سعودی عرب کا محدود حج کا اعلان، تاریخ میں حج کب کب منسوخ ہوا؟
سعودی عرب کی حکومت نے رواں برس کورونا وائرس کے پیش نظر حج کے شرکا کی تعداد محدود رکھنے اور صرف سلطنت میں مقیم افراد کو حج کرنے کی اجازت دینے کا اعلان کیا ہے۔
سعودی خبر رساں ادارے ایس پی اے کے مطابق 22 جون کی شب سعودی وزارت حج و عمرہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’دنیا کے 180 سے زائد ممالک میں کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کے پیش نظر محدود تعداد میں سلطنت میں مقیم مختلف ممالک کے شہریوں کو حج کا موقع دیا جائے گا۔‘
جبکہ سعودی عرب کی وزارت خارجہ کی جانب سے ٹوئٹر پر بھی سعودی وزارت حج و عمرہ کے اس فیصلے کے متعلق آگاہ کیا گیا۔
سعودی وزارت حج و عمرہ نے بیان میں مزید کہا کہ ’کورونا وائرس کے باعث دنیا بھر میں پانچ لاکھ کے قریب اموات ہو چکی ہیں اور 70 لاکھ سے زائد افراد اس وائرس سے متاثر ہیں۔ کورونا کی وبا اور روزانہ عالمی سطح پر اس وائرس کے متاثرین کی تعداد میں اضافے کے پیش نظر یہ طے کیا گیا ہے کہ رواں برس 1441ھ کے حج میں سعودی سلطنت میں مقیم مختلف ممالک کے عازمین کو محدود تعداد میں شریک کیا جائے گا۔‘
سعودی وزارت حج و عمرہ کے بیان میں مزید کہا گیا کہ ’یہ فیصلہ اس بنیاد پر کیا گیا ہے کہ حج محفوظ اور صحت مند ماحول میں ہو۔ کورونا سے بچاؤ کے تقاضے پورے کیے جائیں، عازمین حج کی حفاظت اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے سماجی فاصلہ برقرار رکھا جا سکے اور انسانی جان کے تحفظ سے متعلق اسلامی شریعت کے مقاصد پورے کیے جا سکیں۔‘
یاد رہے کہ کووڈ 19 کا پھیلاؤ روکنے کے لیے سعودی حکومت نے اس سے قبل اپنے مقدس مقامات پر عمرے کی ادائیگی بھی معطل کر دی تھی۔
واضح رہے کہ سعودی عرب میں کورونا وائرس کے باعث 1300 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ متاثرین کی تعداد ایک لاکھ 61 ہزار سے زائد ہے۔ سعودی حکومت نے کورونا کے باعث لاک ڈاؤن بھی 22 جون سے ختم کر دیا ہے جس کے بعد معمولات زندگی بحال ہو گئے ہیں۔
اب جب کہ سعودی عرب نے کورونا وائرس کے پیش نظر رواں برس حج کو محدود کرتے ہوئے صرف ملک میں مقیم غیر ملکیوں کو حج کرنے کی اجازت دی ہے وہیں کیا آپ جانتے ہیں کہ اس سے قبل حج کب کب اور کتنی مرتبہ منسوخ کیا گیا ہے؟
ماضی میں حج کب کب منسوخ ہوا؟
تاریخ میں پہلی مرتبہ حج 629 عیسوی (چھ ہجری) کو پیغمبرِ اسلام کی قیادت میں ادا کیا گیا تھا۔ اس کے بعد یہ فریضہ ہر سال ادا ہوتا رہا۔
اگرچہ مسلمان سوچ بھی نہیں سکتے کہ کسی سال حج نہیں ہو سکے گا۔ لیکن اس کے باوجود تاریخ میں تقریباً 40 مواقعے ایسے ہیں جن میں حج ادا نہ ہو سکا اور کئی بار خانہ کعبہ حاجیوں کے لیے بند رہا۔
اس کی کئی وجوہات تھیں جن میں بیت اللہ پر حملے سے لے کر سیاسی جھگڑے، وبا، سیلاب، چور اور ڈاکوؤں کے حاجیوں کے قافلے لوٹنا اور موسم کی انتہائی لہر شامل ہیں۔
