سائنس

گوگل کا ’چیٹ جی پی ٹی‘ کے مقابلے میں بارڈ کے نام سے چیٹ بوٹ متعارف کروانے کا اعلان

Share

گوگل نے مائیکرو سافٹ کی عالمی شہرت یافتہ چیٹ بوٹ ’چیٹ جی پی ٹی‘ سے مقابلے کے لیے ’بارڈ‘ کے نام سے اپنی جدید چیٹ بوٹ متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے۔

خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق چیٹ جی پی ٹی کو سان فرانسسکو کی کمپنی ’اوپن اے آئی‘ نے تیار کیا ہے جہاں مائیکرو سافٹ کے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے تیار کردہ یہ مقبول ایپلی کیشن انسانوں کی طرح بات کرتے ہوئے کئی زبانوں میں گفتگو میں مہارت رکھتی ہے۔

اس ایپلی کیشن نے مضامین لکھنے، نظموں اور پروگرامنگ کے کوڈز محض چند سیکنڈز میں لکھ کر آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے اور اس کے ساتھ ہی دھوکا دہی اور کئی پیشوں کے مکمل طور پر خاتمے کے ساتھ ساتھ مشین کے انسانی صلاحیت اور قابلیت پر غلبہ پانے کے خدشات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

مائیکرو سافٹ نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ وہ اوپن اے آئی کی معاونت کر رہے ہیں اور چیٹ جی پی ٹی کے فیچرز کو اپنی ٹیموں کے پلیٹ فارم سے مربوط کرنے کا آغاز کردیا ہے تاکہ وہ ان کی اپیلی کیشن کے ساتھ ساتھ سرچ انجن ’بنگ‘ کے ساتھ مطابقت حاصل کر سکے۔

اس ایپلی کیشن کی بنگ میں شمولیت کے ساتھ ہی توجہ عالمی شہرت یافتہ ایپلی کیشن بنگ پر مرکوز ہو گئی تھی اور یہ قیاس آرائیاں بھی شروع ہو گئی تھیں کہ اب گوگل کو تاریخ میں پہلی مرتبہ ’بنگ‘ کی شکل میں غیرمعمولی مسابقت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق چیٹ جی پی ٹی کی راتوں رات مقبولیت کے بعد گوگل میں خطرے میں گھنٹی بج گئی تھی اور اسے ’کوڈ ریڈ‘ خطرہ قرار دیا گیا، گوگل کی تشویش کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے کئی سال قبل کمپنی چھوڑ کر جانے والے اپنے بانیان سرجی برین اور لیری پیج کو واپس طلب کر لیا تاکہ ان کی مہارت سے استفادہ کرتے ہوئے اس طوفان کا مقابلہ کرنے کے لیے حکمت عملی وضع کی جا سکے۔

ہر گزرتے دن کے ساتھ گوگل پر دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے اور ان کی آمدن میں مستقل کمی کے سبب سرمایہ کار بھی ناخوش ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کمپنی نے گزشتہ ماہ 12ہزار ملازمین کو نکالنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اب آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے منصوبوں پر زیادہ توجہ مرکوز رکھنا چاہتے ہیں۔

گوگل کی جانب سے نئی ایپلی کیشن کے اجرا کا اعلان ایک ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب مائیکرو سافٹ ایک آرٹیفیشل انٹیلی جنس پر مبنی ایونٹ کا انعقاد کرنے جا رہا ہے جس سے یہ بات مزید واضح ہو گئی ہے کہ دونوں بڑی کمپنیاں اب ٹیکنالوجی پر ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوں گی جسے ’جنریٹو آرٹیفیشل انٹیلی جنس‘ کا نام دیا گیا ہے۔

ٹیکنالوجی کی دنیا کے معروف تجزیہ کار روب اینڈرل نے کہا کہ ’جنریٹو آرٹیفیشل انٹیلی جنس‘ ایک گیم چینجر ہے اور جیسے انٹرنیٹ کے عروج نے نیٹ ورکنگ کی دنیا کی کئی بڑی کمپنیوں کا صفایا کردیا تھا، بالکل اسی طرح یہ دونوں بڑی کمپنیاں بھی سرچ اور انفارمیشن کی دنیا کو بدل کر رکھ دیں گی۔

انہوں نے کہا کہ گوگل آج بھی اس حقیقت کے ساتھ بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے کہ وہ دنیا میں سب سے زیادہ استعمال کیا جانے والا سرچ انجن ہے لیکن اس نئی ٹیکنالوجی کے بعد یہ سب بدل سکتا ہے اور گوگل کو ماضی کا قصہ بنا سکتا ہے۔

گوگل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سندر پیچائی نے پیر کو اپنے بلاگ میں لکھا کہ گوگل بارڈ کی بات چیت کی آرٹیفیشل انٹیلی جنس کو جلد ٹیسٹنگ کے بعد آنے والے ہفتوں میں سب کے استعمال کے لیے پیش کردیا جائے گا۔

واضح رہے کہ چیٹ جی پی ٹی اپنی تمام تر صلاحیت اور بہترین آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے باوجود صارفین کو تازہ ترین معلومات کی فراہمی میں ناکام ہے جو اس کی واحد اور سب سے بڑی خامی ہے اور سندر پیچائی نے اپنی چیٹ بوٹ کے اس خامی سے مبرا ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔

انہوں نے کئی برسوں سے تیاری کے مراحل سے گزرنے والے اپنے لینگویج سافٹ ویئر کی کامیابی کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ گوگل کی چیٹ بوٹ ویب سے معلومات لے کر تازہ اور بہترین معیاری جوابات دے گی۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ نومبر میں چیٹ جی پی ٹی کے لانچ ہونے کے بعد فیس بُک کی کمپنی میٹا نے بھی نومبر میں ہی اپنی لینگویج کی آرٹیفیشل ایپلی کیشن ’گلیکٹیکا‘ کو ریلیز کرنے کا فیصلہ مؤخر کردیا تھا کیونکہ تین دن کے استعمال کے بعد صارفین نے اس کو جانب دار اور غلط معلومات کا حامل قرار دیا تھا۔