت کھو دینے کے عمل کی اپنی اپنی میعاد اور رفتار ہوتی ہے۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی سابق ماہرِ غدائیت اور محقق، ڈائین بیرٹ نے یخ بستہ، ٹِن کے ڈبوں میں محفوظ اور تازہ سبزیوں میں غذائیت کے عناصر کے بارے شائع ہونے والی کئی ایک تحقیقات کا مطالعہ کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر ساگ کو عام درجہ حرارت یعنی 20 سیلسیس پر رکھا جائے تو اس میں موجود وٹامن سی صرف سات دنوں میں سو کی سو فیصد ضائع ہوجاتی ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں اگر اسے فریج میں رکھا جائے تو 75 فیصد کمی ہوگی۔ لیکن اس کے برعکس گاجروں کی وٹامن سی صرف 27 فیصد کم ہوگی اگر اسے عام درجہ حرارت میں ایک ہفتے کے لیے رکھا جائے۔

گاجر
گاجروں کی وٹامن سی صرف 27 فیصد کم ہوگی اگر اسے عام درجہ حرارت میں ایک ہفتے کے لیے رکھا جائے، لیکن دوسری سبزیوں یا پھلوں کے مقابلے میں یہ بہتر ہے

بیرٹ کہتی ہیں کہ ‘ساگ بہت مہین ہوتا ہے، اس لیے گرمی اور آکسیجن لگنے سے اس میں موجود پانی تیزی سے کم ہوتا ہے، جبکہ گاجر کیونکہ ذرا موٹی ہوتی ہے اس لیے اس کی غذائیت تیزی سے کم نہیں ہوتی ہے۔’

بیریٹ کی تحقیقات کے مطابق دیگر سبزیاں جب انھیں فریج میں رکھا گیا تو ان کی وٹامن سی تیزی سے ضائع نہیں ہوئی، ان میں ساگ بھی شامل ہے جس کی غذائیت فریزر میں رکھے جانےکے دوران صرف 30 فیصد کم ہوئی۔

اس کی وجہ یہ ہے کے فریزر میں یخ بستہ رکھنے سے اس میں سے آکسیجن کا عملِ تکسید رُک جاتا ہے اور یہی ایک وجہ ہے جس سے پھل اور سبزیاں چُنے جانے کے بعد بھوری ہونے لگتی ہیں۔

تیزی سے یخ بستہ کرنا

خوراک کی صنعت میں مشینوں کے ذریعے یخ بستہ رکھنا ایک لحاظ سے ایک تازہ ایجاد ہے۔

مٹر ہی کی مثال لے لیجیے۔ آج کے دور میں مٹر کی فصل کو کاٹا جاتا ہے، فیکٹری میں لے جایا جاتا ہے، دھویا جاتا ہے، اُسے اُجلا کیا جاتا ہے اور پھر یخ بستہ کیا جاتا ہے۔ یہ سارا کام صرف دو گھنٹوں کے اندر ہوتا ہے۔ سنہ 1970 میں اس سارے عمل میں کئی دن لگ سکتے تھے۔

برطانیہ میں یخ بستہ خوارک کی صنعت کی نمائیندہ تنظیم برِٹش فروزن فوڈ فیڈریشن کے سربراہ رچرڈ ہیرو کہتے ہیں کہ ‘اس وقت کا آپ تازہ پھلوں اور سبزیوں سے موازنہ کیجئیے، ان میں زیادہ تر چُننے کے عمل سے لے کر پیکنگ، سٹوروں تک پہنچنے اور پھر گاہکوں تک پہنچنے میں کتنا وقت لگتا ہے۔ 99 فیصد مرتبہ اُتنا ہی وقت جتنا مٹر کی فصل کے کٹنے سے لے کر گاہک تک پہنچنے میں لگتا ہے۔’

خوراک کی صنعت نے ایسی ترقی کر لی ہے کہ یہ فصل کٹنے کے فوراً بعد ہے پھلوں اور سبزیوں کو یخ بستہ کرلیتی ہے۔

رچرڈ ہیرو کہتا ہے کہ یخ بستہ خوراک کی صنعت میں تیز رفتاری سے کام کرنا بہت اہم ہے۔ جیسے ہی کسی فصل کو کاٹا جاتا ہے اس کی غذائیت کم ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ نت نئی ٹیکنالوجی نے گزشتہ چند دہائیوں میں مٹر سمیت دیگر سبزیوں اور پھلوں کو یخ کرنے کے وقت کو بہت کم کردیا ہے۔

