سی پیک، کشمیر یا لداخ، پاکستانی وزیر خارجہ کے دورہ چین کا ایجنڈا کیا تھا؟
ایک ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستان اور چین کے وزرائے خارجہ ایک دوسرے سے کہنی ملا رہے ہیں۔ عالمی سطح پر بھی رہنما جوتے سے جوتا، بازو سے بازو یا کہنی سے کہنی ملاتے نظر آتے ہیں۔ کورونا وائرس کے بعد مصافحہ کرنے اور گلے ملنے کی سفارتی روایات عارضی طور پر معطل نظر آرہی ہیں۔
لیکن بین الاقوامی تعلقات میں بہتری یا خرابی کی صورتیں اب بھی اپنی جگہ موجود دکھائی دیتی ہیں۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی 20 اگست کو دو روزہ دورے پر چین کے لیے روانہ ہوئے تو ایک بار پھر تمام نظریں اس دورے پر مرکوز ہوتی نظر آئیں۔
یہ دورہ کتنا اہم ہے اور اس کا ایجنڈا کیا تھا اس پر بحث سے پہلے اس دورے کے روح رواں شاہ محمود قریشی کی زبانی جانتے ہیں کہ وہ اس دورے کے بارے میں ذہن میں کیا لے کر گئے تھے۔
یاد رہے کہ شاہ محمود قریشی کچھ عرصہ قبل ایک مقامی نجی ٹیلی ویژن پر سعودی عرب اور او آئی سی سے متعلق اپنے بیان کی وجہ سے بھی غیر معمولی اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔
جبکہ میڈیا اطلاعات کے مطابق دونوں ممالک میں کشیدگی کی خبروں کے بعد پیدا ہونے والی سفارتی صورتحال کے پیش نظر پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے سعودی عرب کا دورہ کیا تاہم فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے اس دورے کا مقصد دوطرفہ پیشہ وارانہ امور پر بات چیت قرار دیا گیا۔
شاہ محمود قریشی کا دورہ چین سے قبل ویڈیو پیغام
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے دورہ چین سے قبل ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ وہ ایک مختصر مگر ’بہت اہم‘ دورے پر چین کے لیے روانہ ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی اس دورے سے متعلق وزیر اعظم عمران خان سے بات ہوئی ہے۔
اس ویڈیو بیان میں وزیر خارجہ نے یہ یقین بھی دلایا کہ ان کا وفد اس دورے کے دوران پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کی سوچ کی عکاسی کرے گا اور انھیں امید ہے کہ ان کی چین کے وزیر خارجہ وانگ یی کے ساتھ ملاقات دونوں ممالک کے لیے مفید ثابت ہو گی۔
اس ویڈیو پیغام میں شاہ محمود قریشی نے اپنے اس دورے کے مقاصد کی تفصیلات تو نہیں بتائیں مگر انھوں نے اس دورے کو ’بہت اہم‘ قرار دیا۔ اب اگر پاکستانی وزیر خاجہ کے بیان کو پاکستانی دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے بیانات کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو صورتحال کچھ واضح ہو جاتی ہے۔
’کشمیر سمیت علاقائی اور بین الاقوامی امور زیر غور‘
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے وفد سمیت چین کے وزیر خاجہ وانگ یی سے مذاکرات کیے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق اس ملاقات میں کورونا وائرس، باہمی تعلقات اور باہمی دلچسپی کے علاقائی اور بین الاقوامی امور زیر بحث آئے۔
دفتر خارجہ کے مطابق یہ دورہ چین اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کے دوسرے مرحلے کے سٹریٹجگ ڈائیلاگ کا حصہ تھا۔
خیال رہے کہ ان مذاکرات کے سلسلے میں پہلا اجلاس مارچ میں منعقد ہوا تھا۔
پاکستانی حکام نے اس دورے سے بہت سی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ دفتر خارجہ کے حکام کے مطابق دونوں ممالک بہت سے امور پر ایک ہی موقف رکھتے ہیں اور اس لحاظ سے دونوں ممالک کا مستقبل بھی ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔
پاک چین مذاکرات: تبت سے لے کر کشمیر تک تمام امور پر اتفاق
پاکستان اور چین کے وزرائے خارجہ کی ملاقات کے بعد جمعے کی شام کو ایک تفصیلی مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ اس پریس ریلیز میں مزید تفصیلات کے ساتھ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے تعاون کا ذکر کیا۔
اس اعلامیے کے مطابق چین کے صوبے ہینان میں ہونے والے ان مذاکرات میں دونوں اطراف نے کورونا وائرس وبا، دو طرفہ تعلقات، باہمی دلچسپی کے معاملات، عالمی اور خطے کے امور پر بحث کی اور اپنے مشترکہ مفادات کے تحفظ کے لیے اقدامات پر اتفاق رائے بھی ہوا۔ ’دونوں ممالک خطے میں امن، خوشحالی اور ترقی کے خواہاں ہیں۔‘
