سویڈن کے سابق وزیراعظم اولوف پالمے کو آخر کس نے قتل کیا؟
آج سے لگ بھگ تیس برس قبل ایک جمعے کی رات سویڈن کے وزیراعظم فلم دیکھنے گئے تھے۔
بےباک اور کھل کر بولنے والے اولوف پالمے اپنے اقتدار کے دوسرے دور میں تھے لیکن وہ پھر بھی ایک عام آدمی کی طرح زندگی گزارنے پر زور دیتے تھے اور اکثر پولیس کی طرف سے فراہم کی جانے والی حفاظتی فورس کو ترک کر دیتے تھے۔ اُس دن بھی انھوں نے ایسا ہی کیا۔
آدھی رات کو اپنی اہلیہ لسبت کے ساتھ گھر واپس آتے ہوئے انھیں کسی نے پیچھے سے گولی ماری اور وہ زمین پر گرنے سے پہلے ہی مر چکے تھے۔
ان کا قاتل کبھی نہیں پکڑا گیا۔ حالانکہ ان کی موت سویڈن کی ایک مصروف شاہراہ پر ہوئی اور کوئی درجن سے زیادہ عینی شاہدین نے ایک قد آور شخص کو جائے وقوعہ سے فرار ہونے سے قبل گولیاں چلاتے دیکھا۔
اور اب 34 برس گزر جانے کے بعد سویڈن کے پراسیکیوٹر آفس نے اعلان کیا ہے کہ وہ مجرمانہ تفتیش کے نتائج بدھ کی صبح ایک پریس کانفرنس میں پیش کریں گے۔
چیف پراسیکیوٹر کرسٹر پیٹرسن نے سویڈن کے سرکاری ٹی وی چینل کو فروری میں بتایا تھا کہ ’میں پرامید ہوں کہ میں اب بتا سکتا ہوں کہ اس قتل کے محرکات کیا تھے اور اس کا ذمہ دار کون تھا۔‘
یہ معلوم نہیں کہ کس پر الزام عائد کیا جائے گا یا کسی نئے مشتبہ شخص کا نام دیا جائے گا لیکن امید ہے کہ شاید آخرکار، پولیس ایک ایسے قتل کا معمہ حل کرنے کے قریب ہو گی جس نے کئی دہائیوں تک ملک کو خوف میں مبتلا رکھا اور ان گنت سازشی نظریات کو پھیلایا۔
کتاب ’بلڈ آن دا سنو: دا کلنگ آف اولوف پالمے‘ کے مصنف ڈاکٹر جین بونڈیسون نے بی بی سی کو بتایا: ’یہ ایسا تھا جیسے انھوں نے لندن میں پکاڈیلی سرکس میں مارگریٹ تھیچر کو مار ڈالا ہو، بس انھیں گولی مار دی ہو اور پھر قاتل غائب ہو گیا ہو اور کبھی نہ ملا ہو۔‘
اولف پالمے کے بیٹے مارٹن پالمے نے اس برس کے شروع میں کہا تھا کہ پولیس کے پاس کچھ ایسے شواہد موجود ہیں جو وہ ابھی افشا نہیں کرنا چاہتے۔
ان کا خیال تھا کہ یہ شواہد آلہ قتل کے بارے میں بھی ہو سکتے ہیں جو کبھی نہیں مل سکا۔ انھوں نے سویڈن کے ایک اخبار کو بتایا: ’اگر کسی کو کچھ اہم معلوم ہے اور وہ ابھی تک سامنے نہیں آیا، تو اب ایسا کرنے کا مناسب وقت ہے۔‘
اولوف پالمے کون تھے؟
سنہ 1927 میں ایک امیر خاندان میں پیدا ہونے والے پالمے نے سنہ 1949 میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور سنہ 1969 میں اپنے استاد تاگ ایرلینڈر کے بعد پارٹی کی قیادت سنبھال لی۔
اولوف پالمے انٹرنیشنل سینٹر کی سیکرٹری جنرل اینا سنڈسٹروم نے بی بی سی کو بتایا: ’پالمے کو ایرلینڈر کے گروہ کا حصہ سمجطا جاتا تھا۔ وہ ایک طرح سے تاگ ایرلینڈر، جنھیں سویڈن کے ویلفیئر سسٹم کا بانی کہا جاتا ہے، کے ذریعے ایک سیاستدان کی حیثیت سے ابھرے۔ میں کہوں گی کہ انھوں نے ایرلینڈر کی پالیسیوں کو اختیار کیا اور انھیں ہی آگے لے کر چلے۔‘
