کالم

معاشرتی اقدار

Share

میں نے اپنی زندگی کے ابتدائی سال راولپنڈی کی مشہور سڑک گورڈن کالج روڈ پر ایک بند گلی میں گزارے۔ والد صبح سڑک پار کر کے سکول چھوڑنے جاتے اور واپسی پر ہم تینوں بہن بھائی کبھی امی کے ساتھ اور کبھی خود بھی واپس آجاتے۔ سالہہسال سے وہیں مقیم تھے سو دوکاندار اور محلہ کے تمام لوگ ہمیں جانتے تھے۔ گلی کے کونے پر پروفیسر زیدی کا گھر تھا۔ سر شام ان کے ہاں تین چار پروفیسر صاحبان کی نشست ہوتی تھی۔ ان کے گھر کا برآمدہ سڑک کی جانب تھا۔ پروفیسر صاحب کو سب بچوں کے نام جانے کیسے آتے تھے۔ گلی میں کھیلتے ہوئے بچے اگر سڑک کی جانب جاتے تو وہ آواز لگا دیتے اوربچے واپس گلی میں چلے جاتے۔ سب گھرانوں کو علم تھا کہ ان کے بچے گلی میں کھیلتے ہوئے بھی محفوظ ہیں۔ گلی کی صفائی سب کی زمہ داری تھی۔ صفائی کے لیے آنے والے خاکروب کا نام پیارا تھا، جس دن وہ نہ آتا تو ابو یا کوئی اور گلی کی صفائی خود کر ڈالتے۔ تمام گھرانوں کی خواتین نہ صرف ایک دوسرے کے ہاں آتی جاتی بلکہ اکثر شام میں اپنے اپنے گھروں کی چھتوں سے ہی ایک دوجے کا حال احوال بھی پوچھ لیتی تھیں۔گلی کے صرف دو گھروں میں فون تھا اور وہ بخوشی سب کو کہتے کہ ان کا نمبر دے دیں تا کہ دور دراز سے رشتہ دار فون کرسکیں اور رابطہ میں رہیں۔ ہم جس گھر میں رہتے تھے وہ کسی ہندہ خاندان کا رہا ہو گا۔ بیٹھک میں موجود ایک کرنس پر مورتیاں بنی تھی۔ لوگوں کے کہنے کے باوجود والدہ نے انہیں کبھی ہٹوانے نہ دیا۔
ہم ہفتہ میں ایک بار پیدل یا ٹانگہ پر دادی جان کے ہاں ضرور جاتے۔ ہمیں کبھی بھی یہ ڈر نہیں لگا کہ والدہ ہمیں لے جارہی ہیں تو راستے میں کوئی بد تمیزی کرے گا۔ کچھ یاد پڑتا ہے کہ ایک بار سڑک پر کسی شخص نے آواز لگائی اور کچھ دور پیچھے آیا۔ والدہ نے سر شام ابو کو بتایا۔ سڑک پر کھلنے والی گلیوں میں بات پہنچی اگلی صبح بندہ ڈھونڈ لیا گیا اور بقل والد مرحوم کے اسے سبق دے دیا گیا تھا کہ دوبارہ کبھی نہ تو کسی کا پیچھا کرے گا نہ آواز لگائے گا۔ ہم نے سکول کا زمانہ ایسے گزارا کہ بھائی بہن ایک ہی سکول میں تھے اور ایک دوسرے کے دوستوں کے بہن بھائی ہمارے دوست تھے۔ کبھی ذہنوں میں یہ خیال تک نہ آیا کہ دوست کا بھائی میرا بھائی نہیں۔ ہم ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھتے تھے، یہ ایک اوسط درجہ کا سکول تھا لیکن ویاں انتہائی غریب گھرانوں کے بچے بھی تھے۔ سکول میں اساتذہ نے کبھی نہ تو کسی کے مذہب کو نشانہ بنایا نہ کسی کے گھرانے ہا خاندان کا۔سکول کے سامنے گلی کے کونے پر پروفیسر صاھب کے بیٹے نےمیوزک اور وڈیوسینٹرکھول لیا۔۔۔ سارا محلہ ایسے پریشان تھا کہ نہ پوچھیں، اور میں نے والدہ کو کہتے سنا، پروفیسر صاحب کتنے پریشان ہوں گے۔۔۔ پھر ہوا یوں کہ سڑک پر موجود پروفیسر صاحبان کی کوٹھیاں بکتی گئی اور وہاں پلازے بنتے گئے۔ آج وہ سڑک کالج روڈ نہیں چائنہ مارکیٹ کہلاتی ہے۔۔۔