تاہم اس میں ایک مسئلہ ہے۔ اس سے پہلے کہ کسی پھل یا سبزی کو یخ کیا جائے اِسے دھویا اور اجلا کیا جاتا ہے اور اس عمل کے دوران ان کا درجہ حرارت زیادہ ہوتا ہے۔ بیرٹ کا کہنا ہے کہ ایسا اس لیے کرنا پڑتا ہے تاکہ غیر ضروری اینزائیم جو پھل اور سبزیوں کو تیزی سے پکاتے ہیں اور وہ عناصر جو اس کی رنگت بدلتے ہیں، انھیں غیر فعال کیا جا سکے۔

لیکن اسی عمل سے اس کی غذائیت میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔

ٹِن کے ڈبوں میں محفوظ خوراک

تاہم اس عمل سے خوراک میں غذائیت کی کمی کا نقصان اُس وقت ماند پڑ جاتا ہے جب اسی خوراک کو ٹن کے ڈبوں میں محفوظ کرنے کے لیے اس سے بھی زیادہ درجہ حرارت کی حدت استعمال کی جاتی ہے۔ بیرٹ کہتی ہےکہ دھات سے بنے ڈبوں میں خوراک کو بند کرنے اور محفوظ کرنے کے لیے زیادہ حدت کی ضرورت ہوتی ہے جس سے یخ بستہ کرنے کی ٹیکنالوجی کی نسبت غذائیت میں کمی زیادہ مقدار میں واقع ہوتی ہے۔

لیکن جیسا کہ تازہ پھلوں اور سبزیوں کے ساتھ ہوتا ہے ان میں پکنے اور گلنے کی مختلف رفتار کی وجہ سے ان میں غذائیت کی کمی بھی مختلف رفتار سے ہوتی ہے۔

بیرٹ کو اپنے مطالعے کے دوران معلوم ہوا کہ پھلوں اور سبزیوں میں وٹامن سی اور وٹامن بی سمیت پانی میں حل ہوجانے والی غذائیت اپنی اس طاقت کو وٹامن اے اور وٹامن ای جیسی چربی میں حل ہونے والی غذائیت کی نسبت مختلف دورانیے تک محفوظ رکھتی ہیں۔ ان کے مطالعے سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کا وٹامن سی کے لیے تازہ پھل اور سبزیاں بہترین ہیں کیونکہ وٹامن سی حدت کے سامنے بہت حساس ہے۔

تاہم ایسے پھل اور سبزیاں جن میں وٹامن اے اور وٹامن ای ہوتی ہے مثلاً چنے اور ٹماٹر انھیں جب ٹِن کے ڈبوں میں محفوظ کیا جاتا ہے، وہ اپنی غذائیت نہیں کھوتے ہیں۔

لیکن ٹِن کے ڈبوں میں محفوظ خوراک کو بھی اور زیادہ بہتر کیا جا سکتا ہے۔

فاطمہ ہاشم کہتی ہیں کہ ‘ٹِن کے ڈبوں میں محفوط یا یخ بستہ پھل اور سبزیوں کے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم یخ بستہ خوراک کے استعمال کو ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ ان میں کچھ نمک ملایا جاتا ہے جبکہ ٹن کے ڈبوں میں محفوظ کی جانے والی خوراک میں نمک کے ساتھ چینی کی بھی آمیزش کی جاتی ہے۔’

مٹر
ٹن کے ڈبوں میں محفوظ کی جانے والی خوراک میں نمک کے ساتھ چینی کا اضافہ کیا جاتا ہے

اس کے باوجود بھی ٹِن کے ڈبے خوراک کو زیادہ محفوظ رکھ سکتے ہیں خاص کر ایسے پھلاور سبزیاں جن میں مرضِ زا (پیتھوجینز) پلتے ہوں۔

بیرٹ کہتی ہیں کہ ‘ٹِن کے ڈبوں میں محفوظ خوراک کی اچھی بات یہ ہے کہ انھں اچھی طرح جراثیم وغیرہ سے پاک کیا جاتا ہے۔ ان سے ان کی غذائیت میں زیادہ کمی آتی ہے، لیکن جب خوراک ٹِن میں محفوظ ہوجاتی ہے تو یہ ایک لمبے عرصے کےلیے محفوظ ہوجاتی ہے اور آپ ان کے محفوظ ہونے کا یقین کرسکتے ہیں کیونکہ یہ ایک ایسے عمل سے گزرے ہوتے ہیں جس کے دوران جرثومے مارے جاتے ہیں۔’