سنہ 865: السفاک کا حملہ
سنہ 865 میں اسماعیل بن یوسف نے، جنھیں السفاک کے نام سے جانا جاتا ہے، بغداد میں قائم عباسی سلطنت کے خلاف اعلانِ جنگ کیا اور مکہ میں عرفات کے پہاڑ پر حملہ کیا۔
ان کی فوج کے اس حملے میں وہاں موجود حج کے لیے آنے والے ہزاروں زائرین ہلاک ہوئے۔
اس حملے کی وجہ سے اس سال حج نہ ہو سکا۔
سنہ 930: قرامطہ کا حملہ
اس حملے کو سعودی شہر مکہ پر سب سے شدید حملوں میں سے ایک جانا جاتا ہے۔ سنہ 930 میں قرامطہ فرقے کے سربراہ ابو طاہر الجنابی نے مکہ پر ایک بھرپور حملہ کیا جس دوران اتنی لوٹ مار اور قتل و غارت ہوئی کہ کئی سال تک حج نہ ہو سکا۔
سعودی عرب میں قائم شاہ عبدالعزیز فاؤنڈیشن فار ریسرچ اینڈ آرکائیوز میں چھپنے والی ایک رپورٹ میں اسلامی تاریخ دان اور احادیث کے ماہر الذهبي کی کتاب ’اسلام کی تاریـخ‘ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ’316 ہجری کے واقعات کی وجہ سے کسی نے قرامطہ کے خوف کے باعث اس سال حج ادا نہیں کیا۔‘
قرامطہ اس وقت کی اسلامی ریاست کو نہیں مانتے تھے اور اسی طرح وہ ریاست کے تحت مانے جانے والے اسلام کے بھی منحرف تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ حج پر ادا کیے جانے والے فرائض اسلام سے پہلے کے ہیں اور اس طرح وہ بت شکنی کے زمرے میں آتے ہیں۔
شاہ عبدالعزیز فاؤنڈیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ابو طاہر خانہ کعبہ کے دروازے پر آٹھ ذی الحج کو تلوار لے کر کھڑے ہوگئے اور اپنے سامنے اپنے جنگجوؤں کے ہاتھوں زائرین کا قتلِ عام کرواتے اور دیکھتے رہے۔
رپورٹ کے مطابق وہ کہتے رہے کہ ’عبادت کرنے والوں کو ختم کر دو، کعبہ کا غلاف پھاڑ دو اور حجرِ اسود اکھاڑ دو۔‘
اس دوران کعبہ میں 30 ہزار حاجیوں کا قتلِ عام ہوا اور انھیں بغیر کسی جنازے، غسل اور کفن کے دفنا دیا گیا۔
مورخین کے مطابق حملہ آوروں نے لوگوں کو قتل کرنے کے بعد کئی ایک کی لاشیں زم زم کے کنویں میں بھی پھینکیں تاکہ اس کے پانی کو گندہ کیا جا سکے۔
اس کے بعد وہ حجرِ اسود کو اکھاڑ کر اپنے ساتھ اس وقت کے سعودی عرب کے مشرقی صوبے البحرین لے گئے جہاں یہ ابو طاہر کے پاس اس کے شہر الاحسا میں کئی سال رہا۔ بالآخر ایک بھاری تاوان کے بعد اسے واپس خانہ کعبہ میں لایا گیا۔
سنہ 983: عباسی اور فاطمی خلافتوں میں جھگڑے
حج صرف لڑائیوں اور جنگوں کی وجہ سے منسوخ نہیں ہوا بلکہ یہ کئی سال سیاست کی نظر بھی ہوا۔
سنہ 983 عیسوی میں عراق کی عباسی اور مصر کی فاطمی خلافتوں کے سربراہان کے درمیان سیاسی کشمکش رہی اور مسلمانوں کو اس دوران حج کے لیے سفر کرنے نہ دیا گیا۔ اس کے بعد حج 991 میں ادا کیا گیا۔
بیماریوں اور وباؤں کی وجہ سے حج منسوخ
