جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم
“اجمل بھٹی “
غازیوں اور شہیدوں کی سرزمین تلہ گنگ چکوال کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں کے بہادرسپوتوں نے ہمیشہ مادروطن کی حفاظت کی خاطر یاتو شہادت کا منصب پایا ہے یا پھر غازی بن کر جرات و بہادری کے جھنڈے گاڑے ہیں دھرتی ماں سے وفا اس خطے کے باسیوں کے خون میں شامل ہے یہی وجہ ہے کہ تلہ گنگ کے جوان فوج میں خدمات انجام دینے کو ترجیح دیتے ہیں زمانہ امن ہو یا جنگ یہاں کے جوانوں نے ہمیشہ ہر محاذ پر ہراول دستے کا کردار ادا کیا ہے ائرمارشل ملک نور خان اعوان بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں کہ جنہوں نے نا صرف اپنی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی انجام دیا بلکہ جس میدان میں بھی گئے اپنی خداد داد صلاحیتوں اور غیر معمولی مہارتوں کی بدولت اک تاریخ رقم کی اور ملک و قوم کے لیے نیک نامی اور فخر کا باعث بنے۔
جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم،جو چلے تو جاں سے گزر گئے
راہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا
ائیرمارشل نورخان 22 فروری 1923 کو تلہ گنگ کے گاؤں دندی میں پیدا ہوئے ان کا تعلق اعوان فیملی سے ہے ابتدائی تعلیم لاہور میں حاصل کی جبکہ گریجوایشن ایچی سن کالج سے کی بعدا زاں انھوں نے رائل انڈین ملٹری میں شمولیت اختیار کر لی اور انھیں ڈیرہ دون بھیج دیا گیا وہیں راشٹریہ انڈ ین ملٹری کالج سے ملٹری ایڈمنسٹریشن میں بی اے کیا اوراس طرح انھیں 6جنوری 1941 میں رائل انڈین ائیرفورس کے سکوارڈن نمبر 1میں کمیشن مل گیا انھوں نے جنگ عظیم دوم میں بھی حصہ لیا اور1942 میں انھیں برما کی مہم پہ روانہ کیا گیا جہاں انھوں نے بمبار اور کمبیٹ فضائی مشن میں اپنی مہارت کا بھرپور مظاہرہ کیا 1946 میں ملک نور خان کو سکوارڈن نمبر 4کا فلائٹ کمانڈر بنادیا گیا اور 1947 تک انھوں نے یہ ذمہ داری نبھائی قیام پاکستان کے بعد انھوں نے پاکستان میں رہنے کو ترجیح دی اور اس طرح ان کا تبادلہ پاکستان ائرفورس میں کردیا گیا1950 سے 1962تک انھوں نے نئی تشکیل کردہ پاکستان ائر فورس میں پشاور،میرپور اور چکلالہ سمیت مختلف اسٹیشنوں کی کمان سنبھالی بعدا زاں انھیں ترقی دے کرائر مارشل بنا دیا گیا اور اس طرح 42سال کی عمر میں وہ پاک فضائیہ کے چھٹے کمانڈر انچیف بن گئے ائر مارشل نور خان 23جولائی 1965 سے31 اگست 1969 تک پاک فضائیہ کے سربراہ رہے ستمبر 1965کی پاک بھارت جنگ میں انھوں نے اپنی بہترین جنگی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور اپنی غیر معمولی انتظامی مہارتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے پاک فضائیہ سے تعداد اور وسائل میں تین گنا زیادہ طاقت رکھنے والی انڈین ائر فورس کا غرور خاک میں ملادیا 1965 کی جنگ میں ائرمارشل نورخان کی اعلیٰ صلاحیتوں کے اعتراف میں انھیں ہلال جرأت سے نوازا گیا قبل ازیں 1959 میں انھوں نے پاکستان انٹرنیشنل ائر لائن کارپوریشن کی کمان سنبھالی اور 6 سال کے مختصر عرصے میں اسے دنیا کی بہترین فضائی کمپنیوں کی صف میں کھڑاکر دیا آج بھی اس زمانے کو”پی آئی اے کے سنہری دور”سے تعبیر کیا جاتا ہے ریٹائرمنٹ کے فوری بعد اگست 1969میں انھیں فوجی حکومت کی جانب سے مغربی پاکستان کا گورنر مقررکیا گیا تاہم1970 میں انھوں نے گورنر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا1976 میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں انھیں پاکستان ہاکی فیڈریشن کا صدر بنایاگیابعد ازاں 1980 میں جنرل ضیاء نے انھیں چئیرمین پاکستان کرکٹ بورڈکی ذمہ داری بھی سونپ دی1984 تک ان کے پاس یہ دونوں ذمہ داریاں رہیں ان کی قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت پاکستان ہاکی ٹیم نے نا صرف لاس اینجلس اولمپکس میں گولڈ میڈل حاصل کیابلکہ چیمپینزٹرافی اور ورلڈکپ کے اعزازات بھی پاکستان کے پاس رہے انھی کے دور میں پاکستان کرکٹ ٹیم عالمی سطح پر حقیقی معنوں میں فائٹر ٹیم کے طور پر پہچانی جانے لگی ائرمارشل نور خان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ بیک وقت پی آئی اے، پاکستان سکواش،پاکستان ہاکی فیڈریشن اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے روح رواں رہے انھوں نے بھی اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہ نبھایا اور ان اداروں کو بام عروج تک پہنچایا 1985ء سے1988 تک وہ ٹیکنو کریٹ کی سیٹ پر ممبر قومی اسمبلی بھی رہے بعد ازاں انھوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیا ر کر لی15دسمبر 2011 کووطن عزیز کا یہ درخشندہ ستارہ اور تلہ گنگ کی دھرتی کا قابل فخر سپوت 88سال کی عمرمیں خالق حقیقی سے جا ملا اوراس طرح ولولہ انگیزی،جرات و بہادری،کامیابی و کامرانی،بے لوث محبتوں،ان گنت وفاؤں،لازوال قربانیوں اور گرانقدر خدمات پر محیط ایک عہد تمام ہوا۔ پی اے ایف نے ان کی عظمت کے اعتراف میں پاکستان ائرفورس بیس چکلالہ کو ان کے نام سے منسوب کیا ہے جو کہ اب نور خان ائیربیس کہلاتا ہے اس موقع پر پاکستان کے محکمہ ڈاک کی جانب سے ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا گیا ان کی بہترین عسکری و انتظامی خدمات کے اعتراف میں انھیں ہلال جرأت،ہلال شجاعت،ستارہ پاکستان اور ستارہ قائداعظم کے اعزازت سے بھی نوازا گیاتلہ گنگ کے صدیق اکبر چوک میں ان کے نام سے ایک یادگار بھی تعمیر کی گئی ہے جہاں ہر سال ان کی برسی کے حوالے سے مختلف طبقہ فکر کی جانب سے تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