مذاکرات کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں پاکستان اور چین کے درمیان دوستی کو خطے اور عالمی سطح پر امن کی علامت قرار دیا ہے۔
جہاں دونوں ممالک نے اہم امور پر اتفاق رائے کو جلد عملی شکل دینے کا اعادہ کیا وہیں دونوں ممالک کے درمیان رابطوں کو بڑھانے اور راہداری کے منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ پر کام تیز کرنے پر بھی زور دیا۔
پاکستان آخر چین سے کس قسم کی یقین دہانی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا؟
اگر دونوں ممالک کی طرف سے جاری ہونے والے مشترکہ بیان پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ چین نے پاکستان کی علاقائی سالمیت کے تحفظ کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا ہے۔
اس بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو آزادی کے ساتھ اس بات کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہے کہ وہ علاقائی اور عالمی حالات میں اپنا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی ترقی کی منزل پر آگے بڑھ سکتا ہے۔ تاہم یہ بات اہم ہے کہ جاری کردہ اعلامیہ میں کسی اور ملک کا تذکرہ نہیں کیا گیا۔
دونوں ممالک نے علاقائی اور عالمی امور پر مختلف فورمز پر ایک دوسرے کی حمایت پر اطمینان کا اظہار کیا۔ ان فورمز میں اقوام متحدہ، شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) اور آسیان ریجنل فورم (ASEAN) شامل ہیں۔ دونوں ممالک نے اس تعاون کو مزید گہرا کرنے پر بھی اتفاق کیا۔
سی پیک اب نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے
سی پیک سے متعلق اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اب دونوں ممالک اس منصوبے پر ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ جہاں اعلیٰ درجے کی ترقی ممکن بنائی جا سکے گی۔
دونوں ممالک نے سی پیک منصوبوں کی تعیمرات کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا اور کہا ہے کہ زیر تعمیر منصوبوں کی جلد تکمیل کو یقینی بنایا جائے گا۔ ان منصوبوں کا مقصد معاشی اور سماجی ترقی ہو گا۔ ان کے ذریعے نئی ملازمتوں کے مواقع اور عام آدمی کی زندگی میں بہتری لانے کی کوشش کی جائے گی۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ مخصوص اکنامک زونز میں تعاون کو مزید مستحکم کیا جائے گا، جس میں صنعتوں کا قیام، سائنس اور ٹیکنالوجی، میڈیکل، ہیلتھ، ہیومن ریسورسز ٹریننگ، غربت میں کمی اور زراعت کے شعبے شامل ہیں۔
سی پیک کو خطے کی سرگرمیوں کا مرکز بنانے پر اتفاق کیا گیا۔ دونوں ممالک نے حال ہی میں توانائی کے شعبے میں ہونے والے معاہدات پر اطمینان کا اظہار کیا اور سی پیک کی ترویج پر اتفاق کیا۔
اعلامیے کے مطابق سی پیک پر مشاورت کا عمل جاری رکھا جائے گا تاکہ دونوں ممالک اپنے مشترکہ مقاصد حاصل کر سکیں۔ دونوں ممالک نے عالمی برادری کو بھی اس منصوبے کا حصہ بننے کی دعوت دی ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان نے سی پیک منصوبوں کی جلد تکمیل کو یقینی بنانے کے لیے افواج پاکستان کے میڈیا ونگ کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کی سربراہی میں سی پیک اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا ہے اور اس اتھارٹی میں چین کو بھی نمائندگی دی گئی ہے۔
کشمیر پر چین کی پوزیشن کیا ہے؟
اس دورے کے اختتام پر جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ مستحکم، خوشحال اور باہمی تعاون والا جنوبی ایشیا سب فریقین کے مفاد میں ہے۔
اس اعلامیے میں لداخ اور کشمیر کا ذکر کیے بغیر کہا گیا ہے کہ خطے کے تمام فریقین کو باہمی تکریم اور برابری کے اصول پر تمام امور اور تنازعات کا حل مذاکرات کے ذریعے نکالنے کی ضرورت ہے۔
اعلامیے کے مطابق پاکستان نے کشمیر کی موجودہ صورتحال پر چینی حکام کو تفصیلی بریفنگ دی، جس کے جواب میں چین نے اقوام متحدہ کے چارٹر، سلامتی کونسل کی قراردادوں اور دونوں ممالک کے باہمی معاہدات کی روشنی میں درست انداز میں کشمیر کے تنازعے کے پرامن حل پر زور دیا۔
چین کے مطابق کشمیر پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایک تاریخی تنازع ہے اور یہ ایک واضح حقیقت ہے۔ چین نے واضح کیا ہے کہ وہ کسی ایسے یک طرفہ کارروائی کی مخالفت کرتا ہے جس سے معاملہ مزید پیچیدہ ہو جائے۔
