سرفراز احمد: کپتانی میں اپنے بارے میں کم، ٹیم کے بارے میں زیادہ سوچا
وکٹ کیپر بیٹسمین سرفراز احمد کے لیے اب سب کچھ مختلف ہے۔ وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے دورہ انگلینڈ کے لیے منتخب کیے جانے والے 29 رکنی سکواڈ میں′ بیک اپ′ وکٹ کیپر کے طور پر شامل کیے گئے ہیں، مطلب یہ کہ ضرورت پڑنے پر ہی انھیں موقع مل سکتا ہے کیونکہ پہلی ترجیح محمد رضوان ہوں گے۔
اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ انھیں موقع مل بھی سکے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تین ٹیسٹ اور تین ٹی ٹوئنٹی میچوں میں کھیلے بغیر ہی ان کی واپسی ہوجائے۔
یہ وہی انگلینڈ ہے جہاں وہ پچھلے تین سال سے کپتان کی حیثیت سے جا رہے تھے اور تینوں مرتبہ وہ اچھے نتائج دینے میں کامیاب ہوئے تھے۔
سنہ 2017 میں ان کی قیادت میں پاکستان نے پہلی بار چیمپینز ٹرافی جیتی تھی۔ 2018 میں ان کی کپتانی میں پاکستان نے لارڈز ٹیسٹ جیتا تھا اور دو میچوں کی وہ سیریز ایک ایک سے برابر رہی تھی۔
گذشتہ سال ورلڈ کپ میں اگرچہ پاکستان رن ریٹ پر سیمی فائنل میں جگہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکا تھا لیکن سرفراز احمد کی کپتانی میں پاکستان نے جنوبی افریقہ، افغانستان اور بنگلہ دیش اور فائنل کھیلنے والی دونوں ٹیمیں انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کو شکست دی تھی اور صرف سری لنکا سے میچ بارش کے باعث منسوخ ہونے کی وجہ سے وہ سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے سے محروم رہا۔
سرفراز احمد کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ ٹیم میں واپسی ان کے لیے کتنی اہمیت کی حامل ہے اور ملنے والا ایک موقع اچھی کارکردگی کی صورت میں انھیں پھر سے بین الاقوامی کرکٹ کے دھارے میں شامل کرسکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں ‘میرے لیے ٹیم میں شامل ہونا ہی بڑا اہم ہے۔ میں یہ نہیں سوچ رہا کہ میں نمبر ایک نہیں بلکہ نمبر دو وکٹ کیپر ہوں ۔ماضی میں بھی یہی صورتحال معین خان اور راشد لطیف کے ساتھ رہی تھی جب ان دونوں میں سخت مقابلہ رہتا تھا ۔اس وقت رضوان اچھی کارکردگی دکھا رہے ہیں۔ میری کوشش یہی ہوگی کہ میں دورے میں سخت ٹریننگ کروں اور اگر مجھے موقع ملتا ہے تو میں ایسی کارکردگی دکھاؤں جس سے ٹیم میں میری دوبارہ مستقل جگہ بن سکے۔’
سرفراز احمد کہتے ہیں: ‘ٹیم سے باہر ہونے کے بعد کا عرصہ کافی مشکل تھا لیکن اسے میں نے اپنے اوپرحاوی نہیں ہونے دیا۔ ڈومیسٹک کرکٹ کھیلی جس کے بعد پاکستان سپر لیگ آگئی۔ اس عرصے میں اپنی فٹنس پر توجہ دی۔ یہ کبھی نہیں سوچا کہ کرکٹ چھوڑدوں کیونکہ اپنے بڑوں سے ہمیشہ یہی سیکھا ہے کہ کرکٹ میں اتارچڑھاؤ آتے رہتے ہیں آپ کو ان کا حوصلہ مندی سے مقابلہ کرنا ہے۔’
سرفراز احمد یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ جب وہ کپتان تھے تو ان کی زیادہ توجہ خود پر کم اور ٹیم پر زیادہ رہی۔
‘جب آپ کپتان ہوتے ہیں تو یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس میں آپ کو اچھے نتائج کے لیے اپنے کھلاڑیوں پر زیادہ توجہ دینی پڑتی ہے۔
آپ اپنے بارے میں کم سوچتے ہیں۔ ٹیم اور نتیجے کے بارے میں زیادہ سوچتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ مجھ سے کچھ ایسی غلطیاں سرزد ہو گئی ہوں جن کی وجہ سے میں ٹیم سے باہر ہوا۔’