اپنے دور اقتدار میں پالمے نے لیبر یونینز کے اختیارات کو بڑھایا، ملک میں صحت کے نظام کو توسیع دی، بادشاہت کی تمام سیاسی طاقتوں کو ختم کر دیا اور تعلیم کے شعبے میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی۔
اینا سنڈسٹروم کے مطابق ان کی اصلاحات میں سب سے اہم نرسریز اور پری سکولز کا قیام تھا جس سے سویڈن میں پہلی بار خواتین کو کام کرنے کی اجازت ملی اور ملک میں صنفی مساوات کو ترجیح دی گئی۔
بین الاقوامی معاملات میں وہ ایک طاقتور آواز تھے جو امریکہ اور سوویت یونین دونوں پر تنقید کرتے تھے۔ پالمے نے سنہ 1968 میں یو ایس ایس آر کے چیکو سلوواکیا حملے کی کھل کر تنقید کی اور سنہ 1972 میں امریکہ کی شمالی ویتنام پر بمباری کا موازنہ دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی حراستی کیمپوں سے کیا، جس کے بعد واشنگٹن اور سٹاک ہوم کے تعلقات کچھ عرصے تک منقطع ہو گئے۔
سنہ 1973 میں اولوف پالمے نے نیویارک ٹائمز کو بتایا: ’مجھے اس کا افسوس نہیں کیونکہ اس دنیا میں آپ کو سب تک اپنی بات پہنچانے کے لیے کافی اونچا بولنا پڑتا ہے۔‘
انھوں نے جنوبی افریقہ میں رائج نسل پرستانہ نظام کو ’ایک انتہائی خوفناک سسٹم‘ قرار دیا، سپین میں جنرل فرانکو کی حکومت کو ’لعنتی قاتل‘ کہا اور ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف مہم چلائی۔ انھوں نے 1980 کی دہائی میں ایران اور عراق کے درمیان جنگ بندی کی خاطر ثالث کے طور پر بھی اپنا کردار ادا کیا تھا۔
سویڈن اور بیرون ملک ان کے کئی کاموں کی وجہ سے، حمایتیوں کے ساتھ ساتھ ان کے دشمن بھی پیدا ہوئے۔ کاروباری شخصیات اور لبرلز ان کی اصلاحات سے طیش میں آ گئے جبکہ دوسرے ملکوں کی حکومتوں پر ان کی تنقید نے دنیا بھر میں رہنماؤں کو غصے میں مبتلا کر دیا۔
اینا سنڈ سٹروم کہتی ہیں ’یہ تقریباً ایسا تھا کہ یا تو آپ انھیں پیار کرتے یا نفرت۔ ایک بہت زیادہ سخت ناراضگی تھی۔ آج کل جب ہم سوشل میڈیا پر سیاستدانوں کے خلاف سخت بیان بازی پر بات کرتے ہیں تو ہم یہ سب سویڈن میں پہلے بھی اولوف پامے کے دور میں دیکھ چکے ہیں۔ وہ بہت سختی سے ان کے پیچے پڑ گئے تھے۔‘
وہ کہتی ہیں ’لیکن سویڈن کی ایک بڑی آبادی ان سے بہت زیادہ پیار اور عزت بھی کرتی تھی۔‘ لوگ ابھی بھی اس مقام پر پھول رکھنے آتے ہیں جہاں ان کی موت ہوئی۔
اولوف پالمے کی موت کیسے ہوئی؟
28 فروری سنہ 1986 کی رات جب پالمے گھر پہنچے تو وہ اپنے محافظوں کو پہلے ہی فارغ کر چکے تھے اور ان کی اہلیہ نے سینما جانے کی تجویز دی۔ لزبٹ اپنے بیٹے مارٹن سے بات کر چکی تھیں، جو اپنے اور اپنی گرل فرینڈ کے لیے ایک مزاحیہ فلم کے ٹکٹس لائے تھے۔
پامے اور ان کی اہلیہ نے اولڈ ٹاؤن سے سینما تک ٹرین لی اور رات نو بجے گرینڈ سینما کے باہر اپنے بیٹے اور اس کی دوست سے ملے۔
