اداکارہ عظمیٰ خان نے ان پر تشدد کرنے والی خواتین کےخلاف مقدمہ واپس لے لیا
لاہور: اداکارہ عظمیٰ خان نے ان کے گھر میں گھس کر تشدد کرنے والی 3 خواتین اور ان کے مسلح گارڈز کے خلاف دائر مقدمہ واپس لے لیا۔
واضح رہے کہ اداکارہ نے چند خواتین کے خلاف مقدمہ درج کروایا تھا جن کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ وہ بزنس ٹائیکون ملک ریاض کی بیٹیاں ہیں اور انہوں نے مسلح گارڈز کے ہمراہ ان کے گھر میں گھس کر اشتعال انگیزی کی۔
عظمیٰ خان کی قانونی ٹیم کے سابق رکن نے دعویٰ کیا کہ دونوں فریقین کے مابین تنازع حل ہوچکا ہے جس کے بعد تمام مقدمات واپس لیے جارہے ہیں۔
تاہم سمجھوتے سے متعلق کوئی دستاویزات سامنے نہیں آسکی ہیں۔
مذکورہ واقعے کی کچھ ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں جس میں اداکارہ اور ان کی بہن ہما خان پر تشدد کرتے دیکھا گیا تھا۔
اس کے بعد اداکارہ نے پولیس کو شکایت درج کروائی جس کی روشنی میں27 مارچ کو ملک ریاض کی بیٹیوں پشمینہ ملک، عنبر ملک اور عثمان ملک کی اہلیہ آمنہ عثمان ملک سمیت دیگر نامعلوم مسلح افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا تھا جو ان خواتین کے ہمراہ آئے تھے۔
بعد ازاں عظمیٰ خان نے کسی بھی نوعیت کی ڈیل سے متعلق خبروں کو محض قیاس آرائیاں قرار دیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’یہ افواہ ہیں اور اس ضمن میں کوئی ڈیل نہیں ہو رہی‘۔
عظمیٰ خان نے مزید کہا تھا کہ مشتبہ افراد نے ان سے کوئی رابطہ کیا اور نہ ہی وہ کوئی ڈیل قبول کریں گی۔
تاہم اب اداکارہ نے ڈیفنس سی پولیس میں ایک درخواست جمع کرائی جس میں کہا گیا کہ ’میں نے گزشتہ ہفتے غلط فہمی کی بنیاد پر مقدمہ درج کرایا تھا جس سے دستبردار ہو رہی ہوں‘۔
انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں ابھی تک کوئی چالان بھی جمع نہیں کرایا گیا۔
عظمیٰ خان نے مزید کہا کہ ’میں مذکورہ معاملے میں کوئی گواہی یا بیان نہیں دینا چاہتی‘۔
علاوہ ازیں انہوں نے فوجداری ضابطہ اخلاق (سی آر پی سی) کی دفعہ 164 کے تحت لاہور کینٹ عدالت کے جوڈیشل مجسٹریٹ نعمان ناصر کے سامنے بھی ایسا ہی بیان ریکارڈ کرایا کہ وہ کیس واپس لینا چاہتی ہیں۔
عظمیٰ خان کی بہن ہما نے سی آر پی سی کی دفعہ 164 کے تحت درج اپنے الگ بیان میں کہا کہ ’ان کے گھر میں اس طرح کا واقعہ نہیں ہوا‘۔
ہما نے اقرار کیا کہ ’دوسرے فریق (خواتین اور مسلح گارڈز) نے ان پر کوئی تشدد نہیں کیا‘۔
علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں جو چوٹ نظر آئی وہ (میز) کے شیشے سے لگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایف آئی آر میں نامزد ملزمان ’بے گناہ‘ ہیں۔
اداکارہ کی بہن نے مزید کہا کہ ’میری بہن یعنی عظمیٰ خان نے غلط فہمی کی وجہ سے فوری ایف آئی آر درج کروائی، لہٰذا اسے منسوخ کردیا جائے‘۔
واضح رہے کہ 30 مئی کو لاہور کی کینٹ کچہری عدالت نے اداکارہ عظمیٰ خان پر ان کے گھر میں گھس کر تشدد کرنے والی خواتین کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے تھے۔
کینٹ کچہری کے جوڈیشل مجسٹریٹ غلام شبیر سیال نے عظمیٰ خان پر تشدد کرنے والی تینوں خواتین کے وارنٹ جاری کیے تھے۔
قانونی ٹیم کا کیس سے الگ ہونے کا اعلان
مذکورہ پیشرفت کے بارے میں عظمیٰ خان کی دو رکنی قانونی ٹیم کے اراکین حسن نیازی اور خدیجہ صدیقی نے اعلان کیا کہ وہ اس معاملے سے خود کو الگ کر رہے ہیں۔
خدیجہ صدیقی نے کہا کہ ’ہم عظمیٰ خان کیس سے علیحدگی اختیار کر رہے ہیں‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’میں دو مشتعل خواتین کی طرف سے سخت نظام میں کسی بھی تصفیہ کی وجوہات کو سمجھتی ہوں، لیکن میرا ضمیر مجھے پیشہ ورانہ اعتبار سے بھی اس کا حصہ بننے کی اجازت نہیں دیتا‘۔
