ویسٹ انڈین فاسٹ بولرز سے جڑے مشہور قصے: جب اتنے بلے باز زخمی ہوئے کہ 17 کھلاڑیوں کو فیلڈنگ کرنی پڑی
مشہور کمنٹیٹر جان آرلٹ نے لکھا ہے کہ جارحانہ انداز دیکھنے کا اس سے زیادہ اچھا تجربہ کوئی اور نہیں ہو سکتا کہ آپ گراؤنڈ میں بیٹھے ہوں اور میدان میں فاسٹ بولرز دونوں طرف سے وکٹیں اڑا رہے ہوں اور ہر وکٹ کے گرنے پر تماشائیوں کے شور میں اضافہ ہوتا چلا جائے۔
فاسٹ بولنگ ایک ایسا عمل ہے جس میں بولرز صرف اپنی رفتار یا دیگر تکنیکی مہارت ہی سے بلے بازوں کو زیر نہیں کرتے بلکہ اپنے مزاج اور طرز عمل سے بھی انھیں اپنے قابو میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایسا کئی بار ہوا ہے کہ بلے باز ان بولرز سے اتنے زیادہ خوفزدہ ہو گئے کہ ان کے لیے اپنا کریئر کامیابی سے جاری رکھنا مشکل ہو گیا۔
دنیا نے ہر دور میں غیر معمولی صلاحیتوں سے مالا مال فاسٹ بولرز دیکھے ہیں لیکن ویسٹ انڈین فاسٹ بولرز کی بات ہی کچھ اور ہے۔
ان کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ دوسرے بولرز کے مقابلے میں زیادہ خطرناک اور بے رحم ہوتے ہیں۔
اس بت کی کئی مثالیں موجود ہیں جب ویسٹ انڈین فاسٹ بولنگ نے حریف بلے بازوں کا اعتماد بری طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
ستر اور اسّی کی دہائی کے ویسٹ انڈین فاسٹ بولرز اپنی جارحانہ انداز کے لیے بہت مشہور ہوئے۔
ویسٹ انڈیز کی فاسٹ بولنگ تاریخ میں کئی دلچسپ کردار موجود ہیں جنھوں نے اپنی بولنگ کے ساتھ ساتھ اپنے غصے اور سخت مزاج کے سبب شہرت پائی اور وہ ایسے واقعات کا حصہ بن گئے جن کے مرکزی کردار وہ خود ہیں۔
’تم اگلی فلائٹ سے واپس جارہے ہو، گُڈ آفٹرنون!‘
روئے گلکرسٹ کو ویسٹ انڈیز کی تاریخ کا تیز ترین بولر سمجھا جاتا ہے لیکن ان کا کریئر دو سال سے بھی کم عرصے میں صرف 13 ٹیسٹ اور تین سیریز پر محیط رہا۔
اس کا سبب ان کا گرم مزاج اور کپتان سے شدید اختلافات تھے۔
روئے گلکرسٹ کا نام آتے ہی ایک ایسے بولر کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے جو بیٹسمین کو آؤٹ کرنے سے زیادہ اس کے جسم کو اپنی گیندوں سے نشانہ بنانے میں خوشی محسوس کرتا تھا۔
روئے گلکرسٹ کے بارے میں لٹل ماسٹر حنیف محمد کا کہنا تھا کہ وہ بہت ہی تیز بولر تھے انھیں کھیلنا آسان نہ تھا خاص کر ایسے دور میں جب بیٹسمین نہ ہیلمٹ پہنا کرتے تھے نہ دوسرے حفاظتی گارڈز ہوا کرتے تھے۔
حنیف محمد نے روئے گلکرسٹ کا سامنا سنہ 1958 میں ویسٹ انڈیز میں ہونے والی سیریز میں کیا تھا۔ یہ وہی سیریز ہے جس میں حنیف محمد نے ٹرپل سنچری بنائی تھی۔
روئے گلکرسٹ نے اس سیریز میں 21 وکٹیں حاصل کی تھیں جن میں پانچ بار حنیف محمد کی وکٹ بھی شامل تھی۔
گلکرسٹ کے مختصر کیریئر کا ڈرامائی موڑ اس وقت آیا جب ویسٹ انڈیز کی ٹیم انڈیا کے دورے پر تھی۔
ناگپور کے چوتھے ٹیسٹ میں انڈین بیٹسمین کرپال سنگھ نے گلکرسٹ کی تین لگاتار گیندوں پر چوکے رسید کیے اور ان سے کچھ کہا جس پر وہ غصے میں آ گئے۔
انھوں نے نوبال کی پرواہ کیے بغیر کرپال سنگھ پر تیز باؤنسر کیا اور ایک گیند ان کے سر پر لگی۔
