بینکوں کی جانب سے نجی شعبے کو دیے جانے والے قرض میں 16 گنا کمی
بینکوں کی جانب سے نجی شعبے کو دیے جانے والے قرضے میں نمایاں کمی آئی ہے اور رواں مالی سال کے ابتدائی 5 ماہ کے دوران گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں اس میں 16 گنا کمی ریکارڈ کی گئی۔
رپورٹ کے مطابق موجودہ سیاسی عدم استحکام، بڑھتی مہنگائی اور ریکارڈ بلند شرح سود نے نجی شعبے کی طرف لیکویڈیٹی بہاؤ کو متاثر کیا ہے۔
نجی شعبے کو قرض دینا جسے دنیا کی زیادہ تر معیشتوں میں معاشی سرگرمیوں کے پیچھے ایک اہم محرک سمجھا جاتا ہے، یہ رواں سال جولائی سے نومبر کے عرصے کے دوران گزشتہ مالی سال کے پہلے 5 ماہ کے 470 ارب روپے کے مقابلے میں صرف 27 ارب 50 کروڑ روپے رہا۔
بینکرز سمجھتے ہیں کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے وقت اور اتنی بلند شرح سود کے دوران قرض دینا ان کے اداروں کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے، جب کہ دیوالیہ ہونے کے خطرات میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے اور مالیاتی شعبے کو مشکل صورتحال میں ڈال سکتا ہے۔
انہیں خدشہ ہے کہ پالیسی ساز شرح سود میں مزید اضافہ کر سکتے ہیں جب کہ وہ سمجھتے ہیں کہ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے ان کے پاس یہ واحد دستیاب طریقہ ہے، تاہم پالیسی ساز اس حقیقت سے غافل نظر آتے ہیں کہ نجی شعبے کو انتہائی کم قرضے دینے کے باوجود ایسی پالیسی پاکستان میں موثر ثابت نہیں ہوسکی۔
اسٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ میں 100 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کر کے 16 فیصد کر دیا تھا جس سے نجی شعبے کی قرض لینے کی رفتار کم ہوئی اور نتیجتاً شرح نمو مزید کم ہوگئی۔
جے پی مورگن نے 2 روز قبل کیے گئے تجزیے میں کہا کہ پاکستان کو مہنگائی کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے مالی سال 2023 کے آخر تک شرح سود میں 400 بیسس پوائنٹس تک اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔
مالیاتی منڈیوں کی قیمتوں کو براہ راست ٹریک کرنے والی کمپنی ٹریس مارک کے سی ای او فیصل مامسا نے کہا کہ بہت سےکاروباری ادارے جے پی مورگن کی رپورٹ پر تشویش کا شکار ہیں کہ ملکی شرح سود جو اس وقت 16 فیصد ہے وہ بڑھ کر 20 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں حالیہ اضافہ قرض دہندگان کے کہنے پر کیا گیا اور یہ رجحان میں تبدیل نہیں ہوا، انہوں نے یہ بھی کہا کہ شرح سود میں کوئی بھی اضافہ امریکا کے فیڈ ریزرو کی جانب سے کیے گئے اقدامات کے رد عمل میں ہوگا۔
فیصل مامسا نے کہا کہ فیڈکی جانب سے شرح سود میں اضافے میں متوقع سست رفتاری ہمارے ریگولیٹرز کو بھی اس جانب مائل کرے گی، خاص طور پر اس صورت میں کہ اگر وہ بیرونی خسارے اور مہنگائی کے مسئلے کو کنٹرول کرنے کے قابل ہوجائیں۔
ٹریس مارک کا تخمینہ ہے کہ آئندہ ہفتے ملک کے ذخائر 6 ارب ڈالر سے نیچے گر جائیں گے۔
ایک مثبت پہلو کی نشاندہی کرتے ہوئے ٹریس مارک نے اندازہ لگایا کہ حکومت کی جانب سے حالات کو بہتر بنانے کے لیے کیے گئے اقدامات کے اثرات آئندہ دنوں میں نظر آئیں گے۔
فیصل مامسا نے کہا کہ حکومت کو چینی کمرشل بینکوں سے ایک ارب 20 کروڑ ڈالر، سعودی عرب سے 3 ارب ڈالر، چین سے تقریباً 2 ارب 50 کروڑ ڈالر، متحدہ عرب امارات سے ایک ارب ڈالر اور ورلڈ بینک سمیت ترقیاتی قرض دہندگان سے تقریباً ایک ارب 50 کروڑ الر ملنے کی امید ہے جب کہ اس میں آئی ایم ایف کی کوئی قسط یا مؤخر ادائیگیوں پر تیل کی فراہمی کی سہولت شامل نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان رقوم کے آنے سے آئندہ ماہ تک اسٹیٹ بینک کے ذخائر تقریباً 12 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے۔
اسٹیٹ بینک کے گورنر جمیل احمد نے حال ہی میں کہا تھا کہ ملک کو زیادہ تر رقوم رواں مالی سال کی دوسری ششماہی میں موصول ہوں گی، واضح رہے کہ رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں اب تک صرف 4 ارب ڈالر کے انفلوز موصول ہوئے ہیں۔
سرمایہ کاروں میں بےچینی
بینکرز کا کہنا ہے کہ متعدد مقامی سرمایہ کار اور تاجر اپنے اثاثے فروخت کرنے کے بعد ملک سے باہر جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سینئر بینکر نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے ممکنہ انفلوز کے اعداد و شمار اور ممکنہ رول اوور کی توقعات سے متعلق بیان جاری کرنے کا مقصد ڈیفالٹ کے خدشات کو کم کرنا ہے، لیکن مسلسل سیاسی غیر یقینی کی صورتحال بہت سے سرمایہ کاروں اور تاجروں کے لیے اعصاب شکن ثابت ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہنڈی اور حوالہ مارکیٹ میں امریکی ڈالر 255 روپے تک پہنچ گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی کرنسی کی طلب بہت زیادہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک حکومت طویل مدتی پروگرام مرتب نہیں کرتی جس میں ملکی شرح نمو کے لیے مضبوط عزم ظاہر کیا گیا ہو اور جس کی بنیاد کسی بیرونی ڈیفالٹ کی یقین دہانی پر نہ ہو، تب تک بہت سے مقامی کاروبار بند ہو جائیں گے اور وہ ملک چھوڑ دیں گے۔