خیال رہے کہ انڈیا نے گذشتہ سال پانچ اگست کو اپنے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔ اس سلسلے میں انڈیا نے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کر دیا جس میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تسلیم کیا گیا تھا۔
اعلامیے کے مطابق پاکستان نے چین کے تعاون کا شکریہ ادا کیا اور چین کو اپنی پوری حمایت کا یقین دلایا۔ خاص طور پر پاکستان نے چین کو تائیوان، سنکیانگ، تبت اور ہانگ کانگ پر بھرپور حمایت کا یقین دلایا۔
پاکستان اور چین کے اعلامیے کے مطابق دونوں ممالک نے افغان امن عمل پر بھی تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا ہے اور بین الافغان مذاکرات کو یقینی بنانے کے لیے افغان حکومت اور طالبان کی کوششوں کی تعریف کی۔ چین نے اس سلسلے میں کردار ادا کرنے پر پاکستان کی کوششوں کو بھی سراہا۔
کورونا وائرس: ’وبا پر سیاست نہیں ہونی چائیے‘
چین نے کورونا وائرس کے خلاف بھی پاکستان کی حمایت کا اعادہ کیا۔ دونوں ممالک نے اس وبا سے متعلق درست اور بروقت معلومات کا تبادلہ کیا۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اس وبا کے خلاف عالمی سطح پر تعاون موثر ہتھیار ثابت ہو سکتا ہے۔ دونوں ممالک نے اس وبا کو سیاسی رنگ دینے کی مخالفت کرتے ہوئے عالمی ادارہ صحت کی کوششوں کی تعریف کی ہے۔
خیال رہے کہ امریکہ چین پر یہ الزامات عائد کرتا آیا ہے کہ اس نے اس وائرس سے متعلق بروقت معلومات کا تبادلہ نہیں کیا ہے جس سے یہ مزید پھیلی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی مواقع پر عالمی ادارہ صحت کے کردار پر بھی سوالات اٹھائے اور اس ادارے کی چین کے ساتھ قربت کو وجہ بتا کر اس کے فنڈز روکنے کا بھی اعلان کیا تھا۔
پاکستان اور چین مذاکرات پر ماہرین کیا کہتے ہیں؟
پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے چین کے کشمیر پر موقف کو دو ٹوک اور انتہائی خوش آئند قرار دیا ہے۔
ان کی رائے میں جو موقف چین نے کشمیر پر اختیار کیا ہے اس سے بہتر موقف کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔ ان کے خیال میں اس دورے سے عرب ممالک اور خاص طور پر سعودی عرب کو بھی یہ پیغام گیا ہے کہ وہ یہ سمجھ لے کہ جو ملک کشمیر پر پاکستان کے ساتھ نہیں ہے وہ کبھی پاکستان کا دوست ہو ہی نہیں سکتا۔
ان کے مطابق چین نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے وہ کشمیر پر پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے اور یہ واشگاف انداز میں بتایا ہے کہ کشمیر ایک متنازع معاملہ ہے۔
نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی کے ڈاکٹر خرم اقبال کے مطابق چین کی ریاستی پالیسی ہمیشہ گرمجوشی پر مبنی رہی ہے۔ ان کے مطابق تحریک انصاف کے پہلے ڈیڑھ برس میں اس تعلقات میں کچھ چینلجز بھی سامنے آئے۔ ان کے مطابق عمران خان کی حکومت کے آتے ہی پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بیانیے سے سی پیک غائب ہو گیا تھا۔
ان کے مطابق اس کو دوبارہ بیانیے کا حصہ بنانے کے لیے پاکستان نے چین کے کہنے پر سی پیک اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا۔
ڈاکٹر خرم اقبال کے مطابق چین کو یہ تحفظات تھے کہ عمران خان کی کابینہ میں مغربی مفادات کا تحفظ کرنے والے افراد کی اکثریت ہے جو سی پیک منصوبے کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔
شمشاد احمد خان کے مطابق پاکستان کے وزیر خارجہ کا یہ دورہ اس اعتبار سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اس وقت خطے میں اکھاڑ پچھاڑ ہو رہی ہے۔ ان کے مطابق انڈیا کے ذریعے چین کو قابو کرنے کی کوشش چین نے بھانپ لی اور لداخ میں انڈیا کو سختی سے پیش رفت سے روک دیا۔
شمشاد احمد خان کے مطابق جب وہ سیکریٹری خارجہ تھے تو انڈیا کے ساتھ ایک آٹھ نکاتی کشمیر پر مذاکرات شروع ہوئے۔ ان کے مطابق 9/11 کے بعد عالمی طاقتوں کی توجہ دیگر امور پر چلی گئی اور اس موقع کو انڈیا نے اپنے حق میں استعمال کر کے کشمیر کی جہدوجہد اور تحریک کو دہشتگردی سے جوڑنے کی کوشش کی۔
ان کے مطابق خود انڈیا کا قیام ایک آزادی کی تحریک کے مرہون منت ہے تو پھر کشمیر کی تحریک کو کیسے جھٹلایا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ چین نے یہ واضح پیغام دے دیا ہے کہ اب انڈیا کشمیر کی تاریخی حیثیت کو تسلیم کرے۔