سائنس

’ایپل پاکستان میں ہوتا تو مالک اور ان کا خاندان نیب حراست میں ہوتے‘

Share

ٹیکنالوجی کمپنی ایپل وہ پہلی امریکی کمپنی بن گئی ہے جس کی سٹاک مارکیٹ میں مالیت 20 کھرب ڈالر (دو ٹریلین) ہو گئی ہے۔

کمپنی کی جانب سے یہ سنگ میل سنہ 2018 میں دنیا کی پہلی 10 کھرب ڈالر مالیت کی کمپنی بننے کے دو سال بعد عبور کیا گیا ہے۔

گذشتہ صبح ٹریڈنگ کے دوران اس کے شیئر کی قیمت 467 اعشاریہ 77 ڈالر ہوئی جس سے اس کی کل مالیت 20 کھرب ڈالر سے تجاوز کر گئی۔

اس کے علاوہ اب تک جس کمپنی نے 20 کھرب ڈالر کا سنگ میل عبور کیا ہے وہ سعودی عرب کی سرکاری کمپنی سعودی ارامکو ہے جس نے گذشتہ دسمبر میں اپنے شیئر درج کروائے۔

تاہم اس کے بعد سے تیل کی اس بڑی کمپنی کی مالیت 18 کھرب ڈالر تک گر گئی جبکہ رواں برس جولائی کے اواخر سے ایپل اسے پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی سب زیادہ مالیت والی ٹریڈڈ کمپنی بن گئی ہے۔

شیئرز کی فروخت میں اضافہ کا رجحان

اس برس کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث ایپل کو اپنے اکثر سٹورز بند کرنا پڑے تھے جبکہ چین سے روابط کے باعث سیاسی دباؤ کا سامنا بھی رہا تھا تاہم تب بھی آئی فون بنانے والی اس کمپنی کے شیئرز 50 فیصد سے زیادہ بڑھے ہیں۔

اس کے شیئر کی قیمت اس سال مارچ میں کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث پیدا ہونے والے معاشی بحران کے بعد سے دگنی ہو گئی ہے۔

ایسے میں ٹیکنالوجی کمپنیاں لاک ڈاؤنز کے باوجود فائدے میں رہی ہیں اور گذشتہ چند ہفتوں میں امریکہ میں معاشی بحران کے باوجود ان کے سٹاکس میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ایپل نے جولائی کے اواخر میں مثبت سہ ماہی اعداد و شمار پوسٹ کیے جس میں آمدنی کی مد میں 59 اعشاریہ سات ارب ڈالر اور سروسز اور مصنوعات میں دو ہندسوں کی شرح نمو شامل ہے۔

ٹم کک
،تصویر کا کیپشنٹم کک

ایپل کے بعد امریکہ کی دوسری سب سے زیادہ مالیت کی کمپنی ایمیزون ہے جس کی کل مالیت تقریباً 17 کھرب ڈالر ہے۔

پی پی فورسائٹ کے لیے ٹیکنالوجی تجزیہ نگار پاؤلو پیسکاٹور کا کہنا ہے کہ ایپل کے شیئرز کی قیمتوں کا اتنے کم عرصے میں تیزی سے بڑھنا یقیناً ’ایک انتہائی متاثر کن کارنامہ ہے۔

گذشتہ چند ماہ کے دوران صارفین اور گھروں میں موجود افراد کو یہ اندازہ ہوا ہے کہ بہتر معیار کے آلے، کنیکشنز اور سروسز کتنے اہم ہیں اور ایپل کے پاس ایسی ڈیوائسز کا مجموعہ موجود ہے اور سروسز میں بھی بہت کچھ آفر کرنے کو ہے اس لیے ان کے پاس مستقبل میں مزید بہتر کارکردگی دکھانے کے مواقع موجود ہیں‘۔

انھوں نے کہا کہ گیگابٹ کنیکٹویٹی براڈبینڈ کے آنے سے ایپل کے پاس ’لامتناہی امکانات‘ موجود ہوں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اب تمام نظریں فائیو جی آئی فون پر ہیں جس کے باعث صارفین کی جانب سے کی جانے والی ڈیمانڈ میں اضافہ ہو گا‘۔

مائیکروسافٹ اور ایمیزون ایپل کے بعد سب سے زیادہ مالیت کی سٹاک مارکیٹ میں ٹریڈ ہونے والی امریکی کمپنیوں میں سے ہیں۔ دونوں کی مالیت تقریباً 16 کھرب ڈالر ہے۔ ان کے بعد گوگل کی مالک ایلفابیٹ نامی کمپنی ہے جس کی مالیت 10 کھرب ڈالر سے کچھ زیادہ ہے۔

سوشل میڈیا پر ردِعمل

اس حوالے سے سوشل میڈیا پر دلچسپ ردِ عمل سامنے آیا۔ جہاں ایک طرف ٹیکنالوجی سے منسلک کاروباری افراد اور تجزیہ نگاروں نے ایپل کی تعریف کی وہیں کچھ صارفین نے فرمائشیں بھی کیں اور کچھ نے ’ایپل اگر ہمارے ملک میں ہوتا تو‘ کے راگ الاپے۔

ایک صارف نے ایپل کی مالیت کے حوالے سے حیرانی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کے ایپل نے دو برس میں اپنی مالیت 10 کھرب ڈالر کیسے بڑھائی۔ ان کے حیران ہونے کے پیچھے یہ اعدادوشمار بھی ہیں کہ 1976 میں قائم ہونے والی کمپنی کو 10 کھرب ڈالر مالیت کی کمپنی بننے کے لیے 42 برس لگے تھے لیکن 20 کھرب ڈالر کی کمپنی بننے کے لیے صرف دو سال۔

ایک صارف نے لکھا کہ اب جب ایپل کی مالیت 20 کھرب ڈالر سے بڑھ گئی ہے تو اسے سری کو متعدد الارمز سیٹ کرنے کی طاقت دے دینی چاہیے۔

اکثر صارفین نے لکھا کہ یہ سب ایپل نے ایک عالمی وبا کے دوران کیا جو کہ ایک بڑی بات ہے۔ تاہم ایپل کے مالک ٹم کک نے تاحال اس حوالے سے ردِ عمل ظاہر نہیں کیا۔

تاہم یہاں پاکستان مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف کے بیٹے سلیمان شہباز نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ اگر ایپل کمپنی پاکستان میں ہوتی تو یقیناً اس کے مالک ٹم کک، ان کی بیوی اور بچوں کو نیب نے آمدن سے زائد اثاثہ جات کے مقدمے میں ٹھوکر نیاز بیگ میں حراست میں رکھا ہوتا۔

اخبار نیویارک ٹائمز کے رپورٹر جیک نکاس نے اعداد و شمار کے ذریعے ایپل کی مالیت کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ ‘ایپل کی مالیت 20 کھرب ڈالر ہے جبکہ تقریباً 100 ایسی پبلک کمپنیاں جو دنیا بھر میں گاڑیاں بناتی ہیں ان کی کل مالیت 13 کھرب ڈالر ہے۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ اسی طرح 23 مارچ کے بعد سے ایپل نے فی دن چھ اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر مالیت میں اضافہ کیا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں امیرکن ایئرلائنز کی کل مالیت چھ اعشاریہ چھ ارب ڈالر ہے۔

انھوں نے کہا کہ ایسے میں یہ خیال رکھیے کہ ایپل نے اس دوران کچھ نیا نہیں کیا اور کچھ لحاظ سے ایپل کو عالمی وبا سے فائدہ بھی ہوا ہے۔