یہ دونوں جوڑے فلم کے بعد الگ ہو گئے اور پالمے اور ان کی اہلیہ لزبت، سٹاک ہوم کی مصروف شاہراہ سویوگن پر آ گئے۔ سویوگن اور ٹنلگٹن کے ایک کونے پر 23:21 پر ایک قد آور شخص پالمے کے پیچھے آیا اور دو فائر کیے۔ ایک گولی وزیراعظم کو پیچھے کمر پر انتہائی قریب سے لگی اور دوسری لزبت کو لگی۔
اس کے بعد قاتل سڑک سے نیچے کی جانب گیا، کچھ سیڑھیاں چڑھ کر ایک ملحقہ گلی تک گیا اور غائب ہو گیا۔
سویڈن چونک کر رہ گیا۔ شارلوٹا والسٹن اُس وقت صرف 12 برس کی تھیں لیکن وہ بھی رات گئے جاگ گئیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’ہم نے ٹی وی لگایا تو ہر طرف ایک کھلی گلی میں ان کے قتل کی خبریں تھیں۔ پورا ملک صدمے میں تھا۔‘
والسٹن یاد کرتی ہیں کہ ان کے سکول کی اسمبلی میں پالمے کی یاد میں شمعیں روشن کی گئیں۔ ’جب ان کا قتل ہوا تواس وقت آپ کے سیاسی خیالات اہمیت نہیں رکھتے تھے، بس صدمہ تھا۔ ایسا سویڈن میں نہیں کبھی نہیں ہوا تھا۔‘
پولیس بھی صدمے کی حالت میں دکھائی دی۔ اہلکاروں نے صحیح طرح سے جائے وقوعہ کا گھیراؤ نہیں کیا اور قاتل کے فرار ہونے کے چند گھنٹوں بعد شہر صرف مرکزی علاقہ بند کر دیا گیا۔
سوگوار پھول چڑھانے وہاں پہنچ گئے جہاں پالمے کا خون ابھی بھی زمین پر پڑا ہوا تھا۔ عینی شاہدین سوال و جواب سے پہلے ہی وہاں سے چلے گئے۔ ایک گولی کئی دن گزر جانے کے بعد ایک راہگیر کو ملی۔
اولوف پالمے کو کس نے مارا ہو گا؟
گواہوں کی کثیر تعداد کے باوجود پولیس کے پاس چند ہی سراغ تھے۔
ڈاکٹر جین بونڈیسون نے بتایا: ’جائے وقوعہ سے ملنے والی گولیوں سے یہ پتا چلا کہ قاتل نے 0.357 میگنم کی ہینڈ گن استعمال کی، ایک طاقتور ہتھیار۔ تو قتل کسی ایسے شخص نے کیا جو واقعی انھیں مارنا چاہتا تھا۔ یہ کوئی موقع نہیں تھا اس کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی۔‘
اس کیس کے پہلے چیف تفتیش کار کے خیال کے مطابق کردش عسکریت پسندوں پی کے کے کا اس قتل سے کوئی تعلق تھا۔ وہ ترکی کے خلاف لڑ رہے تھے اور انھیں اس وقت پالمے کی حکومت کی جانب سے ایک ’دہشت گرد‘ گروپ قرار دیا گیا تھا۔
لیکن سنہ 1987 میں کتابوں کی ایک دکان پر، جو اس تنظیم کے اڈے کے طور پر استعمال ہوتی تھی، چھاپہ مارنے کے بعد انھیں مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا۔
سنہ 1988 میں پولیس نے ایک سزا یافتہ مجرم کرائسٹر پیٹرسن کو گرفتار کیا۔ کرائسٹر پیٹرسن نے سنہ 1970 میں سٹاک ہوم کی ایک سڑک پر ایک شخص کو بظاہر بغیر کسی وجہ کے چھڑے سے مار ڈالا تھا اور ان کی اس مشتبہ شخص سے مماثلت بھی پائی گئی تھی جو پالمے کے قتل کی رات سینما کے قریب نظر آیا تھا۔
پولیس تفتیش کے دوران لزبت پالمے نے پیٹرسن کو قاتل کے طور پر شناخت کیا اور سنہ 1989 میں انھی عمر قید کی سزا سنائی گئی لیکن پیٹرسن کے وکیل نے فوری طور پر اپیل دائر کر دی۔ قتل کے کے لیے کوئی ٹھوس وجہ نہ ہونے اور قتل کے ہتھیار کے بغیر، عدالت نے انھیں صرف تین ماہ بعد ہی رہا کر دیا اور معاوضے کے طور پر انھیں 50 ہزار ڈالر بھی دیے۔ پیٹرسن کا سنہ 2004 میں انتقال ہو گیا۔
