امریکی صدارتی انتخابات: حساس معلومات کے لیک ہونے کے خدشات، امریکی انٹیلیجنس چیف نے بالمشافہ سکیورٹی اجلاس ختم کر دیے
امریکہ کے سب سے بڑے خفیہ ایجنسی کے دفتر کی جانب سے حساس معلومات کے لیک ہونے کے خدشات کے پیش نظر امریکہ کے ارکان اسمبلی کے لیے امریکی انتخابات کے حوالے سے سکیورٹی اور بیرونی مداخلت کے بارے میں ہونے والے اجلاسوں کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اب وہ اس کے برعکس تحریری رپورٹس جاری کریں گے۔
امریکی سیاسی جماعت ڈیموکریٹس نے اس پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ خفیہ ایجنسی کا دفتر کانگرس کو اس متعلق آگاہ رکھنے کی اپنی ذمہ داری سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔
انھوں نے ٹرمپ انتظامیہ پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ روس اور دیگر ممالک کی جانب سے امریکی الیکشن میں مداخلت کے خطرات کو اہمیت نہ دیتے ہوئے کم تر ظاہر کر رہے ہیں۔
ایوانِ سپیکر نینسی پلوسی اور کانگرس کی انٹیلی جنس کمیٹی میں ڈیموکریٹ سربراہ آدم شف کا کہنا تھا کہ عوام کا یہ جاننے کا حق ہے کہ کیسے بیرونی طاقتیں امریکی جمہوریت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
درحقیقت اس اقدام کا مطلب ہے کہ ‘ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلیجنس (او ڈی این آئی) کے دفتر سے اب کانگریس کو کم سوالات اور معلومات جاننے کا موقع ملے گا۔
خفیہ ایجنسی کے سربراہ ‘معلومات کے لیک’ ہونے سے تنگ
او ڈی این آئی نے ایوان اور سینیٹ کی انٹیلیجنس پر قائم کمیٹیوں کو بتایا اب الیکشن پر بالمشافہ سکیورٹی اجلاسوں کو معلومات کے تحریریں شکل میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔
اطلاعات کے مطابق او ڈی این آئی کے حکام کو گذشتہ سکیورٹی بریفنگز میں معلومات کے لیک ہونے پر تحفظات ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رپورٹرز کو بتایا تھا کہ قومی انٹیلیجنس ادارے کے سربراہ جان ریٹکلف معلومات کے لیک ہونے پر ‘تنگ آ چکے ہیں۔’
ان کا کہنا تھا کہ ‘ لہذا وہ اب اس کام کو ایک منفرد انداز سے کرنا چاہتے ہیں کیونکہ کمیٹی میں معلومات لیک کرنے والے افراد موجود ہیں، ظاہر ہے معلومات لیک کرنے والے برے کام کر رہے ہیں، شاید معلومات لیک کرنا قانونی بھی نہیں لیکن ہم اس کو علیحدہ سے دیکھے گے۔’
نینسی پلوسی اور آدم شیف نے ایک جاری کردہ بیان میں قومی انٹیلیجنس کے دفتر پر امریکی انتخابات میں بیرونی مداخلت پر جاننے کے عوام کے حق سے روگردانی کرنے کا الزام لگایا ہے۔
ان کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘انٹیلی جنس دفتر کی جانب سے کانگریس کو باخبر رکھنے کی قانونی ذمہ داری سے روگردانی کرنا اور عوام کو یہ جاننے کے حق سے محروم رکھنا کہ غیر ملکی طاقتیں کس طرح ہماری جمہوریت کو خراب کرنے کی کوشش کر رہی ہیں حیران کن ہے۔’
اپنی ٹویٹ میں مسٹر شف کا کہنا تھا کہ ‘ٹرمپ نہیں چاہتے کہ امریکی عوام یہ جان سکیں کہ کیسے روس ان کی دوبارہ فتح کے لیے کوششیں کر رہا ہے۔’
یاد رہے تین ہفتے قبل ریٹکلف کے دفتر کی جانب سے کہا گیا تھا کہ روس، چین اور ایران نومبر میں ہونے والے امریکی انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔
‘امریکہ میں صدارتی انتخاب کے دوران فوج کا کوئی کردار نہیں ہوگا’
یار رہے کہ اس سے پہلے امریکہ میں ایک اعلیٰ جنرل نے جمعے کو کانگریس کے سامنے پیش ہوکر بتایا کہ ان کے مطابق سال 2020 کے صدارتی انتخاب کے دوران امریکی فوج کوئی کردار ادا نہیں کرے گی اور نہ ہی نومبر کے الیکشن میں پیش آنے والے کسی تنازع کو حل کرنے کی کوشش کرے گی۔
امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارک ملی کا یہ بیان کانگریس کے اجلاس کے سرکاری دستاویزات میں سامنے آیا۔
ان سے انتخاب کے نتائج میں ممکنہ تنازع کے حوالے سے سوالات کیے گئے جس کے ردعمل میں انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ صدارتی انتخاب کے دوران امریکی فوج اپنی غیر سیاسی پوزیشن پر قائم رہے گی۔
صدراتی انتخابات کے دونوں امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن دونوں ہی انتخابات میں ممکنہ بے ضابطگیوں کا ذکر کر چکے ہیں۔
لیکن مائیک ملی کا کہنا تھا کہ ’انتخاب سے متعلق کسی تنازع کی صورت میں قانون کے مطابق امریکی عدالتوں اور امریکی کانگریس کو حل تلاش کرنا ہوتا ہے، نہ کہ امریکی فوج کو۔‘
’میں اس مرحلے کے دوران امریکی فوج کا کوئی کردار نہیں دیکھ رہا۔۔۔ ہم امریکہ کے آئین سے روگردانی نہیں کریں گے۔‘
رواں ماہ کے اوائل میں پینٹاگون نے کہا تھا کہ امریکی آئین کے مطابق کسی سیاسی یا انتخابی تنازع کی صورت میں فوج کی ثالثی کا بھی کوئی کردار نہیں ہے۔