ورلڈ میوزک ڈے: ہارمونیم کو کب تک اچھوت سمجھا جائے گا؟
جب آپ ہارمونیم کا تصور کرتے ہیں تو آپ کے ذہن میں کیا خیال آتا ہے؟ مہدی حسن اپنی کوئی مسحورکن غزل چھیڑتے ہوئے، کوئی سریلا قوال تان لگاتے ہوئے یا پھر کوئی کلاسیکی گلوکار اپنے گلے سے آس پاس کی فضا میں رس گھولتے ہوئے۔
یہ ساز ہندوستانی موسیقی کے ساتھ اس طرح سے جڑ گیا ہے کہ اس کے بغیر کلاسیکی موسیقی اور غزل گائیکی کا تصور کرنا مشکل ہے۔
لیکن شاید یہ بات بہت سے لوگوں کے لیے حیرت انگیز ہو کہ ہارمونیم سرے سے ہندوستانی یا ‘دیسی’ ساز ہے ہی نہیں بلکہ پیانو، وائلن اور گٹار کی طرح مغرب سے درآمدہ ہے۔ یہ الگ بات کہ بدیسی ہونے کے باوجود یہ ساز برصغیر میں کچھ یوں پھلا پھولا کہ اسی سرزمین کا حصہ بن کر رہ گیا۔
یورپ میں چرچوں میں بجائے جانے والی مذہبی موسیقی میں آرگن نامی ساز بڑے پیمانے پر استعمال ہوتا چلا آیا ہے، لیکن اس میں ایک مسئلہ تھا کہ یہ ساز حجم میں بہت بڑا اور بہت مہنگا تھا اور چھوٹے چرچ اسے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔
اس مشکل کا حل ڈھونڈنے کے لیے یورپ کے مختلف ملکوں میں مختلف ‘سازسازوں’ چھوٹے اور ‘منقولہ’ (پورٹیبل) آرگن بنانے کی کوششوں میں لگے رہے۔ آخر سنہ 1840 میں فرانس کے ایک موجد الیکساندر دوبین نے ایسا ہی ایک ساز ایجاد کرنے میں کامیابی حاصل کر لی اور اسے ہارمونیم کا نام دیا۔
یہ ساز سستا، سکھانے اور بجانے میں آسان اور نسبتاً چھوٹا ہونے کی وجہ سے اٹھا کر کہیں بھی لے جانے لائق تھا۔ انھی خوبیوں کے بل بوتے پر یہ دیکھتے ہی دیکھتے پورے یورپ میں اور پھر وہاں سے امریکہ میں سرایت کر گیا، اور اداروں کے علاوہ عام لوگوں نے گھروں میں استعمال کے لیے بھی خریدنا شروع کر دیا۔
یورپ کے چوٹی کے موسیقاروں نے اس ساز کے لیے خاص طور پر دھنیں ترتیب دیں جن میں عظیم
موسیقار ڈوورییک، مالر اور شاستوکووچ کے نام سرِ فہرست ہیں۔
انگریز جہاں جہاں قدم رنجہ ہوئے، انگریزی، کرکٹ اور چائے کی طرح ساتھ ہارمونیم بھی لے گئے۔ انھی نوآبادیوں میں ہندوستان بھی تھا جہاں یہ ساز 1868 میں، یعنی آج سے ٹھیک ڈیڑھ سو سال پہلے پہنچا۔
بنگالی موسیقار دوارکاناتھ گھوش کو یہ ساز بڑا پسند آیا اور انھوں نے اس میں چند تبدیلیاں کر کے ہندوستان کے مزاج سے قریب کر لیا۔ جلد ہی ان کی قائم کردہ کمپنی دوارکن اینڈ سن نے اس آلے کو تجارتی بنیادوں پر تیار کرنا اور فروخت کرنا شروع کر دیا۔ انھوں نے اس میں جو اختراعات کیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ اس کی دھونکنی پاؤں کی بجائے ہاتھ سے بجائے جانے لگی، یوں ساز کا حجم گھٹ کر آدھا ہو گیا۔
یہ وہی ہارمونیم ہے جو آپ نے استاد امانت علی خاں اور مہدی حسن وغیرہ کو بجاتے ہوئے دیکھا ہو گا۔
پہلے پہل تو ہندوستان کے موسیقاروں نے اس بدیسی ساز کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا۔ لیکن رفتہ رفتہ اسے قبولیت ملنے لگی۔