تازہ پھل اور سبزیاں

فاطمہ ہاشم کہتی ہیں کہ سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ آپ اپنی غذا میں مختلف انواع کی اشیا شامل کریں جن میں اکثر اوقات تازہ، یخ بستہ اور ٹِن کے ڈبوں میں محفوظ سبھی قسم کی غذائیں ہوتی ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ ہم مختلف اقسام کی خوراک کھائیں اس طرح ہم یخ بستہ اور ٹِن کے ڈبوں میں محفوظ سبھی قسم کی غذائیں کھائیں گے

‘آپ یخ بستہ یا ٹِن کے ڈبوں سے نکال کر مختلف سبزیاں پکا سکتے ہیں لیکن یہ دونوں ہی تازہ پھل اور سبزیوں کے متبادل نہیں ہو سکتے ہیں۔’۔۔۔۔

فاطمہ ہاشم کے مطابق، ‘لاک ڈاؤن سے مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس بات کو کس طرح یقینی بنائیں کہ ہمارے پھل اور ہماری سبزیوں کی غذائیت کا معیار اچھا ہو جب کہ ہمیں حکام کہہ رہے ہیں کہ ہفتے میں ایک مرتبہ شاپنگ کریں۔ اگر ہم سلاد کی ایک پلیٹ روزانہ کھا سکتے ہیں جس میں یخ بستہ یا ٹِن کے ڈبوں میں محفوظ سبزیاں اور پھل استعمال کیے گئے ہوں، تو ہم اپنی متوازن خوراک میں کوئی خطرہ مول نہیں لیتے ہیں، بلکہ شاید اس طرح غذائیت میں ایک تنوع بھی پیدا ہوتا ہے۔’

بعض ماہرین یہ بھی کہتے ہیں دیسی خوراک اور مقامی پھل اور سبزیوں کے کھانے سے آپ کو زیادہ غذائیت ملتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق کئی ایک تحقیقات یہ بتاتی ہیں کہ ایسے پھل اور سبزیاں جن میں ‘فینولکس’ موجود ہوتی ہے یعنی غدائیت کے وہ مرکب جو ریڈ وائین اور چائے میں پائے جاتے ہیں، وہ دیسی یا ‘آرگینِک’ خوراک میں دیگر روایتی خوراک کی نسبت زیادہ موجود ہوتے ہیں۔

اس بارے میں کوئی خاص تحقیقی مواد نہیں ہے جو یہ بتا سکے کہ ایسا کیوں ہے، لیکن شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ دیسی طریقے میں کرم کُش ادویات استعمال نہیں کی جاتی ہیں۔ اپنی بقا کے لیے دیسی پھل اور سبزیاں یا دوسری فصلیں زیادہ مقدار میں فینولکس کے مرکبات پیدا کرتی ہیں جو کیڑے مکوڑوں اور بیماریوں کو عام فصلوں کی نسبت زیادہ دور بھگاتے ہیں۔

انڈہ
بعض ماہرین کے مطابق دیسی خوراک میں غذائیت زیادہ ہوتی ہے

لیکن تازہ پھل اور سبزیوں کی طرح مقامی طور پر پیدا ہونے والی خوراک یا دیسی خوراک کو آپ آسانی سے تو نہیں خرید سکتے ہیں خاص کر ان لاک ڈاؤن کے ایام میں۔

اور اس کے علاوہ ماہرین کے مطابق، اس بات کو غذا کے انتخاب میں ایک رکاوٹ نہیں ہونا چاہئیے۔ آیا یہ یخ بستہ پھل یا سبزیاں ہوں، ٹِن کے ڈبے میں محفوظ ہوں یا تازہ ہوں، ماہرین کا اس بات پر اتفاقِ رائے ہے کہ سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہم اچھی خوراک، پھل اور سبزیاں کھائیں چاہے انھیں کسی بھی طرح پیش کیا گیا ہو۔

برطانیہ کے صحت کے ادارے نیشنل ہیلتھ سروس کے مطابق چاہے تازہ ہوں یا یخ بستہ، ٹِن کے ڈبے میں محفوظ ہوں یا خشک میوے کی صورت میں ہوں، ان سب کو اپ دن میں پانچ مرتبہ آپ کے کھانے کا حصہ ہونا چاہئیے۔

بیرٹ کہتی ہیں ‘آپ کو پھل اور سبزیاں کھانی چاہئیے چاہے وہ تازہ ہیں، یخ بستہ ہیں یا ٹِن کے ڈبے میں محفوظ ہیں یا کشید کی ہوئی ہیں۔ ان میں ہر ایک میں غذائیت موجود ہے۔’

‘سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ آپ پھل اور سبزیاں کھانا روک نہ دیں۔’