سویڈن کے اجتماعی صدمے اور اس قتل کے جنون نے درجنوں مفروضوں کو بھی جنم دیا، حتیٰ کہ اس کے لیے ایک اصطلاح ’پالمے کا مرض‘ بھی بنا ڈالی۔
جنوبی افریقہ کے ایک سابق پولیس اہلکار نے سنہ 1996 میں دعویٰ کیا کہ پالمے کو نسلی امتیاز کے خلاف اپنا مؤقف دینے کی وجہ سے ہلاک کیا گیا۔ سویڈن کے تفتیش کار اسی برس وہاں گئے لیکن اس دعوے کی حمایت میں کوئی شواہد جمع نہ کر سکے اگرچہ چند لوگوں کا خیال تھا کہ گذشتہ حکومت کو اب بھی مشتبہ سمجھا جانا چاہیے۔
کتاب ’گرل ود دا ڈریگن ٹیٹو‘ کے مصنف سٹیگ لیرسن نے اس قتل پر برسوں تحقیق کی اور سنہ 2004 میں اپنی موت سے پہلے تک اسی نظریے کو آگے بڑھایا۔
اسی دوران ڈاکٹر بونڈیسون کا ماننا تھا کہ اس قتل کا تعلق انڈیا سے ہتھیاروں کے معائدے سے تھا۔ سویڈن کی ہتھیاروں کی کمپنی بوفورس نے ایک معائدے کے مطابق 1980 سے 1990 تک انڈیا کو توپ خانے فراہم کرنے تھے لیکن بعد میں پتا چلا کہ کمپنی نے اس معائدے کے لیے انڈیا میں کئی ’مڈل مین‘ کو سفارش دی تھی، یہ ایک ایسا سکینڈل تھا جس میں انڈیا کے وزیراعظم راجیو گاندھی ملوث تھے۔
ڈاکٹر بونڈیسون نے بتایا کہ ہو سکتا ہے کہ پالمے کو اپنے قتل کے روز ہی یہ پتا چلا تھا کہ بوفورس کمپنی بدعنوان تھی۔ ’تو اس معائدے کے پیچھے مڈل مین کو پالمے کو مارنے کی ایک مضبوط وجہ مل گئی۔ لیکن یہ کچھ ایسا ہے جس کو پولیس نے ہمیشہ نظر انداز کیا۔‘
ایک اور ممکنہ کردار سٹیگ اینگسٹرام ہیں، جو جائے وقوعہ کے نزدیک سکینڈا انشورنس کمپنی میں کام کرتے تھے اور اس قتل کے 20 عینی شاہدین میں سے ایک تھے۔ انھوں نے سنہ 2000 میں خود کشی کر لی تھی۔
پولیس نے سنہ 2018 میں اینگسٹرام کی تحقیقات شروع کیں۔ سب سے پہلے سویڈن کے ایک صحافی تھامس پیٹرسن کی 12 برس کی ایک تحقیق میں اینگسٹرام کو مشتبہ شخص کے طور پر دیکھا گیا اور الزام لگایا گیا کہ وہ ہتھیاروں کی ٹریننگ لے چکے ہیں اور ان کی ایک ایسے شخص سے دوستی بھی تھی جس کے پاس مختلف اقسام کی بندوقیں تھیں۔
انھیں جائے وقوعہ کے بارے میں جھوٹ بولتے بھی دکھایا گیا، جب انھوں نے یہ دعویٰ کیا کہ انھوں نے وزیراعظم کو سانس دینے کی کوشش کی تھی، جو کہ انھوں نے نہیں کیا تھا۔
ڈاکٹر بونڈیسون کہتے ہیں ’سویڈن کے بہت سے شہریوں کا خیال تھا کہ اینگسٹرام کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ لیکن وہ معمولی قدوقامت کا مالک شخص تھا جبکہ قاتل قدآور اور طاقتور تھا اور اینگسٹرام نے اس سے پہلے کسی کو بھی قتل نہیں کیا تھا۔‘
ڈاکٹر بونڈیسون کو یقین نہیں کہ اعلان سے زیادہ کچھ سامنے آئے گا۔ ’میرا خیال ہے کہ یہ توقعات کے برعکس ہو گا لیکن ہم دیکھیں گے۔‘
سنڈسٹروم کہتی ہیں ’مجھے کسی چیز کی امید نہیں، مجھے وضاحت کی امید نہیں لیکن میرا خیال ہے کہ کیس کو بند کرنا اہم ہے۔ اگرچے آپ کے پاس جواب نہیں لیکن آپ کو ایک طرح سے اسے بند کرنے کی ضرورت ہے۔‘