سرفراز احمد اس تاثر سے اتفاق نہیں کرتے کہ ان کے لیے ذہن سے یہ نکالنا آسان نہیں ہوگا کہ اب وہ کپتان نہیں ہیں۔
‘میں جب کپتان تھا تب بھی میں ڈریسنگ روم میں اپنے تمام کھلاڑیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتا تھا اور کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ میں ان سے مختلف ہوں۔ میں نے کبھی بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ میں تمام عمر کے لیے کپتان بنا ہوں۔
اب میں عام کھلاڑی کی حیثیت سے ٹیم میں واپس آیا ہوں تو مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ میں ان تمام کھلاڑیوں کے ساتھ کھیل چکا ہوں لہذا مجھے ان کے ساتھ ہم آہنگ ہونے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔’
سرفراز کی واپسی مصباح کی نظرمیں
سرفراز احمد کے بارے میں یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ٹیم سے باہر ہونے کے بعد انھوں نے ایسی کیا غیرمعمولی کارکردگی دکھائی ہے کہ انھیں دوبارہ ٹیم میں شامل کیا گیا ہے تو اس کا جواب ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر مصباح الحق نے یہ دیا کہ جب ہم نے کھلاڑیوں کو سینٹرل کنٹریکٹ دیے تھے تو اسوقت بھی یہی ذہن میں تھا کہ ہمارے پاس اب بھی دوسرا سب سے بہترین آپشن سرفراز احمد کی شکل میں موجود ہے۔
انھوں نے کہا کہ سرفراز احمد ‘فارم کی وجہ سے ڈراپ ہوئے تھے لیکن ان پر جو ذہنی دباؤ تھا وہ اب ہٹ چکا ہے۔’
کامران اکمل پر سرفراز احمد کو فوقیت دیے جانے کے بارے میں بھی مصباح الحق کی سوچ واضح ہے کہ پاکستانی ٹیم کو انگلینڈ کےدورے میں ٹیسٹ کرکٹ زیادہ کھیلنی ہے، ٹی ٹوئنٹی صرف تین روز کی ہے۔
مصباح الحق کا کہنا ہے کہ وکٹ کیپر کے سلیکشن میں صرف یہ نہیں دیکھا جاسکتا کہ اس نے کتنے رنز کیے ہیں۔
جب آپ انگلینڈ میں وکٹ کیپنگ کی بات کرتے ہیں تو وہاں تجربہ کار وکٹ کیپر کی ضرورت رہتی ہے۔
‘ان کنڈیشنز میں کیپنگ آسان کام نہیں ہے۔ نوجوان یا نئے وکٹ کیپر کو آپ ہوم سیریز میں آزما سکتے ہیں۔ ایک ایسی صورتحال میں جب کھلاڑی تین ماہ سے کوئی کرکٹ نہ کھیلے ہوں، تو اس صورتحال میں آپ کو تجربہ کار کھلاڑیوں پر ہی بھروسہ کرنا پڑتا ہے۔’
سرفراز احمد کو ڈراپ کرنے کا معاملہ
سرفراز احمد کو تینوں فارمیٹس سے باہر کرنے کا معاملہ حیران کن تھا۔
سرفراز احمد نے اپنا آخری ٹیسٹ گذشتہ سال جنوبی افریقہ کے خلاف جوہانسبرگ میں کھیلا تھا جس میں انھوں نے پہلی اننگز میں نصف سنچری اسکور کرنے کے علاوہ میچ میں دس کیچز لیے تھے جو پاکستان کے کسی بھی وکٹ کیپر کی ایک ٹیسٹ میچ میں بہترین کارکردگی کا ریکارڈ ہے۔
اس کے باوجود وہ پاکستان کی اگلی ٹیسٹ سیریز میں جو آسٹریلیا کے خلاف تھی، عام کھلاڑی کی حیثیت سے بھی نہ کھیل پائے۔
سرفراز احمد کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے لگاتار چھ ون ڈے انٹرنیشنل میچ جیتے تھے جن میں ورلڈ کپ کے چار میچز اور سری لنکا کے خلاف ہوم سیریز کے دو میچز تھے اس کے باوجود انھیں ون ڈے کی کپتانی سے ہٹادیا گیا۔
سرفراز احمد کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں لگاتار گیارہ سیریز جیتی ہیں جو کہ ایک عالمی ریکارڈ ہے لیکن صرف سری لنکا کے خلاف سیریز کی شکست کے سبب انھیں ٹی ٹوئنٹی ٹیم کی کپتانی سے بھی ہٹادیا گیا۔