ہارمونیم سے قبل کلاسیکی موسیقی میں سنگت کے لیے سارنگی استعمال کی جاتی تھی۔ سارنگی ویسے تو بڑا خوبصورت ساز ہے لیکن اس میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ ہر راگ کے لیے اس کے سر الگ سے ملانے پڑتے ہیں جس میں بعض اوقات بڑا وقت لگ جاتا ہے۔ دوسری طرف اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سارنگی انتہائی مشکل ساز ہے اور اس پر کمال حاصل کرنے میں عمریں بیت جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا عمدہ سازندہ ڈھونڈنا آسان نہیں۔
دوسری طرف ہارمونیم میں ایسی کوئی دقت نہیں تھی، کوئی بھی مرد و زن چند ماہ کی مشق کے بعد ہارمونیم ہر ہاتھ صاف کر سکتا ہے۔ بس بجاتے جاؤ، یہ بجتا جائے گا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ جلد ہی اس ساز نے ہندوستان میں جڑیں پکڑ لیں یہ نہ صرف یہاں بجایا بلکہ صنعتی پیمانے پر بنایا بھی جانے لگا۔ سنہ 1915 کے آتے آتے ہندوستان دنیا میں ہارمونیم تیار کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا۔
بنگال کے بعد ہارمونیم کو مراٹھی تھیئٹر نے گلے لگایا، پھر پارسی تھیئٹر نے اپنایا۔ اوپر دیے گئے فائدوں کے علاوہ اس کا ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ چھوٹا ہونے کے باوجود اس کی پاٹ دار آواز سارے پنڈال پر باآسانی چھا جاتی تھی۔
‘یہ حسن کس کو لے کر بازار تک نہ پہنچا’ کے مصداق جب ہارمونیم کی شہرت پھیلی تو بازارِ حسن والے کیوں پیچھے رہتے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ آپ کے سامنے ہے کہ آج مجرے کا تصور کرتے ہی ذہن میں ہارمونیم بجنے لگتا ہے۔
ہندوستان میں اس ساز کو ہاتھوں ہاتھ، بلکہ گودوں گود لیے کی مثال کچھ یوں سمجھ لیجیے کہ بعض اوقات کوئی پیڑ اپنے قدرتی ماحول میں دبا دبا رہتا ہے لیکن جب اسے وہاں سے نکال کر کہیں اور لگا دیا جائے نئی آب و ہوا اسے اس قدر راس آتی ہے کہ تیزی سے پھلنے پھولنے لگتا ہے۔
اقبال نے شاید یہی بات ذہن میں رکھ کر عبدالرحمٰن اول کے ہاتھوں قرطبہ میں لگائے جانے والے کھجور کے درخت کے بارے میں کہا تھا:
غربت میں آ کے چمکا، گمنام تھا وطن میں
لیکن ہارمونیم اس غربت میں کچھ زیادہ ہی چمک گیا، اتنا کہ بہت سی آنکھیں چکاچوند ہونے لگیں۔ ان لوگوں نے وہی کیا جو ہمیشہ سے بادشاہوں کے محلات میں ہوتا چلا آیا ہے، یعنی جس کا مقابلہ نہ کر سکو اسے سازش کر کے منظرِ عام سے ہٹا دو۔
ہم معروف براڈ کاسٹر اور ’بابائے نشریات‘ زیڈ اے بخاری کا نام حاسدوں کی اس فہرست میں شامل کرنے پر مجبور ہیں کیوں کہ انھوں نے خود اپنی آپ بیتی ‘سرگزشت’ میں اعترافِ جرم کر دیا ہے:
