چینی صدر کا دورہ پاکستان ملتوی: سی پیک کو کن خطرات کا سامنا ہے؟
چین کے سفیر یاؤ جنگ کا کہنا ہے کہ چین کے صدر شی جن پنگ کا دورہ پاکستان ابھی ملتوی کر دیا گیا ہے۔
ریڈیو پاکستان کے مطابق راولپنڈی میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے چینی سفیر نے کہا ہے کہ دونوں ممالک اس دورے کی نئی تاریخ طے کرنے پر کام کر رہے ہیں، جس کا اعلان جلد کر دیا جائے گا۔
سفیر کے مطابق چین کے صدر وزیر اعظم عمران خان کی دعوت پر پاکستان کا دورہ کر رہے تھے جو انھوں اپنے چین کی دورے کے دوران انھیں دی تھی۔
اس دورے کا مقصد کیا تھا؟
اگرچہ پاکستان یا چین نے اس حوالے سے کوئی اعلامیہ تو جاری نہیں کیا مگر چینی سفیر نے اپنی گفتگو میں سی پیک کو درپیش چیلنجز کا ذکر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک پاک چین راہداری کے منصوبے سی پیک کو درپیش چیلنجز سے بخوبی آگاہ ہیں اور دونوں مل کر ہی ان کا مقابلہ کریں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم دشمن کو اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور سی پیک کے تحت تمام منصوبوں پر کورونا وائرس کے چیلنج کے باوجود کام جاری رہے گا۔
آخر سی پیک کو کس قسم کے چیلنجز درپیش ہیں؟
چینی امور کے ماہر ڈاکٹر فضل الرحمان نے بی بی سی اردو کے اعظم خان کو بتایا کہ سی پیک ایک طویل المدتی منصوبہ ہے، جس میں تکنیکی بنیادوں پر اتار چڑھاؤ تو ضرور رہے گا مگر سٹریٹجک پہلو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ نے جمعرات کو معاون خصوصی برائے اطلاعات کے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ وہ سی پیک پر پورا فوکس رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ وزیر اعظم عمران خان کا بھی کہنا ہے کہ ہمارا مستقبل سی پیک پر ہے۔ انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے اجازت دی تو میں سارا زور سی پیک پر لگاؤں گا۔
جمعے کو جب انھوں نے وزیر اعظم کو وزارت اطلاعات سے استعفی پیش کیا تو انھوں نے یہ استعفی قبول نہیں کیا۔
ڈاکٹر فضل الرحمان کا کہنا ہے ففتھ جنریشن اور ہائبرڈ وار فیئر کے تصورات میں اب منفی پروپیگنڈہ کا مقابلہ کرنا بھی بڑا چیلنج بن چکا ہے۔
چین کے صدر کا دورہ ابھی ملتوی ہوا؟
ڈاکٹر فضل کے مطابق چین کے صدر شی جن پنگ کے اس دورے سے متعلق اپریل سے تیاریاں ہو رہی ہیں مگر یہ دورہ ابھی تک ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ ’بظاہر یہ دورہ ملتوی ہوا ہے، منسوخی کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا ہے۔‘
ڈاکٹر فضل کے مطابق سی پیک کے حوالے سے سب سے بڑا چیلنج تو یہی ہے کہ ایک طرف پاکستان نے امریکہ کے ساتھ بھی اچھے تعلقات استوار رکھنے ہیں اور ساتھ چین کے ساتھ مل کر ان منصوبوں پر بھی کام جاری رکھنا ہے۔ ان کے مطابق چین اور امریکہ کے تعلقات میں جو سردمہری آئی ہے اس میں امریکی انتخابات سے کچھ عرصے قبل مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
ان کے خیال میں ایک طرف انڈیا بھی چین اور پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ ان کے مطابق کشمیر سمیت چین ہر مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑا نظر آیا ہے۔
ڈاکٹر فضل کے مطابق ایک طرف بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے تو دوسری طرف افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان دیگر گروپوں کے ساتھ مل کر اس منصوبے کو نشانہ بنانے کے منصوبے بنا رہی ہے۔
ڈاکٹر فضل کے خیال میں عرب ممالک کو سی پیک سے فائدہ ہے اور وہ انھوں نے ان منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے سے متعلق اپنی دلچسپی بھی ظاہر کی تھی۔
ان کے مطابق بدلتے حالات میں سعودی عرب اور متحدہ عرب نے ابھی تک سرمایہ کاری شروع نہیں کی ہے۔
چین کے صدر کا دورہ پاکستان کے لیے کتنا اہم؟
ڈاکٹر فضل کے مطابق چین کے صدر ایک بار پہلے بھی پاکستان کا دورہ کر کے جا چکے ہیں اور ان کو فوری طور پر اس کی ضرورت محسوس نہیں ہو رہی ہو گی جس کی وجہ سے اس دورے کی حتمی تاریخ بھی طے نہیں ہو پا رہی ہے۔
ان کے مطابق پاکستان کے لیے اس دورے کی زیادہ اہمیت اس وجہ سے بھی ہے کہ اب وہ یہ دکھانا چاہتا ہے کہ چین اب بھی اسلام آباد کے ساتھ کھڑا ہے۔ ڈاکٹر فضل الرحمان کے مطابق اس وقت پاکستان کا مشرق وسطیٰ میں روایتی کردار بھی محدود ہوتا جا رہا ہے تو ایسے میں پاکستان کی بھرپور کوشش ہو گی کہ وہ چینی صدر کو پاکستان میں کھڑا دکھا سکیں۔
انڈیا پاکستان کا کشمیر پر مقدمہ کمزور کرنے کے لیے اقوام متحدہ میں سرگرم ہے جبکہ دوسری طرف چین اور انڈیا کے تعلقات بھی مزید خراب ہو رہے ہیں۔
جمعے کو انڈین اخبارات میں اس بات پر جشن منایا جا رہا ہے کہ تائیوان نے چین کا ایس یو 35 مار گرایا ہے۔ ڈاکٹر فضل کے مطابق ابھی تک اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے کہ یہ طیارہ فنی خرابی کی وجہ سے گرا یا کسی اور وجہ سے مگر انڈیا اس بات پر ہی خوش ہے کہ کم از کم جہاز گرا تو ہے۔
ڈاکٹر فضل الرحمان اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب چین اور انڈیا کی دشمنی عوام تک بھی منتقل ہو چکی ہے۔