ہوائی حادثات، پاکستان اور تفتیشی عمل
” محمد آفاق دریز “
پاکستانی محکمہ ہوا بازی کی تاریخ میں متعدد فضائی حادثے رونماہوئے جن میں سینکڑوں قیمتی اور بے گناہ جانوں کا زیاں ہوا ہے۔ ماضی قریب کے چند حادثات کا تذکرہ کرنا ضروری ہے کیونکہ ان حادثات کی تحقیقی رپورٹ کی شفافیت نے عوام اور اس شعبے سے منسلک لوگوںکیلئے ایک گہرا سو الیہ نشان چھوڑا ہے۔
مورخہ۷ دسمبر ۱۹۱۶کو پی آئی اے کی پرواز پی۔کے۶۶۱چترال سے اسلام آباد جاتے ہوئے حویلیاں کے قریب حادثے کا شکار ہو گئی۔ جہاز میںعملے سمیت تمام سینتالیس مسافر لقمۂ اجل بن گئے۔ اس فضائی حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ ابھی شائع بھی نہ ہوئی تھی کہ ایک اور سانحہ رونما ہو گیا۔ مورخہ ۲۲مئی ۲۰۲۰ کو پی آئی اے کی پرواز پی۔کے۸۳۰۳لاہور سے کراچی جاتے ہوئے ماڈل کالونی کراچی میں حادثے کا شکار ہو گئی۔ حادثے میںعملے سمیت ستانوے مسافر لقمۂ اجل بن گئے جبکہ دو مسافر معجزانہ طور پر اس حادثے میں بچ گئے۔ زندہ بچ جانے والے ایک فرد نے انکشاف کیا کہ پہلیلینڈنگ کے دوران طیارے نے رن وے کو واقعتًا تین بار چھوا تھا۔ چونکہ اس بات کا قوی امکان ہے کہلینڈنگگیئر نہیں کھلے تھے لہٰذا اس ضمن میں دونوں انجنوں کے آئل کے ٹینکوںیا ایندھن کے پمپوں کو نقصان پہنچنے کے اندیشے کو نظر انداز نہیںکیا جا سکتا۔
ماضی کے حادثات کیتفتیشی رپورٹس جو سول ایویایشن اتھارٹی شائع کر چکی ہے، ان میں سے کچھ قابل ذکر ہیں۔ان میں پہلا حادثہ ۲۸ جولائی۲۰۱۰کو ایئربلیو کی پرواز اے۔بی۔کیو۲۰۲کو کراچی سے اسلام آباد جاتے ہوئےمار گلہ کی پہاڑیوں میں پیش آیا جس میں طیارہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ حادثے میںعملے کے چھ ارکان سمیت ایک سو باون افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ حادثے کے ایک سال پانچ ماہ بعد ۲۸ دسمبر ۲۰۱۱کو منظر عام پر لائی گئی جس میں حادثے کی وجہ پائلٹ کی غفلت بتائی گئی۔
اسی طرح دوسرا حادثہ ۲۰ اپریل۲۰۱۲کو بھوجا ایئر کی پرواز بی۔ایچ۔او۲۱۳کو کراچی سے اسلام آباد جاتے ہوئے پیش آیا جس میں طیارہ روات کے قریب گر کر تباہ ہو گیا۔ حادثے میںعملے کے چھ ارکان سمیت ایک سو ستائیس افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ طیارے کی تحقیقاتی رپورٹ دو سال نو ماہ بعد ۲۱ جنوری۲۰۱۶کو منظر عام پر لائی گئی۔ اس میں حادثے کی وجہ پائلٹ کی غفلت بتائی گئی۔
تیسرا حادثہ ۱۰ جولائی۲۰۰۶کو پی آئی اے کی پرواز پی کے ۶۸۸کو ملتان سے لاہور جاتے ہوئے پیش آیا جس میں طیارہ ملتان سے اڑان بھرنے کے فوراً بعد ہی گر کر تباہ ہو گیا۔ حادثے میںعملے کے چار ارکان سمیت پینتالیس افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ طیارے کی تحقیقاتی رپورٹ حادثے کے چھ سال دس ماہ کے بعد ۱۱مئی۲۰۱۲کو منظر عام پر لائی گئی۔ اس میں بھی حادثے کی وجہ پائلٹ کی غفلت بتائی گئی۔
انتفتیشی رپورٹوں کے منظر عام پر لائے جانے کے انداز سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نجیایئر لائن آپریٹرز کی رپورٹوں کو دو سے تین سال کے اندر سول ایویایشن کیویبسائٹ پر شائع کردیا گیا، لیکن پی آئی اے کے حادثات کی رپورٹ کو منظر عام پر لانے میں سات سال سے زائد عرصہ لگ گیا جس کی زندہ مثال حویلیاں حادثے کا شکار ہونے والا اے۔ٹی۔آر طیارہ ہے، جس کی تحقیقاتی رپورٹ تقریباً چار سال گزر جانے کے باوجود بھی شائع نہ کی جا سکی۔
اس تمام صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے پرواز نمبرپی۔کے۶۶۱اور ۸۳۰۳کے متاثرین جنہوں نے جنید جمشید سمیت اپنے پیارےکھوئے ہیں، وہ قومی پرچم بردار فضائی ادارے سے کیا کوئی امید رکھ سکتے ہیں؟ وہ صرف یہ خواہش ہیکرسکتے ہیں کہ موجودہ حکومت اور بالخصوص وزیر اعظم، اسلامی جمہوریہ پاکستان واقعتًا تبدیلی کے علم بردار بن کر حالیہ حادثے کیبر وقت تحقیق مکمل کرنے کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ اس کی شفافیت کو یقینی بنائیں گے۔ مزیدبرآںانکوائری رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد حادثے کے ذمے داران کو کڑی سے کڑی سزا سنا کر مرحومین کے ورثاء کو انصاف دلایاجائے۔
کیانئے پاکستان میںیہ ممکن ہو پائے گا؟
ایک شکستہ دل پاکستانی کی آواز!!!
اسلام علیکمآ کی تحری اچھی ہے کطھ تاریخوں میں فرق ہے مثلاً پی کے 661 کا واقعہ 1916 میں نہیں بلکہ 2016 میں ہوا ۔ بی ایچ 212 کی رپورٹ دو سا لنو ماہ بعد نہیں بلکہ تین سال نو ماہ بعد منظر عام پر آئی شکریہ وسلام