علاوہ ازیں حسن نیازی نے کہا کہ ’پہلے دن سے ہی، میں نے اپنے مؤکل پر یہ واضح کردیا تھا کہ ہم کسی بھی تصفیہ میں حصہ نہیں لیں گے، میں نے صرف اس معاملے کو قبول کیا کہ عظمیٰ خان نے انصاف کے حصول کے عزم کی حمایت کی تھی‘۔
بعد ازاں حسن نیازی نے ڈان نیوز کو بتایا کہ ’انہوں نے اتوار کی رات مقدمے کے سلسلے میں عظمیٰ خان تک رسائی کی کوشش کی لیکن انہوں نے فون کا جواب دیا اور نہ ہی میسجز کا‘۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اگلے روز نامعلوم نمبر سے ایک پیغام موصول ہوا ہے کہ عظمیٰ اور ان کی بہن کا ملزمان کے ساتھ سمجھوتہ ہوچکا ہے۔
حسن نیازی نے کہا کہ ’میں حیران رہ گیا‘ اور بعد میں میں نے اس معاملے سے خود کو الگ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
تشدد کی ویڈیوز
یہ واقعہ چند روز قبل اس وقت منظر عام پر آیا تھا جب کچھ ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں جس کے بعد اداکارہ نے پولیس کو شکایت درج کروائی جس کی روشنی میں رات گئے مقدمہ درج کرلیا گیا۔
ویڈیو میں ایک خاتون کو اداکارہ پر چیختے چلاتے اور عثمان نامی شخص کے ساتھ ’غیر اخلاقی تعلقات‘ رکھنے کا الزام لگاتے سنا جاسکتا ہے۔
ویڈیو میں گارڈز کو اداکارہ کو پکڑتے اور ہراساں کرتے دیکھا گیا جبکہ ایک خاتون انہیں جوتے سے مار رہی تھی اور عظمیٰ خان پر شیشے سے بنی سجاوٹی اشیا بھی پھینکی گئیں۔
اسی طرح کی ایک اور ویڈیو میں گھر کا لیونگ روم دکھایا گیا جہاں ہر جانب ٹوٹی ہوئی اشیا بکھری ہوئی تھیں جبکہ گھر کے فرش پر خون کے نشانات واضح تھے۔
بعد ازاں خود کو عثمان ملک کی بیوی کہنے والی خاتون آمنہ ملک نے بھی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کی جس میں انہوں نے کہا کہ عثمان ملک کا ملک ریاض سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ویڈیو میں خاتون کا کہنا تھا کہ ’سب سے پہلے تو میں یہ واضح کردوں کہ عثمان ملک کا ریاض ملک حسین سے کوئی تعلق نہیں اور وہ ان کے قریبی عزیزوں میں سے نہیں ہیں، حسان خان نیازی ملک ریاض کو بدنام کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور حسان خان نیازی کی ملک ریاض سے آپس کی لڑائی ہے اور وہ پیسے لینے کے لیے یہ سب کررہے ہیں‘۔
ان خاتون کا یہ بھی کہنا تھا کہ ‘جہاں تک کسی اور کے گھر میں گھسنے کی بات ہے تو وہ گھر ان لڑکیوں کا نہیں بلکہ میرے شوہر کا دوسرا گھر تھا جہاں میں ان کا پیچھا کرتے ہوئے گئی اور میرا حق ہے کہ میں وہاں جاسکتی ہوں’۔
خاتون نے ویڈیو میں یہ بھی کہا کہ ’میں نے اپنی 13 سال کی شادی شدہ زندگی کو بچانے کے لیے اس لڑکی (اداکارہ) کو متعدد وارننگز دی تھیں اور یہ پہلی مرتبہ نہیں جب میں نے اس سے رابطہ کیا ہو‘۔
دوسری جانب ملک ریاض حسین نے ایک ٹوئٹر پیغام میں اس سارے واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔
پراپرٹی ٹائیکون کا کہنا تھا کہ ’وائرل ویڈیو سے متعلق جو بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈا کیا جارہا ہے میں اسے مسترد کرتا ہوں‘۔
ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ایک ایسے واقعے، جس میں کسی طرح بھی ملوث نہیں ہوں اس کے لیے مجھے بدنام کرنے کی اوچھی حرکت پر میں حیرت زدہ ہوں۔
ایف آئی آر میں الزامات
بعدازاں عظمیٰ خان نے لاہور کے علاقے ڈیفنس کے تھانے مقدمے کے اندراج کی درخواست دی جس میں انہوں نے الزام عائد کیا کہ ’آمنہ ملک، پشمینہ ملک اور عنبر ملک چاند رات کو مسلح ملزمان کے ہمراہ ان کے گھر کا اندرونی دروازہ توڑ کر داخل ہوئیں اور ان پر ان کی بہن پر اسلحہ تانا۔’
ایف آئی آر کے مطابق آمنہ عثمان نے اداکارہ کی بہن کو شیشے کی بوتل ماری جس سے وہ زخمی ہوگئی ہیں جبکہ پشمینہ اور عنبر ملک نے اداکارہ اور ان کی بہن پر تشدد کیا اور کپڑے پھاڑ دیے۔
اداکارہ نے دعویٰ کیا تھا کہ ’تینوں خواتین نے ہم پر تشدد کرنے کے ساتھ تضحیک کی اور غیر اخلاقی زبان کا استعمال کیا اور ایک گارڈ کو کہا کہ اسے کمرے میں لے جا کر زیادتی کا نشانہ بناؤ‘۔