اسی سڑک پر آئے دن جھگڑے بھی ہونے لگے اور پولیس کے پھیرے بھی لگنے لگے۔ لڑکوں نے گلی کی نکڑ پر کرسیاں ڈال کر بیٹھنا بھی شروع کر دیا اور بلا جھجک سگریٹ کے کش بھی لگاتے، آوازیں بھی کستے۔ ہمارے بھائی صاحبان نے بھی ہمیں خبردار کر دیا کہ اکیلے باہر مت نکلا کرو۔ والد کیونکہ بہت مدت سے اسی سڑک پر اپنا دوا خانہ چلا رہے تھے تو ہمارے گھرانے کو قدرے ٰعزت دی جاتی تھی۔ اس لیے ہمارے لیے ذیادہ مشکلات نہ تھی۔ پھر خبر آئی اسی سڑک کی ایک عمارت میں ایک عورت نے خود کشی کی اور ایک گلی میں بہنوئی نے اپنی سالی مار ڈالی۔ جس سڑک پر خواتین سر شام اپنے بچوں کو لیے چہل قدمی کرتی تھی اب ٹیکسی کا انتظار کرنے کے لیے بھی کھڑے ہونے میں دشواری کا سامنا کرتی تھی۔ وہ پرانے وضع دار لوگ بھی سڑک چھوڑ کر چلے گئے جن کے دم سے اس علاقے کا نام جانا مانا جاتا تھا۔ تعلیم تو عام ہوئی مگر اخلاق گرتا چلا گیا۔ معاشرتی اقدار کو ہم نے اپنے سامنے ختم ہوتے دیکھا۔ اب اس سڑک پر وہ خواتین آتی ہیں جن کی بڑی بڑی گاڑیوں میں سے ڈرائیور اور گارڈ پہلے اترتے اور خواتین بعد میں۔ عام خواتین اور ان گارڈز سے بھی ڈر کر سڑک پار کر جاتی ہیں۔ ٹھنڈی سڑک اب بازار بن گیا ہے اوراب خواتین کا مردوں کے ساتھ بازار میں آنا روایت بن گیا ہے۔ اکیلی عورت کے اس سڑک پر موجود ہونے کے معنی ہی بدل گئے۔ “کوئی شریف عورت اکیلی بازار نہیں جاتی۔۔۔”یہ اسی سڑک اور انہی گھرانوں میں ایک نیا بیانیہ تھا جن کی خواتین اکیلے سبزی اور سودا لینے روزانہ جایا کرتی تھی۔ اور یہی بیانیہ میرے گھر تک بھی آن پہنچا۔
میں نے اپنی زندگی کے پہلے ۱۵ سال میں حاصل ہونے والی تربیت اور تہزیب کو ہاتھ سے نہ جانے دینے کی جیسے قسم کھا لی تھی۔ گھر ہو یا باہر مجھے اپنا مکمل حق چاہئے تھا۔ مجھے سڑک اور بازار میں بھی مکمل تحفظ کا احساس چاہئے تھا۔ لیکن یہ حق مجھ اکیلی کو نہیں میرے ارد گرد کی تمام خواتین کو ہاتھ سے جاتا دکھائی دے رہا تھا۔ ۱۹۹۰ سے ۲۰۰۰ تک سب کچھ بدل سا گیا۔ ایک طرف تو شہر میں بڑے بڑےپلازے بن گئے، درخت کٹ گئے، فضا آلودہ ہو گئی اور لوگوں کی سوچ بھی۔ میری سانس گھٹنے لگی تھی اور میری والدہ اسی کوشش میں لگی رہتی تھی کہ مجھے کم سے کم گھٹن محسوس ہو۔ ۲۰۰۰ سے ۲۰۲۰ کے درمیان میں نے مختلف ممالک کے سفر کیے اور وہاں رہی بھی۔ ایک بات جس کا شدت سے احساس رہا وہ یہ تھا کہ وہ تحفظ جو مجھے اپنے وطن کی سڑکوں پر محسوس ہونا چاہئے وہ ۱۳ ممالک میں ملا لیکن یہاں کیوں نہیں۔ میرے ناقص علم اور تجربہ میں، بہت سے اور مسائل کی طرح یہاں بھی انفرادی سطح پر اپنے اپنے مسائل کے حل ڈھونڈ لینے کی بجائے بہتر ہوتا کہ ہم شہریت، معاشرت اور اس میں ریاست کے کردار کو سمجھتے۔ ان اداروں کو اپنے فرض کا احساس دلاتے جن کے سربراہ بھی فرماتے ہیں ۔۔۔عورت اکیلی گھر سے نکلی ہی کیوں تھی؟