سائنس

شہاب ثاقب: اپنے گھر کی چھت سے شہابیوں کی بارش دیکھنے کا سالانہ موقع آج رات

Share

کیا آپ کو کبھی ایسا تجربہ رہا ہے کہ اندھیری رات میں آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے اچانک کچھ سیکنڈ کے لیے ایک روشن لکیر بنتی ہوئی نظر آئی ہو؟

عام طور پر ہم انھیں ٹوٹا ہوا تارا کہتے ہیں لیکن اب تقریباً سبھی لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ ستارے ٹوٹا نہیں کرتے۔

تو پھر یہ ’ٹوٹے ہوئے تارے‘ آخر کیا چیز ہوتے ہیں؟

اس سے پہلے کہ ہم آپ کو ان تفصیلات سے آگاہ کریں، آپ کو یہ بتاتے چلیں کہ آج رات سے لے کر اتوار کی صبح تک آپ کے پاس عام دنوں سے ہٹ کر کہیں زیادہ ٹوٹے ہوئے تارے دیکھنے کا موقع آنے والا ہے۔

یہ کیا ہوتے ہیں اور آپ انھیں کب اور کیسے دیکھ سکتے ہیں، اس حوالے سے چند دلچسپ حقائق پیش ہیں۔

ٹوٹے ہوئے تارے یا شہابیے کیا ہوتے ہیں؟

انتہائی تیز رفتاری سے سفر کرنے والے شہابیے جب کرہ ارض کی فضا میں داخل ہوتے ہیں تو ان کی رفتار دو لاکھ 60 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہوتی ہے۔

اس رفتار کے باعث کے وہ اپنے پیچھے ’ٹوٹے ہوئے تاروں‘ کی ایک لڑی چھوڑتے جاتے ہیں۔

فلکیاتی کلینڈر میں برج جوزا (جیمینائی) سے نکلتے ہوئے محسوس ہونے والے جیمینیڈ شہابیوں کی بارش یا میٹیئر شاور ہر سال ہوتی ہے۔ یہ دسمبر کے وسط میں ہوتی ہے جب ہماری زمین اپنے مدار میں گردش کرتے ہوئے ایک سیارچے 3200 فائیتھون کے چھوڑے گئے ملبے سے گزرتی ہے۔

جب یہ عروج پر ہوں تو صاف آسمان والی اندھیری راتوں میں آپ ایک گھنٹے میں 120 ٹوٹتے ہوئے تارے دیکھ سکتے ہیں۔ ان کی رفتار دوسروں کے مقابلے میں نسبتاً کم تقریباً ایک لاکھ 30 ہزار کلومیٹر تک ہوتی ہے، لیکن اس سے انھیں دیکھنے کا لطف بڑھ جاتا ہے۔

آپ جیمینیڈ شہابیے کیسے دیکھ سکتے ہیں؟

شہاب ثاقب، آسمان، فلکیات،
شہابیوں کی بارش دیکھنے کے لیے آپ کو صرف ایک اندھیری جگہ اور صاف آسمان کی ضرورت ہوتی ہے

امیریکن میٹیئر سوسائٹی کی پیشگوئی ہے کہ فی الوقت جاری جیمینیڈ شہابیوں کی یہ بارش سنیچر 14 دسمبر کو آپ کے مقامی وقت کے مطابق رات دو بجے اپنے عروج پر ہوگی۔

اور بظاہر جس مقام سے یہ نکلتے ہوئے محسوس ہوں گے، وہ آسمان میں کافی بلندی پر ہوگا۔

تو اگر آپ انھیں دیکھنا چاہیں، تو اس کے لیے

  • شہر سے دور کسی اندھیری جگہ چلے جائیں
  • اپنی پشت کے بل لیٹ جائیں
  • اپنی آنکھوں کو اندھیرے کا عادی بنانے کے لیے 30 سے 40 منٹ کا وقت دیں

افسوس کی بات یہ ہے کہ تقریباً پورا چاند اس مرتبہ زیادہ تر جیمینیڈ شہابیوں کی روشنی کو دھندلا دے گا پر اگر آپ کے علاقے میں کچھ اندھیرا ہو تو آپ ایک گھنٹے میں تقریباً 20 شہابیے دیکھ سکتے ہیں۔