‘مجھے ہارمونیم سے سخت نفرت ہے۔ اہلِ یورپ نے کبھی اس کو موسیقی کا ساز سمجھا نہ ایشیا کے موسیقی دانوں نے۔ یہ ساز حساب کے رو سے قطعی غلط ہے۔ ہارمونیم کی وبا عیسائی پادری یہاں لائے تھے، یہ بیہودہ ساز انھوں نے چرچ آرگن کو مختصر کر کے بنایا تھا۔ اسے گلے میں لٹکائے لٹکائے پھرتے تھے، اس پر الٹی سیدھی انگلیاں چلا کر ‘ہم سب ہیں یسوع مسیح کی بھیڑیں’ گلی گلی کوچے کوچے گاتے پھرتے تھے۔’
آپ بھانپ گئے ہوں گے کہ بخاری کے اس پیرے میں کئی غلطیاں ہیں۔ مثلاً یورپ والے اسے ساز نہ سمجھتے تو شاستوکووچ اور ڈوورییک جیسے لازوال موسیقار اس کے لیے خصوصی موسیقی کیوں تخلیق کرتے؟
لیکن خیر، اس سے صرفِ نظر سے کر آگے چلتے ہیں۔ اگر بات بخاری کی ذاتی پسند نا پسند تک محدود رہتی تو شاید گوارا کی جا سکتی تھی، لیکن انھوں نے ایک قدم آگے بڑھ کر اس ساز کو جڑ ہی سے اکھاڑنے پر کمر باندھ لی۔ چنانچہ مزید فرماتے ہیں:
‘ریڈیو کو ہارمونیم سے نجات دلانے کے لیے میں نے مناسب سمجھا کہ کسی نہ کسی طرح ریڈیو میں ہارمونیم کا استعمال بند ہو جائے۔’
لیکن ہارمونیم کو ‘فارغ خطی’ دینے سے پہلے موصوف نے سوچا کہ رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے ہندوستان کے بڑے لوگوں سے ہارمونیم کے بارے میں رائے لینے کے لیے خطوط لکھوائے جائیں۔ سرگزشت میں رقم ہے کہ اس سلسلے میں ‘ایک خط ٹیگور کو لکھا اور ایک پنڈت جواہر لال نہرو کو۔ دونوں نے جواب دیا کہ ہارمونیم نہایت ہی لغو چیز ہے، ریڈیو کو اس کا استعمال ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔’
ٹیگور نے ریڈیو کو جو خط لکھا تھا اس پر 19 جنوری 1940 کی تاریخ پڑی ہے اور وہ ہم نے ڈھونڈ نکالا ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں:
‘میں ہمیشہ سے اپنی موسیقی کی سنگت کے دوران ہارمونیم کے استعمال کے خلاف رہا ہوں اور ہمارے آشرم میں اس پر مکمل پابندی ہے۔ اگر آپ اسے آل انڈیا ریڈیو کے سٹوڈیوز سے نکال باہر کریں تو یہ ہندوستانی موسیقی کی بڑی خدمت ہو گی۔
آپ کا مخلص
رابندر ناتھ ٹیگور’
اس خط میں بھی ‘ہمیشہ سے بھی’ کا فقرہ حقیقت کے منافی ہے۔ یہی ٹیگور ایک زمانے میں ہارمونیم کے اتنے بڑے حامی تھے کہ انھوں نے اوپر مذکور دوارکن اینڈ سن کمپنی کے ہارمونیم کے اشتہار میں بھی حصہ لیا تھا۔
ٹیگور کا موسیقی سے واسطہ واضح ہے کہ وہ نوبیل انعام یافتہ شاعر اور مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ عہد ساز موسیقار بھی تھے اور ان کی بنائی ہوئی ہزاروں دھنیں بنگالی ثقافت میں آج بھی ویسے ہی رچی بسی ہوئی ہیں جیسے ماتھے کی بندیا اور سوتی ساڑھی۔ لیکن ہماری سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ ریڈیو کے کرتا دھرتاؤں کو نہرو سے صلاح لینے کا خیال کیسے آیا؟
یہ تو ایسا ہی ہے جیسے استاد بڑے غلام علی خاں صاحب سے آئین سازی پر مشاورت کی جائے۔ معلوم نہیں نہرو نے اس معاملے پر کیا لکھا ہو گا، ہم نے تو بہرحال ان کے خط کو کھوجنے کی کوشش نہیں کی۔
