’اگر صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل آئین کے مطابق نہیں ہوئی تو انھیں بحال بھی کیا جا سکتا ہے‘
پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل اور ان صوبوں میں ممکنہ طور پر مقررہ وقت پر انتخابات کے انعقاد میں تاخیر سے متعلق عدالت عظمی کی طرف سے لیے گئے از خود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 9 رکنی بینچ نے شروع کی تو سماعت کے آغاز کے کچھ دیر کے بعد اس 9 رکنی بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنا نوٹ پڑھنا شروع کیا۔
انھوں نے چیف جسٹس کی طرف سے یہ از خود نوٹس لینے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس نے اس بینچ کی طرف سے لکھے گئے نوٹ پر یہ از خود نوٹس لیا ہے جو سروس سے متعلق ایک مقدمے کی سماعت کر رہا تھا اور یہ معاملہ سی سی پی او لاہور کے ٹرانسفر سے متعلق تھا۔
انھوں نے کہا کہ اس معاملے میں چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو بھی طلب کیا گیا جبکہ وہ اس مقدمے میں فریق ہی نہیں تھے۔
اس از خود نوٹس کی سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں یہ چہ مگوئیاں کی جا رہی تھیں کہ وکلا کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل جسٹس مظاہر اکبر نقوی اور جسٹس اعجاز الااحسن کی اس کی بینچ میں شمولیت پر اعتراض اٹھائے گی۔ کیونکہ اس بارے میں پاکستان بار کونسل کے نمائندے میڈیا پر آ کر اپنے تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور اس نو رکنی بینچ میں شامل ایک جج کی طرف سے اس دو رکنی بینچ کی طرف سے دی گئی رائے پر اعتراض اٹھایا گیا۔
جسٹس جمال مندوخیل از خود نوٹس سے متعلق جب اپنا نوٹ پڑھ رہے تھے تو انھوں نے ایک آڈیو کا ذکر کرتے ہوئے کسی جج کا نام نہیں لیا اور صرف اتنا کہا کہ سپریم کورٹ بار کے صدر کسی معزز جج کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ یہ بات سننے کے بعد بینچ میں شامل جسٹس منیب اختر اپنی دائیں جانب بیٹھے جسٹس مظاہر اکبر نقوی کے کان میں کچھ سرگوشی کرنے لگے جس کو سننے کے بعد جسٹس مظاہر اکبر نقوی کرسی پرکبھی ایک جانب ہو جاتے اور کبھی دوسری جانب جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن بڑی خاموشی سے یہ نوٹ سنتے رہے۔
اپنے نوٹ میں جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس دو رکنی بینچ کی رائے پر حتمی رائے قائم کرتے اور از خود نوٹس لیتے ہوئے آئین کے آرٹیکل10 اے کو نظر انداز کیا گیا جو کہ فری اینڈ فیئر ٹرائل سے متعلق ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے جب اپنا نوٹ ختم کیا تو بینچ کے سربراہ نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کا یہ نوٹ ’نوٹ‘ کر لیا گیا ہے۔
عمومی طور پر جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر اکبر نقوی جب کسی بھی بینچ میں ہوتے ہیں تو وہ وکیل یا اٹارنی جنرل سے مختلف آئینی معاملات کو سمجھنے کے لیے ان سے سوالات کرتے رہتے ہیں لیکن جمعرات کو ہونے والی کارروائی اس حوالے سے بالکل مختلف تھی اور دونوں جج مکمل طور خاموش تھے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پاکستان کے آئین میں درج ہے کہ اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز کے اندر انتخابات کروانے ضروری ہیں اور عدالت کسی طور پر بھی آئین شکنی کو برداشت نہیں کرے گی۔
بینچ میں موجود جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت کے سامنے اگرچہ تین سوال ہیں جس میں ایک یہ بھی ہے کہ آیا صدر مملکت کے پاس انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کی نظر میں عدالت کو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ آیا ان صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل آئین کے مطابق کی گئی ہے یا کسی سیاسی لیڈر کے کہنے پر توڑی گئی ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے بھی اسی قسم کی ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر سماعت کے دوران عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل آئین کے مطابق نہیں ہوئی تو ان دونوں صوبائی اسمبلیوں کو بحال بھی کیا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے جب اس معاملے میں معاونت کے لیے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کیے اور نئے اٹارنی جنرل شہزاد الہی نے عدالت سے استدعا کی کہ باقی دونوں صوبوں، جن میں بلوچستان اور سندھ شامل ہیں، کے علاوہ اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرل کو بھی نوٹس جاری کیا جانا چاہیے تا کہ ان کا موقف بھی سامنے آ سکے۔
بینچ کے سربراہ نے اس رائے سے اتفاق کیا اور ان کو بھی نوٹسز جاری کر دیے۔ اس دوران بینچ میں موجود جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ جمہوریت میں سیاسی جماعتیں حکومت بناتی ہیں اس لیے ان کی رائے میں سیاسی جماعتوں کو بھی سننا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ سابق دور حکومت میں سپیکر کی رولنگ سے متعلق از خود نوٹس میں پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کیا گیا تھا۔
اس پر سپریم کورٹ بار کے صدر عابد زبیری نے کہا کہ ان دونوں اسمبلیوں میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان تو صدر مملکت نے کیا ہے باقیوں کو نوٹس کیوں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آج ہم نوٹس کے علاوہ اور کچھ نہیں کریں گے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے صدر مملکت اور گورنرز کو ان کی پرنسپل سیکرٹریز کے توسط سے نوٹس جاری کرنے کے علاوہ حکومتِ وقت اور پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کو بھی نوٹسز جاری کرتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم کو بھی نوٹس جاری کریں تو اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی نوٹس جاری کیا جائے اس پر بینچ کے سربراہ نے حیرت سے پوچھا کہ کیا پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کا حصہ نہیں ہے جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ پیپلز پارٹی حکومت کا حصہ تو ضرور ہے لیکن پی ڈی ایم میں شامل نہیں ہے۔ عدالت نے پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی نوٹس جاری کر دیے۔
سماعت کے اختتام پر جب چیف جسٹس دن کی کارروائی سے متعلق ڈکٹیشن دے رہے تھے تو وہ دو تین مرتبہ فقرہ بھول گئے اور انھوں نے اپنے سٹینو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’فقرہ بولو کیا لکھا ہے۔‘