اگر سنیچر کو آپ کے پاس موسم ابر آلود ہے، تب بھی آپ جمعے کی رات کو 10 بجے سے ہی اور اتوار کی صبح طلوعِ آفتاب سے پہلے تک انھیں دیکھ سکتے ہیں۔

اس کے بعد یہ اگلے چند دن میں بالکل ختم ہوجائیں گے۔

میٹیئر، میٹیئرائٹ، میٹیئرائڈ، ایسٹیرائڈ اور کومیٹ کے درمیان کیا فرق ہے؟

شہاب ثاقب، آسمان، فلکیات،
زمین پر ہر وقت خلا سے آنے والے ذرات اور پتھروں کی بارش ہوتی رہتی ہے مگر ان میں سے زیادہ تر زمین سے ٹکرانے سے پہلے ہی جل کر ختم ہوجاتے ہیں (خاکہ)

شہابیوں پر ناسا کے ماہر اور بلاگر بِل کُک ان سب کے درمیان فرق بتاتے ہیں۔

  • میٹیئر درحقیقت وہ طویل، روشن لکیر ہوتی ہے جو کسی خلائی پتھر کے پیچھے اس وقت نظر آتی ہے جب وہ زمین کی فضا میں داخل ہونے پر گرم ہو کر پگھل جاتا ہے۔
  • میٹیئرائڈ زمین کی فضا میں داخل ہونے والے پتھروں کو کہا جاتا ہے اور یہ کسی ایسٹیرائڈ (شہابِ ثاقب) کے پتھر یا کسی کومیٹ (دمدار ستارے) کی برف کا ٹکڑا ہوسکتے ہیں۔
  • میٹیئرائٹ یہ تب کہلاتے ہیں اگر یہ جل کر ختم ہونے سے بچ جائیں اور زمین پر گر جائیں۔
  • ایسٹیرائڈ پتھر کی وہ بڑی چٹانیں ہوتی ہیں جو خلا میں تیرتی ہوئی سورج کے گرد چکر لگاتی ہیں۔
  • کومیٹ بھی ایسٹیرائڈز کی طرح خلا میں تیرتے ہوئے سورج کے گرد چکر لگاتے ہیں مگر یہ پتھر نہیں بلکہ برف اور مٹی سے بنے ہوتے ہیں۔

میٹیئرائڈ زمین سے کتنی باقاعدگی سے ٹکراتے ہیں؟

شہاب ثاقب، آسمان، فلکیات،
روس کے ارال خطے کے اوپر فروری 2013 میں ایک شہابیے نے نہایت روشن آگ کا گولہ پیدا کیا تھا جس کے دھماکے سے کئی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے تھے

ناسا کے مطابق ہر روز زمین پر 100 سے 300 ٹن کے درمیان خلائی مٹی اور پتھروں کی بارش ہوتی ہے مگر ان کا حجم کسی ریت کے ذرے سے زیادہ بڑا نہیں ہوتا۔

اور ناسا کا اندازہ ہے کہ ان میں سے زمین پر تقریباً 44 ٹن مواد گرتا ہے۔

سال میں تقریباً ایک مرتبہ گاڑی کے سائز جتنا ایک ایسٹیرائڈ زمین کی فضا سے ٹکراتا ہے جس سے آگ کا ایک زبردست گولہ پیدا ہوتا ہے مگر یہ زمین کی سطح تک پہنچنے سے پہلے ہی جل کر ختم ہوجاتا ہے۔

تقریباً ہر 2000 سال میں کسی فُٹبال کے میدان جتنا میٹیئرائڈ زمین سے ٹکراتا ہے اور اچھا خاصہ نقصان پہنچاتا ہے۔

شہابیوں کی بارش یا میٹیئر شاور کیا ہوتا ہے؟

شہاب ثاقب، آسمان، فلکیات،
پرسیڈ شہابیوں کی بارش ہر سال اگست میں ہوتی ہے۔ تصویر کے بائیں جانب نیچے کی طرف ایک پرسیڈ شہابیے کو دیکھا جا سکتا ہے

شہابیوں کی بارش سال میں کب کب ہوتی ہے؟

  • کواڈرینٹڈز: جنوری
  • لائرِڈز: اپریل
  • ایٹا ایکوارِڈز: مئی
  • پرسیڈز: اگست
  • اورائنِڈز: اکتوبر
  • لیونِڈز: نومبر
  • جیمینڈز: دسمبر
  • ارسِڈز: دسمبر

