یہ جہاز کون لوگ اڑاتے رہے ہیں؟
ہوائی جہاز کے حادثات پر ہالی وڈ میں بے شمار فلمیں بنی ہیں، اِن میں سے دو فلمیں البتہ ایسی ہیں جو اگر آپ نے نہیں دیکھیں تو اپنے ساتھ بہت زیادتی کی ہے۔ایک فلم کانام Sullyہے اور دوسری کا The Flight۔ Sully میرے پسندیدہ اداکار ٹام ہینکس کی فلم ہے جو کلینٹ ایسٹ وڈ کی ہدایتکاری میں بنی۔ یہ فلم اُس پائلٹ کی سچی کہانی ہے جس کا جہازجنوری 2009میں نیویارک کے لا گارڈیا ائیر پورٹ سے پرواز بھرنے کے تھوڑی ہی دیر بعد پرندوں کے غول سے ٹکرا گیا،نتیجتاً جہاز کے دونوں انجن فیل ہو گئے اور پھر جہاز کو دریائے ہڈسن میں ہنگامی انداز میں اتارنا پڑامگر پائلٹ کی مہارت سے تمام 155مسافرمعجزانہ طور پر زندہ بچ گئے۔پوری فلم نہایت صاف ستھری ہے، صرف ایک جپھی ہے مگر ایسی پدرانہ شفقت کے ساتھ کہ اپنے انصار عباسی صاحب اگرسینسر بورڈ کے رکن ہوں تو وہ بھی اسے بخوشی پاس کر دیں۔ دوسری فلم Flightمیں البتہ کچھ مناظر ایسے ہیں جنہیں منظور کروانے کے لیے ہمیں سینسر بورڈ میں اُن کالم نگار کو بٹھانا پڑے گا جن کے باد ہ و ساغر کا تسلی بخش انتظام آج تک نہیں ہو سکااور وہ ہر دوسرے کالم میں اپنی اِس محرومی کا رونا روتے ہیں۔اِس فلم میں پائلٹ کا مرکزی کردار ڈینزل واشنگٹن نے ادا کیا ہے جو شراب اور مختلف نشہ آور ادویات کا عادی ہے۔ایک رات ایسے ہی اُس نے نشے کی حالت میں گذار ی جب اگلی صبح اُس کی فلائٹ تھی۔صبح موسم خاصا خراب تھا مگر اُس نے اپنی مہارت سے بہترین ٹیک آف کیا اور جب پرواز ہموار ہو گئی تو جہازکا اختیار اپنے ساتھی پائلٹ کو دے کرکاک پٹ میں ہی انگھنے لگ گیا۔ تھوڑی دیر بعد جہاز میں خرابی پیدا ہو گئی اور جہاز شدید جھٹکے کھانے لگا جس سے وہ ہڑبڑا کراٹھ گیااور پھر سے جہازکا کنٹرول سنبھال لیا اور نہایت مہارت سے ایک میدان میں جہاز کی کریش لینڈنگ کروائی۔ اِس کے بعدفلم کی اصل کہانی شروع ہوتی ہے۔
یہ دونوں فلمیں ہمیں بتاتی ہیں کہ کسی جہاز کے حادثے کے بعد امریکہ کا نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ (NTSB) ایک آزاد ادارے کے طور پرکیسے تفتیش کرتا ہے، ہوائی کمپنیوں اور پائلٹ انجمن کے مفادات کیاہوتے ہیں اور وہ کیسے اِن کا تحفظ کرتی ہیں، بیمے کی رقم کس قدر بھاری ہوتی ہے اوراِس رقم کی ادائیگی سے پہلے ذمہ داری کا تعین کیسے کیا جاتا ہے؟NTSB کی سماعت کتنی شفاف ہوتی ہے، پائلٹ سے سوال جواب کیے جاتے ہیں، جہاز کا ایک ایک پرزہ کھنگالا جاتا ہے، ہر چیزکی پڑتال اور حادثے کے ہرپہلو کی مکمل چھان بین کی جاتی ہے اور کسی معمولی لغزش کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاتا۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب چونچلے امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں تو ممکن ہیں، ہمارے ہاں نہیں۔ کسی حد تک یہ بات درست ہے مگر ہوا بازی کی صنعت کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔ وبا سے پہلے دنیا بھر میں روزانہ ایک لاکھ پروازیں ہوتی تھیں، سال بھر میں تقریباً چار کروڑ، اِن پروازوں میں کتنے ارب لوگوں نے سفر کیا،یہ حساب آپ خود لگا لیں۔کوئی بھی ملک چاہے کتنا ہی پسماندہ کیوں نہ ہو،ائیر سیفٹی کے میعار کو برقرار رکھنے کا پابند ضرور ہوتا ہے اور یہ میعار خاصا کڑاہوتا ہے۔مثلاً لائسنس کے اجراکا معاملہ ہی دیکھ لیں۔بد قسمت پرواز 8303کے حادثے کے بعد وزارت ہوا بازی نے 262پائلٹس کے اجازت ناموں کو مشکوک قرار دے کر جو فہرست نکالی ہے اُس نے پوری دنیاکو ششدر کر دیا ہے۔ اِس اعلان سے دنیا لا تعلق نہیں رہ سکتی کیوں کہ ہوا بازی ایک لڑی کی طرح پروئی ہوئی عالمی صنعت ہے۔ ایک پائلٹ،جسے پاکستان کی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے جہاز اڑانے کا ”مشکوک“اجازت نامہ جاری کر رکھا ہو،عین ممکن ہے کہ وہ اِس وقت مسافروں سے بھرا کوئی جہاز بحر اوقیانوس کے اوپر سے اڑاتا ہوا لے جا رہا ہو۔تو کیا پھردنیا یہ سمجھے کہ ہمارے پائلٹ نالائق ہیں؟ اِس بات کے دو جواب ہیں۔
پہلا جوا ب طریقہ کار سے متعلق ہے۔سادہ پائلٹ بننے کے لیے انٹر میڈیٹ تک سائنس کی تعلیم ضروری ہے، آپ کسی بھی فلائنگ کلب میں داخلہ لے کر جہاز اڑانا سیکھ سکتے ہیں، یہاں تین ماہ تک آپ کو ایوی ایشن کی بنیادی تعلیم دی جائے گی، تحریری امتحان ہوگاجسے پاس کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کو کم ازکم تین گھنٹے کا جہاز اڑانے کا تجربہ حاصل کرنا ہوگا جس کے بعد آپ سٹوڈنٹ پائلٹ لائسنس مل جائے گا۔اس سے اگلا درجہ پرائیویٹ پائلٹ لائسنس کا ہے۔اس کے لیے چالیس گھنٹے جہاز اڑانے کا تجربہ اور سول ایوی ایشن کی نگرانی میں تحریری امتحان پاس کرنا ضروری ہے،اِس سے آپ کو صرف ذاتی جہاز اڑانے کی اجازت ملے گی۔اگلا مرحلہ کمرشل پائلٹ کا ہے جس کے لیے دو سو گھنٹے کے فلائنگ آورز اور ایوی ایشن کے آٹھ پرچے پاس کرنا ضروری ہیں۔ سی اے اے کے فلائٹ چیک کے ساتھ اگر آپ اِن تمام مراحل سے گذر جائیں تو آپ کو کمرشل پائلٹ لائسنس جاری کر دیا جاتا ہے اور آپ بطور کیڈٹ پائلٹ کسی بھی ائیر لائن میں ملازمت کے حصول کی درخواست سے سکتے ہیں۔اس سے آگے ائیر لائن ٹرانسپورٹ لائسنس ہے، یہ حاصل کرنے کے لیے سی اے اے کی شرط ہے کہ پائلٹ کے پاس کم و بیش پندرہ سو گھنٹے کا جہاز اڑانے کا تجربہ ہو اور وہ ایوی ایشن اور دیگر متعلقہ علوم کے آٹھ پرچے پاس کرے۔اِس کڑے مرحلے کے بعد ہی کسی پائلٹ کو مسافروں والا سب سے چھوٹا جہاز جیسے اے ٹی آر بطور کپتان خود اڑانے کی اجازت ملتی ہے ( اس سے پہلے بطور معاون کپتان کا مکمل تجربہ لازمی ہے) ۔ اِس پورے عمل میں کچھ تکنیکی تفصیلات اوربھی ہیں جن کے ذکر سے میں اور آپ بوجھل ہو جائیں گے سو انہیں چھوڑ دیتے ہیں۔