قصہ مختصر یکم مارچ 1940 کو مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بخاری نے آل انڈیا ریڈیو سے ہارمونیم کا جنازہ نکال دیا۔ اس دن کے بعد سے اس ساز کا استعمال ممنوع قرار پایا، اور ریڈیو کی ملکیت تمام ہارمونیم نیلام کر دیے گئے۔
یہ پابندی اس قدر ‘ہمہ گھیر’ تھی کہ نہ صرف گائیکی کے دوران، سازینوں میں، ریہرسل کے دوران، حتیٰ کہ ڈراموں میں ساؤنڈ ایفیکٹس دینے کے لیے بھی ہارمونیم بجانا مردود قرار پایا۔
اس پر ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا اور لوگوں نے الزام لگایا کہ بخاری نے ہندوؤں کو نقصان پہنچانے کے لیے ہارمونیم پر پابندی لگوائی ہے کیوں کہ ہارمونیم بنانے والی کمپنیاں ہندوؤں کی ملکیت تھیں۔
ویسے تو بخاری نے ہارمونیم پر پابندی کا سارا ‘کریڈٹ’ خود لینے کی کوشش کی ہے لیکن قریب سے دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس پابندی کے پیچھے آل انڈیا ریڈیو کے مغربی موسیقی کے شعبے کے انگریز افسران کا ہاتھ تھا۔ ان میں سے ایک تو ریڈیو کے سربراہ لائیونل فیلڈن تھے، دوسرے ریڈیو کے مغربی موسیقی کے شعبے کے ڈائریکٹر جان فولڈز کا نام خاص طور پر آتا ہے جس نے یکم مارچ (پابندی کے دن ہی) ہی ریڈیو کے رسالے ‘دی انڈین لِسنر’ میں ہارمونیم کے خلاف ایک دھواں دھار مضمون لکھا جس میں اس نے اسے Harm-omnium قرار دیا۔
ہارمونیم پر ریڈیو میں تو پابندی لگی رہی لیکن اسی دوران یہ انڈیا اور پاکستان دونوں کے فلمی سنگیت پر بڑھ چڑھ کر راج کرتا رہا۔
درست تو معلوم نہیں لیکن اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے کہ زیڈ اے بخاری استاد بڑے غلام علی خان، استاد عبدالکریم خان، استاد فیاض خان، امانت علی خان، استاد فتح علی اور بھیم سین جوشی جیسے عظیم کلاسیکی گلوکاروں، مہدی حسن، بیگم اختر، غلام علی، طلعت محمود جیسے غزل گائیکوں کے ہاتھوں میں ‘حساب کے رو سے قطعی غلط’ ساز دیکھ کر کیا محسوس کرتے ہوں گے۔
یہی نہیں بلکہ سرحد کے دونوں طرف کی فلمی دنیاؤں میں ان گنت سریلے نغمے بھی اسی ساز کے مرہونِ منت ہیں اور متعدد موسیقار دھنیں بنانے کے لیے اسی کا سہارا لیتے رہے ہیں۔
برصغیر کی پہلی بولتی فلم ‘عالم آرا’ کے نغموں میں ہارمونیم استعمال کیا گیا تھا، جس کے بعد اس نے ہزاروں نغموں میں مدھرتا بکھیری۔ بالی وڈ کے سنہرے دور کے شیدائیوں کے دلوں میں فلم ‘دیدار’ میں دلیپ کمار کی وہ شبیہ آج بھی کندہ ہے جس میں وہ ہارمونیم لیے گلیوں میں ‘ہوئے ہم جن کے لیے برباد’ گاتے پھر رہے ہیں۔
یہ سلسلہ شروع سے آج تک جاری ہے۔
ادھر یہ سب کچھ چلتا رہا اور اس دوران برصغیر میں موسیقی کی ترسیل کرنے والے ادارے یعنی آل انڈیا ریڈیو میں ہارمونیم کا حقہ پانی بند رہا۔ آخر 30 سال بعد اسے کو خیال آیا کہ شاید ہارمونیم کے ساتھ کچھ زیادتی ہو گئی ہے۔ 1970 میں اس ادارے نے ایک سمپوزیم منعقد کروایا جس میں ماہرین سے پوچھا گیا کہ آیا یہ پابندی ہٹائی جائے یا نہیں۔