اس میچ کے بعد ویسٹ انڈیز اور نارتھ زون کے میچ میں بھی گلکرسٹ نے بیٹسمین سوارنجیت سنگھ پر بیمرز کی بارش کر دی۔
ویسٹ انڈین کپتان گیری الیگزینڈر سوارنجیت سنگھ کو کیمبرج کے دنوں سے جانتے تھے۔
انھوں نے گلکرسٹ کو ٹھنڈا رہتے ہوئے مزید باؤنسرز کرنے سے منع کیا لیکن گلکرسٹ نے اپنے کپتان کی بات نظرانداز کردی اور باؤنسر اور بیمر کراتے رہے۔
کھانے کے وقفے پر گیری الیگزینڈر نے سلیکٹرز سے مشورہ کرنے کے بعد گلکرسٹ سے کہا ′تم اگلی فلائٹ سے وطن واپس جارہے ہو، گڈ آفٹرنون۔′
یہ گلکرسٹ کے بین الاقوامی کیریئر کا اختتام تھا حالانکہ اس وقت ان کی عمر صرف چوبیس سال تھی۔
کہا جاتا ہے کہ جب گیری الیگزینڈر نے گلکرسٹ کو وطن واپس بھیجنے کا کہا تو انھوں نے اپنے کپتان پر چھری تان لی تھی۔
روئے گلکرسٹ بعد میں انگلینڈ میں لیگ کرکٹ کھیلتے رہے لیکن وہاں بھی مختلف نوعیت کے تنازعات میں ان کا نام آتا رہا۔
سنہ 1967 میں عدالت نے گلکرسٹ کو اپنی بیوی سے جھگڑا کرنے پر جیل بھیجنے کے بجائے تین ماہ کی معطل سزا سنائی تھی۔
ناری کنٹریکٹر کو نئی زندگی مبارک
1962 میں انڈین کرکٹ ٹیم کو دورۂ ویسٹ انڈیز میں سائیڈ میچ باربیڈوس کی ٹیم کے خلاف کھیلنا تھا۔
میچ سے قبل پارٹی میں ویسٹ انڈین کپتان فرینک وارل نے انڈین کپتان ناری کنٹریکٹر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ چونکہ آپ کے متعدد کھلاڑی اس دورے میں زخمی ہو چکے ہیں لہٰذا جسم پر گیندیں کھانے سے بہتر آؤٹ ہو جانا ہے۔
انھوں نے چارلی گریفتھ کے بارے میں بھی انڈین کپتان کو متنبہ کیا کہ اس 24 سالہ فاسٹ بولر سے محتاط رہنا جس نے اگرچہ ایک ہی ٹیسٹ کھیلا ہے لیکن یہ خطرناک ہونے کے ساتھ ساتھ سخت رویے کا حامل بھی ہے۔
باربیڈوس کے خلاف میچ کے دوسرے دن چارلی گریفتھ کا ایک تیز باؤنسر ناری کنٹریکٹر نے کھیلنے کی کوشش کی لیکن گیند ان کے دائیں کان کے اوپر جا لگی اور انھوں نے اپنا سر پکڑ لیا۔
ان کے ناک اور کانوں سے خون بہنے لگا اور انھیں ہسپتال پہنچایا گیا جہاں ان کی حالت بگڑ گئی۔ انھیں خون دینے والوں میں انڈین کھلاڑیوں کے علاوہ ویسٹ انڈین کپتان فرینک وارل بھی شامل تھے۔
انڈین کرکٹر چندو بورڈے کا کہنا تھا وہ وقت بہت مشکل تھا جب ناری کنٹریکٹر کا آپریشن کیا جا رہا تھا تو اس وقت آپریشن تھیٹر کی بجلی بھی چلی گئی تھی۔
چارلی گریفتھ بھی ناری کنٹریکٹر کو دیکھنے ہسپتال آئے تھے حالانکہ ان کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ بیٹسمینوں سے نرم رویہ نہیں رکھتے تھے لیکن اس وقت وہ پریشان تھے۔
ناری کنٹریکٹر کو اس واقعے کے بعد ریٹائرمنٹ کا مشورہ دیا گیا لیکن وہ دوبارہ ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے پر بضد تھے۔
دس ماہ بعد وہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں واپس آئے لیکن انڈین ٹیم میں منتخب نہ ہو سکے کیونکہ سلیکٹرز کو اس بات کا ڈر تھا کہ کہیں گیند دوبارہ اسی جگہ نہ لگ جائے اور ان کی جان کو خطرہ ہو۔
چارلی گریفتھ نے 28 ٹیسٹ میچوں میں ویسٹ انڈیز کی نمائندگی کی تاہم ان کے بولنگ ایکشن پر اعتراض رہا۔