شاہ عبدالعزیز فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق 357 ہجری میں ایک اور بڑے واقعے کی وجہ سے لوگ حج نہ کر سکے اور یہ واقعہ دراصل ایک بیماری تھا۔ رپورٹ میں ابنِ خطیر کی کتاب ’آغاز اور اختتام‘ کا حوالہ دے کر لکھا گیا ہے کہ الماشری نامی بیماری کی وجہ سے مکہ میں بڑی تعداد میں اموات ہوئیں۔
بہت سے زائرین راستے میں ہی ہلاک ہوئے اور جو لوگ مکہ پہنچے بھی تو وہ حج کی تاریخ کے بعد ہی وہاں پہنچ سکے۔
سنہ 1831 میں انڈیا سے شروع ہونے والی ایک وبا نے مکہ میں تقریباً تین چوتھائی زائرین کو ہلاک کر دیا۔ یہ لوگ کئی ماہ کا خطرناک سفر کر کے حج کے لیے مکہ آئے تھے۔
اسی طرح 1837 سے لے کر 1858 میں دو دہائیوں میں تین مرتبہ حج کو منسوخ کیا گیا جس کی وجہ سے زائرین مکہ کی جانب سفر نہ کر سکے۔
سنہ 1846 میں مکہ میں ہیضے کی وبا سے تقریباً 15 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ یہ وبا مکہ میں سنہ 1850 تک پھیلتی رہی لیکن اس کے بعد بھی کبھی کبھار اس سے اموات ہوتی رہیں۔
اکثر تحقیق کاروں کے مطابق یہ وبا انڈیا سے زائرین کے ذریعے آئی تھی جس نے نہ صرف ان کو بلکہ مکہ میں دوسرے ممالک سے آنے والے بہت سے دیگر زائرین کو بھی متاثر کیا تھا۔
مصری زائرین جوک در جوک بحرہ احمر کے ساحلوں کی طرف بھاگے جہاں انھیں قرنطینہ میں رکھا گیا۔ یہ وبا بعد میں نیو یارک تک پھیلی۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ سلطتِ عثمانیہ کے دور میں ہیضے کی وبا کے خاتمے کے لیے قرنطینہ پر خصوصاً زور دیا گیا تھا۔
رہزنی کا خوف اور حج کے بڑھتے ہوئے اخراجات
سنہ 390 ہجری (1000 عیسوی کے قریب) میں مصر بڑھتی ہوئی مہنگائی اور حج کے سفر کے اخراجات میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے لوگ حج پر نہ جا سکے اور اسی طرح 430 ہجری میں عراق اور خراساں سے لے کر شام اور مصر کے لوگ حج پر نہ جا سکے۔
شاہ عبدالعزیز فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق 492 ہجری میں اسلامی دنیا میں آپس میں جنگوں کی وجہ سے مسلمانوں کو بہت نقصان ہوا جس سے فریضۂ حج متاثر ہوا۔
654 ہجری سے لے کر 658 ہجری تک حجاز کے علاوہ کسی اور ملک سے حاجی مکہ نہیں پہنچے۔ 1213 ہجری میں فرانسیسی انقلاب کے دوران حج کے قافلوں کو تحفظ اور سلامتی کے باعث روک دیا گیا۔
جب کڑاکے کی سردی نے حج روک دیا
سنہ 417 ہجری کو عراق میں شدید سردی اور سیلابوں کی وجہ سے زائرین مکہ کا سفر نہ کر سکے۔
اس طرح شدید سرد موسم کی وجہ سے حج کو منسوخ کرنا پڑا تھا۔
کسوہ پر حملہ
سنہ 1344 ہجری میں خانہ کعبہ کے غلاف، کسوہ کو مصر سے سعودی عرب لے کر جانے والے قافلے پر حملہ ہوا جس کی وجہ سے مصر کا کوئی حاجی بھی خانہ کعبہ نہ جا سکا۔
یہ عیسوی کے حوالے سے 1925 کا سال بنتا تھا۔
تاہم یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جب سے سعودی عرب وجود میں آیا ہے، یعنی 1932 سے لے کر اب تک، خانہ کعبہ میں حج کبھی نہیں رکا۔