اس دوران دونوں طرف سے دھواں دھار بحثیں کی گئیں، ایک ایک نکتہ و نقطہ زیرِ بحث آیا، جیسے کسی دستور ساز اسمبلی میں آئین کی کسی دقیق شق پر مذاکرہ منعقد کیا جاتا ہے۔ آخر ہارمونیم کے حامیوں کی جیت ہوئی۔ ایک ماہرِ موسیقی پی وی سبرامنیم نے اس موقعے پر یادگار تقریر کی:
‘ہارمونیم نے اپنے آپ کو بطور مقبول ساز منوایا ہے۔ اس نے اناڑیوں پر بھی کلاسیکی موسیقی کے سروں کے اسرار کھولے ہیں اور یہ ناقص آوازوں کا وفادار ساتھی رہا ہے۔ میرا مطالبہ ہے کہ غیر ذات کی بجائے اسے ہمارے اپنے سازوں میں سے ایک سمجھا۔ میں اس اچھوت پن پر فوری پابندی کا مطالبہ کرتا ہوں۔’
چنانچہ آل انڈیا ریڈیو کو طوعاً و کرہاً اپنے ہاں ہارمونیم کو جگہ دینی پڑی۔
ایک طرف تو یہ حالت تھی کہ ہارمونیم کے موضوع پر بڑے پیمانے پر بحث و مباحثہ گرم تھا، دوسری طرف عجیب ستم ظریفی یہ ہوئی کہ مغرب میں، جہاں یہ ساز ایجاد ہوا تھا، ہارمونیم ڈائنوساروں کی راہ چلتے ہوئے قریب قریب معدوم ہو گیا۔
اس معدومی کی وجہ جو شہابِ ثاقب بنا اس کا نام الیکٹرک کی بورڈ تھا، جو بجانے میں اور ادھر ادھر لے جانے میں ہارمونیم سے بھی آسان تھا۔ آج اگر مغرب میں کہیں ہارمونیم دکھائی دے بھی جائے تو وہ برصغیر کے کسی ثقافتی طائفے کے ہمراہ ہی ملے گا۔
پاکستان میں موجودہ دور میں ہارمونیم کی کیا صورتِ حال ہے؟ ظاہر ہے کہ یہاں بھی اسے پہلے تو کی بورڈ اور پھر کمپیوٹر سے بجنے والے سازوں نے زک پہنچائی ہے، لیکن کلاسیکی موسیقی سے تعلق رکھنے والے اسے اب بھی گلے سے لگائے، بلکہ بقول بخاری لٹکائے پھر رہے ہیں۔
البتہ حیرت انگیز طور پر پاکستان میں ایک ادارہ ایسا ہے جو ہارمونیم کو اچھوت سمجھتا ہے، اور یہ ہے آل پاکستان میوزک کانفرنس، جو اب بھی ہارمونیم کی سولو پرفارمنس کی اجازت نہیں دیتا۔
مشہور ماہرِ موسیقی اور بےمثال ہارمونیم نواز پروفیسر شہباز علی نے بی بی سی کو بتایا کہ اس ادارے کا کہنا ہے کہ ہارمونیم کلاسیکی موسیقی کی بعض نزاکتیں مثلاً مینڈھ، مرکیاں، زمزمہ، تان پلٹا وغیرہ ادا کرنے سے قاصر ہے۔ حالانکہ بقول پروفیسر صاحب، انھوں نے خود ہارمونیم پر سب کچھ بجا کر دکھا دیا لیکن اس ادارے کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔
پروفیسر صاحب کے فن کی ایک مثال یہاں ملاحظہ ہو۔
گویا ڈیڑھ سو سال بیت گئے، کانوں سے موسیقی کے دریا گزر گئے، لیکن ہارمونیم بےچارہ آج بھی اپنی شناخت کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ اگر یہ ساز، جو بےآواز بھی نہیں ہے، بول سکتا تو اس زیادتی پر ضرور احتجاج کرتا کہ
یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
غربت میں آکے چمکا گم نام تھاوطن میں
علامہ اقبال کامصرعہ ہے لیکن یہ ان کی نظم عبدالرحمان الداخل کے کھجور کادرخت لگانے والی نظم سے ہے نہ کھجور کےدرخت کے بارےمیں ہے۔یہ ان کی نظم جگنوکا مصرعہ ہےجو جگنو کے بارے میں ہے۔
جگنو کی روشنی ہے کاشانہ چمن میں
اشرف قریشی