کیریئر میں دو مرتبہ ان کے بولنگ ایکشن پر امپائرز نے نو بال کا اشارہ دیا جن میں سے ایک وہ میچ تھا جس میں ناری کنٹریکٹر ان کی گیند پر زخمی ہوئے تھے۔
بلے بازوں کو بچانے کے لیے اننگز ڈکلیئر
کیا کوئی یہ سوچ سکتا ہے کہ کوئی کپتان اپنی دوسری اننگز اس وقت ڈکلیئر کردے جب اس کی برتری صرف 12 رنز کی ہوئی ہو لیکن اپریل 1976 میں انڈیا اور ویسٹ انڈیز کے درمیان کنگسٹن ٹیسٹ میں ایسی صورتحال پیدا ہو گئی جب انڈین کپتان بشن سنگھ بیدی کو دوسری اننگز 97 رنز پانچ کھلاڑی آؤٹ پر ڈکلیئر کرنی پڑی۔
اس طرح ویسٹ انڈیز کو جیتنے کے لیے صرف 13 رنز بنانے تھے جو اس نے باآسانی بنا لیے۔
بیدی نے اننگز ڈکلیئر کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا کیونکہ دوسری اننگز میں ان کے تین اہم بیٹسمین انشومن گائیکواڈ، برجیش پٹیل اور وشواناتھ بیٹنگ کے قابل نہ تھے۔
پہلی اننگز میں گائیکواڈ کے بائیں کان پر گیند لگی اور انھیں دو راتیں ہسپتال میں گزارنی پڑیں۔ برجیش پٹیل کے منہ پر گیند لگی اور ان کے ٹانکے آئے۔
وشواناتھ جس گیند پر آؤٹ ہوئے وہ ان کی انگلی فریکچر کر گئی تھی۔ اس صورتحال کے پیش نظر بشن سنگھ بیدی نے پہلی اننگز بھی 306 رنز چھ کھلاڑی آؤٹ پر ڈکلیئر کر دی تھی۔
انڈین ٹیم کے لیے یہ انتہائی مشکل میچ تھا کیونکہ سکواڈ میں شامل تمام 17 کھلاڑیوں کو فیلڈنگ کرنی پڑی تھی لیکن ان میں سے ایک سریندر امرناتھ کو اپنڈکس کی تکلیف کے سبب ہسپتال جانا پڑا تھا جہاں ان کا آپریشن ہوا تھا۔
اس میچ کے بارے میں عام رائے یہ تھی کہ امپائرز چاہتے تو ویسٹ انڈین فاسٹ بولرز کو غیر ضروری باؤنسر اور شارٹ پچڈ گیندیں کرنے سے روک سکتے تھے لیکن شاید وہ جوشیلے تماشائیوں کے دباؤ میں تھے کیونکہ جب مائیکل ہولڈنگ گائیکواڈ کو بولنگ کر رہے تھے تو تماشائیوں کی جانب سے یہ آوازیں آرہی تھیں ′اسے ماردو اسے مار دو۔‘
مائیکل ہولڈنگ نے یہ تسلیم کیا ہے کہ چونکہ سیریز اس وقت ایک ایک سے برابر تھی لہٰذا جیتنے کے لیے میزبان ٹیم پر تماشائیوں کا بہت زیادہ دباؤ تھا۔
ہولڈنگ اس میچ کی دونوں اننگز میں سات وکٹیں لے کر سب سے کامیاب بولر ثابت ہوئے تھے۔
امپائر فریڈ گوڈال نشانے پر
فروری سنہ 1980 میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم آسٹریلیا کو ہرانے کے بعد نیوزی لینڈ پہنچی تو طویل قامت فاسٹ بولر جوئیل گارنر نے ٹی وی انٹرویو میں اپنے میزبانوں پر واضح کر دیا کہ ہم نے آسٹریلیا کو ہرایا ہے اب ہم آپ کو بھی ہرائیں گے۔
اسے ایک روایتی بیان کے طور پر لیا گیا جیسا کہ ہر دورے کے آغاز میں ہوتا ہے لیکن یہ سیریز دونوں ٹیموں کے درمیان ناخوشگوار تعلقات اور سب سے بڑھ کر امپائرنگ کی وجہ سے شہ سرخیوں میں رہی۔
نیوزی لینڈ نے اس سیریز کے لیے امپائر فریڈ گوڈال کا انتخاب کیا تھا جو پیشہ ور امپائر نہیں تھے بلکہ ایک سکول ٹیچر تھے۔ ان کے فیصلوں پر ہونے والے اعتراضات کے باوجود انہیں تینوں ٹیسٹ میچوں میں امپائر مقرر کیا گیا۔