اصل جواب دوسرا ہے اور وہ یہ کہ کاغذوں میں ہمارے اداروں کے قواعد و ضوابط ایسے ہی دلکش اور کڑے نظر آتے ہیں۔ سول ایوی ایشن کو ہی لے لیں، مشکوک پائلٹس کی جو فہرست اِس ادارے نے جاری کی ہے وہی اغلاط سے بھری ہے۔مثلاً 262کی اِس فہرست میں 144پائلٹ پی آئی اے کے ہیں جن میں سے 39پی آئی اے چھوڑ چکے ہیں (اِن میں وہ مرحوم پائلٹ بھی شامل ہے جو حویلیاں حادثے میں مارا گیا تھا)، 36کے بارے میں معلومات ہی غلط ہیں جبکہ 6عدالتوں میں ہیں، باقی 60پائلٹ بچتے ہیں جن کے بارے میں پالپا نے مطالبہ کیا ہے کہ عدالتی کمیشن بنا کر تحقیقات کی جائیں۔یہ مطالبہ درست ہے مگر پالپا دودھ پیتے بچوں کی کوئی تنظیم نہیں، پالپا کا پی آئی اے میں وہی مقام ہے جو برہمنوں کا ہندوؤں میں۔بہتر ہے کہ پالپا ہچر مچر کرنے کی بجائے اِن 60پائلٹس کے اجازت ناموں کی خود پڑتال کرے اور اگر اِن کے لائسنس بے داغ نکلیں تو اِن 60پائلٹس کو بغل میں بٹھا کر پریس کانفرنس کرے جہاں یہ سب پائلٹس اپنے اپنے اجازت نامے لہرا کر میڈیا کے سامنے پیش کرکے کہیں کہ اِن اجازت ناموں کی پڑتال کروا لو اِن میں کوئی خرابی نہیں۔رہی بات سول ایوی ایشن کی تو اصل ذمہ دار یہ ادار ہ ہے جو لائسنس جاری کرتا ہے مگر لطیفہ یہ ہے کہ ’ایں ہم بچہ شتر است‘ یعنی یہاں بھی پی آئی اے کے پائلٹس کا قبضہ ہے، کلیدی عہدوں پر پائلٹس سی اے اے میں ڈیپوٹیشن پر آتے ہیں جس سے اِس ادارے کی خود مختاری صفر ہو کر رہ گئی ہے۔حل کیاہے؟ حل یہ ہے کہ سول ایوی ایشن کو وزارت سے علیحدہ کرکے خود مختار ادارہ بنایا جائے، یہاں لائسنس کے اجرا کے لیے غیر ملکی پائلٹ اور ماہرین بھرتی کیے جائیں جن کا کوئی رشتہ دار پاکستان میں نہ ہو، سیفٹی بورڈ کو سول ایوی ایشن سے علیحدہ کرکے اُس کی تشکیلNTSB کی طرز پرکی جائے۔ اگر ہم یہ نہیں کریں گے تو ایک دن،میرے منہ میں خاک۔۔۔جانے دیں۔۔۔میں کچھ نہیں کہتا!
کالم کی دُم: پرواز 8303میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو پی آئی اے پچاس لاکھ روپے کی رقم بیمے کی مد میں ادا کرے گا جو کہ بظاہر اُس بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی ہے جس کے تحت یہ رقم ڈیڑھ کروڑ پاکستانی روپوں کے قریب بنتی ہے۔لواحقین کو یہ پوری رقم ملنی چاہیے۔