صحت

کورونا وائرس: آکسفورڈ ویکسین ٹرائل کے نتائج حوصلہ افزا

Share

آکسفورڈ یونیورسٹی کی طرف سے بنائی گئی کورونا وائرس کی ویکسین کے ابتدائی نتائج آ گئے ہیں اور یہ بظاہر محفوظ ہے اور مدافعت کے نظام کو بیماری کا مقابلہ کرنے کے قابل بنا رہی ہے۔

اس کا تجربہ 1077 افراد پر کیا گیا اور انھیں انجیکشن لگائے گئے تاکہ وہ اپنے جسم میں اینٹی باڈیز اور وائٹ بلڈ سیل بنائیں جو کورونا وائرس کا مقابلہ کر سکیں۔

اس تحقیق کے نتائج نہایت امید افزا ہیں، لیکن ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ یہ اس بیماری سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے کافی ہے اور اس کے لیے بڑے پیمانے پر ٹرائل ضروری ہیں۔

برطانیہ نے پہلے ہی دوائی کی ایک کروڑ خوراکیں آرڈر کر دی ہیں۔

بی بی سی کے صحت کے نامہ نگار جیمز گیلیگھر کا کہنا ہے کہ ان ٹرائلز کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ یہ زیادہ افراد کو محفوظ طریقے سے دی جا سکتی ہے۔

لیکن ہو سکتا ہے کہ ہمیں ‘جیب’ (jab) کی وجہ سے مدافعت کے نظام کا ردِ عمل بھی پتہ چلے کہ آیا اس کی وجہ سے اینٹی باڈیز بنتی ہیں یا یہ مدافعت کے نظام کے دوسرے حصوں کو متحرک کرتا ہے۔

’آج جو ہمیں نہیں پتہ چلے گا وہ یہ ہے کہ کیا یہ ویکسین ‘کام’ کرتی ہے، مطلب یہ کہ کیا اس سے آپ انفیکشن سے بچتے ہیں یا یہ کم از کم علامات کو کم کرتی ہے۔‘

اس کے لیے ٹرائلز میں بہت زیادہ افراد کو شامل کرنے کی ضرورت ہے اور ان ممالک میں بھی جہاں برطانیہ سے کہیں زیادہ کورونا وائرس کے متاثرین موجود ہیں۔

ویکسین کیسے کام کرتی ہے؟

یہ ویکسین ChAdOx1 nCoV-19 کہلاتی ہے جسے اتنی تیزی سے تیار کیا جا رہا ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔

اس ویکسین کو جنیاتی طور پر تبدیل کیے گئے ایسے وائرس سے بنایا جا رہا ہے جو بندروں کو نزلہ زکام میں مبتلا کرتا ہے۔

اس وائرس کو بہت زیادہ تبدیل کیا گیا ہے تا کہ یہ انسانوں کو بیمار نہ کر سکے اور یہ دیکھنے میں کورونا وائرس جیسا ہو جائے۔

سائنسدانوں نے ایسا کرنے کے لیے کورونا وائرس کے جسم میں نوکوں کی طرح نکلے ہوئے پروٹین کی جننیاتی خصوصیات کو اس ویکسین میں منتقل کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ویکسین کورونا وائرس سے ملتی جلتی ہوگی اور انسانوں کا مدافعتی نظام یہ سیکھ لے گا کہ کورونا وائرس پر کیسے حملہ کرنا ہے۔

اینٹی باڈیز اور ٹی سیل کیا ہوتے ہیں؟

کورونا وائرس سے بچاؤ سے متعلق گفتگو میں زیادہ توجہ اینٹی باڈیز پر مرکوز رہی ہے لیکن یہ انسانوں کے مدافعتی نظام کا صرف ایک حصہ ہیں۔

اینٹی باڈیز مدافعتی نظام میں چھوٹے پروٹین ہوتے ہیں جو وائرسوں کی بیرونی سطح پر چپک جاتے ہیں۔ نیوٹرلائزنگ اینٹی باڈیز کورونا وائرس کو ناکارہ بنا سکتی ہیں۔ نیوٹرلائزنگ اینٹی باڈی وہ اینٹی باڈی ہوتی ہے جو کسی بھی پیتھوجن یا نقصان دہ چیز کو بے اثر کر کے خلیوں کو محفوظ رکھتی ہے۔

ٹی سیل ایک قسم کے وائٹ بلڈ سیل ہوتے ہیں، یہ خلیے مدافعی نظام کے اہم سپاہی ہوتے ہیں۔ یہ جسم میں موجود ایسے خلیوں کو ڈھونڈ کر تباہ کر دیتے ہیں جو وائرس سے متاثر ہو چکے ہو تے ہیں۔ تقریباً تمام موثر ویکسینوں کے ذریعے اینٹی باڈیز اور ٹی سیل کا ردعمل شروع ہو جاتا ہے۔

ویکسین دیے جانے کے بعد جسم میں ٹی سیل کی سطح 14 روز میں اپنی انتہا کو پہنچتی ہے جبکہ اینٹی باڈیز کی سطح 28 روز کے بعد اپنی انتہا پر پہنچ جاتی ہے۔ طبی تحقیق کے جریدے لینسٹ میں چھپنے والی اس تازہ تحقیق کو ابھی اتنے دن نہیں ہوئے کہ یہ معلوم ہو سکے کہ ویکسین کے نتیجے میں ٹی سیل اور اینٹی باڈیز کے بننے کا سلسلہ کب تک برقرار رہ سکے گا۔

آکسفرڈ ریسرچ گروپ سے منسلک پروفیسر اینڈریو پولارڈ کا کہنا ہے کہ ‘ہم آج شائع ہونے و الے نتائج سے بہت خوش ہیں کیونکہ ہمیں نیوٹرلائزنگ اینٹی باڈیز اور ٹی سیل دونوں حاصل ہو رہے ہیں۔’

انھوں نے کہا کہ اب اصل سوال یہ ہے کہ یہ ویکسین کتنی موثر اور محفوظ ثابت ہوگی۔ ‘اب ہم انتظار کرنے کے مرحلے میں ہیں۔’

اب تک ہونے والی تحقیق کے مطابق جن لوگوں پر یہ ویکسین استعمال کی گئی ہے ان میں سے 90 فیصد میں ایک خوراک دیئے جانے کے بعد اینٹی باڈیز پیدا ہوئی ہیں۔

پروفیسر پولارڈ نے بی بی سی کو بتایا ‘ہمیں ابھی یہ نہیں معلوم کے ان کی محفوظ سطح کیا ہے لیکن ہم ویکسین کی دوسری خوراک دے کر نتائج کو بڑھا سکتے ہیں۔’