ڈنیڈن کے پہلے ٹیسٹ میں امپائر جان ہیسل کے فیصلے پر مائیکل ہولڈنگ اس قدرغصے میں دکھائی دیے کہ انھوں نے بولنگ اینڈ پر سٹمپس کو لات مار کر گرا دیا۔
اس منظر کو کیمرے کی آنکھ نے قید کر لیا اور یہ تصویر کرکٹ کی تاریخ کی چند منفرد تصاویر میں شمار کی گئی۔
مائیکل ہولڈنگ نے اپنی کتاب وسپرنگ ڈیتھ میں لکھا ہے ′میں پویلین جانے لگا تھا کیونکہ میں بولنگ کرنے کے لیے بالکل تیار نہ تھا لیکن کلائیو لائیڈ اور ڈیرک مرے نے مجھے آمادہ کیا۔′
دوسرا ٹیسٹ کرائسٹ چرچ میں تھا جس کے دو دن سکون سے گزر گئے لیکن تیسرے دن امپائر فریڈ گوڈال نے جیف ہاورتھ کے خلاف کاٹ بی ہائنڈ کی اپیل مسترد کردی جب وہ اڑسٹھ پر بیٹنگ کر رہے تھے۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ 147 بنا گئے۔
چائے کے وقفے پر کپتان کلائیو لائیڈ نے اپنے کھلاڑیوں سے پوچھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ سب نے یہی جواب دیا گھر واپسی۔
کلائیو لائیڈ نے نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ کے حکام کو بتا دیا کہ وہ کھیل جاری رکھنے کے لیے تیار نہیں تاہم بعد میں وہ میدان میں آ گئے۔ تیسرے دن کھیل کے اختتام پر ویسٹ انڈین ٹیم نے ڈریسنگ روم میں اپنے بیگ باندھ لیے تھے اور ڈریسنگ روم میں اپنی کوئی چیز نہیں چھوڑی تھی۔
میچ کے چوتھے دن ویسٹ انڈیز کی ٹیم میدان میں موجود تھی۔ امپائرز کے فیصلوں سے تنگ فاسٹ بولر کالن کرافٹ نے پہلے تو بولنگ کے لیے جاتے ہوئے بیلز سٹمپس پر سے گرا دیں لیکن پھر دنیا نے وہ کچھ دیکھا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔
کرافٹ نے بولنگ کے لیے دوڑتے ہوئے کریز کے قریب آکر اپنا کندھا امپائر فریڈ گوڈال کی پشت سے ٹکرا دیا۔ گوڈال نے فوراً کلائیو لائیڈ کے پاس جاکر ان سے بات کی لیکن ایسا لگتا تھا کہ لائیڈ پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔
کالن کرافٹ نے بعد میں ایک انٹرویو میں اس بات سے انکار کیا تھا کہ یہ دانستہ حرکت تھی لیکن آج بھی اگر اس ویڈیو کو دیکھیں تو کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ کرافٹ نے یہ غیرارادی طور پر کیا تھا۔
تماشائی اینٹ لگنے سے زخمی
سنہ 1980 میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم پاکستان کے خلاف ملتان کے قاسم باغ سٹیڈیم میں سیریز کا چوتھا اور آخری ٹیسٹ کھیل رہی تھی۔
پاکستان کی اننگز جاری تھی کہ اچانک ایک سٹینڈ میں شور بلند ہوا۔ پتا چلا کہ کسی تماشائی کے سر پر کوئی زوردار چیز آ کر لگی ہے اور وہ خون میں نہا چکا ہے۔
بعد میں معلوم ہوا کہ یہ حرکت کسی تماشائی کی طرف سے نہیں تھی بلکہ ویسٹ انڈین فاسٹ بولر سلویسٹر کلارک نے باؤنڈری لائن پر لگی ہوئی اینٹ اٹھا کر اپنی پشت پر واقع تماشائیوں کے سٹینڈ کی طرف اچھال دی تھی جس سے ایک شخص بری طرح زخمی ہو گیا تھا۔
دراصل سلویسٹر کلارک تماشائیوں کی حرکتوں سے سخت پریشان تھے جو ان پر باؤنڈری پر فیلڈنگ کے دوران مسلسل پھل اور دوسری چیزیں پھینک رہے تھے۔
اس واقعے کی وجہ سے کھیل کچھ دیر رکا رہا تھا اور ویسٹ انڈین بیٹسمین کالی چرن کو تماشائیوں کی طرف جا کر معافی مانگی پڑی تھی۔