چھاتی کا سرطان: کیا 50 کے بجائے 40 برس کی عمر میں سکریننگ ٹیسٹ زیادہ خواتین کی جانیں بچا سکتا ہے؟
برطانیہ میں ایک تحقیق کے مطابق اگر خواتین میں 50 کے بجائے 40 برس کی عمر سے ہی چھاتی کے سرطان کے ٹیسٹ شروع کر دیے جائیں تو زیادہ جانوں کو بچایا جا سکتا ہے۔
اس تحقیق میں برطانیہ میں ایک لاکھ 60 ہزار خواتین نے شرکت کی اور انھیں 23 سال تک زیرِ نگرانی رکھا گیا۔
محققین کا کہنا ہے کہ سکریننگ کی عمر میں کمی کرنے سے ٹیسٹ کی جانے والی ہر ایک ہزار خواتین میں سے کم از کم ایک کی جان بچائی جا سکتی ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں اضافی ٹیسٹنگ کے لیے درکار مالی وسائل سمیت دیگر عوامل بھی اہم ہیں۔
کینسر ریسرچ برطانیہ کا کہنا ہے ابھی یہ پوری طرح واضح نہیں ہے کہ چھاتی کے سرطان کے لیے کی جانے والی سکریننگ میں عمر کم کرنے سے موجودہ طریقۂ کار کے مقابلے میں کتنا فائدہ ہو گا۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ 50 سے 70 برس کی خواتین کے لیے سرطان کے علاج کی سہولیات کو دوبارہ موثر طریقے سے شروع کرنا اس وقت ترجیح ہونی چاہیے۔ ان سہولیات میں کورونا وائرس کی وباء کے باعث خلل پڑا ہے۔
لاک ڈاؤن کے دوران سرطان کے سکریننگ پروگرامز ویلز، سکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ میں روکے گئے تھے تاہم انگلینڈ میں یہ جاری رہے تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ علاج کی سہولیات بحال ہونے کے بعد مریضوں کی بڑی تعداد ہو گی جنھیں اپنی باری آنے کا انتظار کرنا ہو گا۔
بے جا تشخیص کا خدشہ
برطانیہ میں 50 سے 70 برس کی خواتین کا ہر تین سال میں ایک مرتبہ چھاتی کے سرطان کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔
50 سال سے کم عمر خواتین کو یہ مفت سہولت میسر نہیں ہے کیونکہ عموماً ان میں چھاتی کے سرطان ہونے کی شرح قدرے کم ہوتی ہے اور ان کی چھاتی کا ٹشو سخت تر ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس ٹیسٹ کے نتائج کو معلوم کرنا قدرے مشکل ہوتا ہے۔
اس کی وجہ سے غیر ضروری تشخیص کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے یعنی ابتدائی مرحلے پر خلیوں میں تبدیلی کو بھی سرطان تصور کر کے اس کے علاج کے لیے خواتین کو غیر ضروری طور پر ادویات دینے جیسے مسائل ہو سکتے ہیں۔ خلیوں میں ہر تبدیلی ضروری نہیں کہ سرطان ہو۔
تاہم محققین نے طب سے متعلق جریدے لانسیٹ میں لکھا ہے کہ اگر 40 سال کی عمر سے یہ ٹیسٹنگ شروع کر دی جائے تو ہلاکتوں کی تعداد میں کمی آئے گی۔
40 سے 49 سال کی عمر میں جن 53883 خواتین کے ٹیسٹ کیے گئے ان میں سے 83 ہلاک ہوئیں۔ جبکہ اسی عمر کی جن 106953 خواتین کے ٹیسٹ نہیں کیے گئے ان میں سے 219 ہلاک ہوئیں۔
ہلاکتوں میں کمی کی وجہ پہلے اور دوسرے مرحلے کے سرطان کی جلد تشخیص ہے۔ ایسے سرطان نسبتاً کم عمر خواتین میں زیادہ تیزی سے پھیلتے ہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ 10 سال کے بعد اضافی جانوں کے بچنے کے شواہد کم ہوتے گئے۔ یعنی اگر سکریننگ دس سال پہلے ہو جاتی تو جلد علاج کی وجہ سے زیادہ زندگیاں بچنے کا امکان ہوتا۔
اس تحقیق کے مطابق غلط تشخیص کی شرح 50 برس اور اس سے زیادہ عمر کی خواتین میں بھی اتنی ہی ہے جتنی ان خواتین میں جو 40 کے پیٹے میں ہیں۔
اس تحقیق کے مطابق 40 سے 49 برس کی خواتین میں سے 18 فیصد میں کم از کم ایک مرتبہ نتیجہ غلط طور پر مثبت آیا تھا۔
اس تحقیق کے مرکزی محقق کوئین میری یونیورسٹی آف لندن کے پروفیسر سٹیون ڈفی کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک طویل المدت تحقیق ہے جس سے یہ معلوم ہوا ہے کہ 50 سال سے کم عمر خواتین کو ٹیسٹ کرنے سے جانیں بچتی ہیں۔ اسی لیے ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم سکرینگ کی عمر کم کر دیں۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں مالی وسائل کو بھی زیرِ بحث لایا جانا چاہیے اور زیادہ ٹیسٹنگ کے اثرات پر بھی تحقیق کی ضرورت ہے۔
شدید دباؤ کا شکار
کینسر ریسرچ یوکے کی منیجر برائے اطلاعات صوفیا لویس کا کہنا ہے کہ ادارے کو اس تحقیق کے نتائج پر تحفظات ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بہت سی خواتین میں کینسر کے غلط مثبت نتائج موصول ہوئے ہیں اور کچھ خواتین کو بے جا کینسر شخیص کیا گیا ہے جو کبھی بھی ان کو نقصان پہنچانے کا سبب نہیں ہوتا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اگرچہ ہمارے سکریننگ پروگراموں میں بہتری لانے کی تحقیق اب بھی اہم ہے لیکن سکریننگ پروگرام وبائی مرض کی وجہ سے پہلے ہی بہت زیادہ دباؤ کا شکار ہیں اور فی الحال ہماری ترجیح 50 سے 70 سال کی عمر کی خواتین کے ٹیسٹ کرنے کی سروس کو بحال کرنا ہے۔
تاہم ادارے کا کہنا ہے کہ 50 سے 70 سال کی عمر کے مقابلے میں 40 برس کی چھ گنا زیادہ خواتین کو ایک زندگی بچانے کے لیے سکریننگ کرنے کی ضرورت ہو گی۔
مس لوئس کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی ضروری ہے کہ خواتین، خواہ وہ کتنی ہی عمر کی ہو اگر وہ اپنی چھاتیوں کے بارے میں کوئی غیر معمولی چیز دیکھیں تو انھیں اپنے ڈاکٹر کو بتانا چاہئے۔