بشکریہ ناسا

مندرجہ بالا کسی بھی میٹیئر شاور کے دوران آسمان پر نظر آنے والے شہابیوں کی تعداد میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوجاتا ہے۔

ہر سال جب زمین خلا میں موجود ایسٹیرائڈز یا کومیٹس کے چھوڑے گئے ملبے کے درمیان سے گزرتی ہے تو ہمیں آسمان پر یہ شہابیے نظر آتے ہیں۔

شہابیوں کی ان بارشوں میں سب سے مشہور پرسیڈز ہیں جو ہر سال اگست میں اپنے عروج پر پہنچ جاتے ہیں۔ پرسیڈز کے تمام شہابیے ایک دمدار ستارے سوئفٹ ٹٹل کے ننھے مُنے ٹکڑے ہوتے ہیں۔

اور مشہور دمدار ستارہ ہیلی شہابیوں کی دو بارشوں ایٹا ایکوارِڈز اور اورائنِڈز کا سبب بنتا ہے۔

مگر دسمبر کے وسط میں ہونے والی جیمینڈز کی برسات میں سب سے زیادہ شہابیے نظر آتے ہیں جن کی روشنی بھی زیادہ ہوتی ہے اور ان کی تعداد بھی۔ اس لیے جیمینڈز کو شہبایوں کی بارش میں ممتاز مقام حاصل ہے۔

کیا آپ کو کبھی میٹیئرائڈ لگ سکتا ہے؟

ناسا کے مطابق میٹیئرائڈ عام طور پر چھوٹے ہوتے ہیں جن کا سائز ریت کے ذرے سے لے کر کسی چٹان جتنا ہوسکتا ہے۔ یہ تقریباً ہمیشہ ہی اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ فضا میں ہمیشہ جل کر ختم ہوجاتے ہیں۔

مگر ان پر نظر رکھنے والے ہارورڈ یونیورسٹی کے انٹرنیشنل کومیٹ کوارٹرلی کے مطابق کبھی کبھی یہ زمین پر گرتے ہیں جس سے لوگوں کو نقصان پہنچتا ہے۔

سنہ 1994 میں سپین میں ایک میٹیئرائٹ ایک چلتی ہوئی بی ایم ڈبلیو گاڑی کی ونڈ سکرین توڑتا ہوا اندر داخل ہوگیا۔ ’خوش قسمت‘ ڈرائیور کی اس حادثے میں صرف انگلی ٹوٹی۔

سنہ 1992 میں یوگنڈا میں ایک گنجان آباد علاقے میں ایک بچے کے سر پر 3.6 گرام کا ٹکڑا گرا۔ بعد میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ بچے پر گرنے سے قبل اس کی رفتار کیلے کے پتوں کی وجہ سے کم ہوگئی تھی اور یہ بچہ بعد میں وہ پتھر بھی ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔

سنہ 1954 میں امریکہ کی ریاست ایلابامہ میں گریپ فروٹ کے جتنا ایک میٹیئرائٹ ایک چھت پھاڑ کر نیچے آیا، ایک ریڈیو سے ٹکرا کر اچھلا اور اپنے کمرے میں بیٹھی این ہوجز کو جا لگا۔

انھیں اس کی وجہ سے ایک بڑا زخم لگا۔

شہاب ثاقب، آسمان، فلکیات،
سنہ 1954 میں ایک شہابیہ این ہوجز کے گھر کی چھت پھاڑ کر انھیں آ لگا

روس میں ایسے دو بڑے واقعات ہوئے ہیں جن میں خلائی پتھر فضا میں ہی پھٹ گئے اور کافی نقصان پہنچایا۔

فروری 2013 میں ایک انتہائی روشن فائر بال یا آگ کا گولہ روس کے ارال خطے کے اوپر پھٹا جس سے پتھر کے کئی ٹکڑے نکلے اور 1500 لوگ زخمی ہوئے۔ زیادہ تر لوگ اس دھماکے کی لہر سے ٹوٹنے والے شیشوں کے ٹکڑوں سے زخمی ہوئے۔

سنہ 1908 میں سائبیریا کے علاقے ٹنگسکا میں ایک خلائی پتھر زمین کی فضا میں داخل ہوا اور فضا میں ہی پھٹ گیا۔ اس سے 2000 مربع کلومیٹر پر محیط جنگلات تباہ ہوئے جبکہ دو افراد اور سینکڑوں برفانی ہرن ہلاک ہوئے۔