منڈی بہاالدین: جج کی عدالتی فیصلہ سازی میں چیٹ جی ٹی پی سے مدد لینے کی کوشش
عدالتی فیصلہ سازی کے عمل میں چیٹ جی پی ٹی 4 جج کے لیے کس طرح مددگار ہو سکتا ہے؟ یہ سوال حال ہی میں منڈی بہاالدین کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے اٹھایا جب وہ نو عمر ملزم کی ضمانت کی درخواست پر سماعت کررہے تھے۔
ان کا سوال اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والے فرد کے لیے دلچسپی کا باعث ہے۔
رپورٹ کے مطابق چیٹ جی پی ٹی نے پاکستان کے مقابلے دیگر ممالک کے محققین کی جانب سے زیادہ تیزی سے استعمال کیا جارہا ہے۔
حتمی حکم نامہ مرتب کرنے کے بعد ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد عامر منیر نے چیٹ جی پی ٹی سے قانونی سوال پوچھا کہ کیا جیل میں قید نو عمر بچوں کی ضمانت بعد از گرفتاری ہوسکتی ہے؟
جس پر چیٹ جی پی ٹی کے جواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ قانون ماہرین کو مصنوعی ذہانت (اے آئی) پر بھروسہ کرنے سے پہلے ابھی طویل سفر طے کرنا ہے، جج نے مشاہدہ کیا کہ اگر ججز چیٹ بوٹ پروگرام مثال کے طور پر چیٹ جی پی ٹی یا گوگل بارڈ سے دستیاب اعداد و شمار، حقائق اور کیس کے حالات کی بنیاد پر سوالات کرتے رہیں تو چیٹ جی پی ٹی قابل اعتماد جوابات فراہم کر کے انسانی ذہن پر بوجھ کو کم کر سکتا ہے۔
چیٹ جی پی ٹی مصنوعی ذہانت پر مبنی ایک لینگویج ماڈل ہے جو اوپن اے آئی نامی کمپنی نے بنایا ہے، اسے لوگوں کی معاونت کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے جس کے اندر سوالات کے جواب دینے کے لیے بہت زیادہ تفصیلات رکھی گئی ہیں جبکہ مشین لینگویج لرننگ کے ذریعے وہ مسلسل خود کو بہتر بھی بنا رہا ہے۔
ڈان نے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے پیشہ ور افراد سے رابطہ کیا اور ان سے پوچھا کہ کیا اے آئی مختلف شعبوں میں کارآمد ثابت ہوسکتا ہے؟
سافٹ ویئر ڈیولپمنٹ انجینئر فیضان یونس نے ڈان کو بتایا کہ اے آئی پروگرامنگ کی غلطیوں کو درست کرنے میں مدد کرسکتا ہے جس سے وقت کا ضیاع کم ہوگا۔
میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی ایک حالیہ دستاویز سے معلوم ہوا کہ چیٹ جی پی ٹی استعمال کرنے والے پیشہ ور افراد نے اپنا کام آدھے وقت میں مکمل کرلیا تھا۔
تاہم برلن میں قائم ایک کمپنی کے ساتھ کام کرنے والے فیضان یونس کہتے ہیں کہ ابھی تک،چیٹ جی پی ٹی صرف ’معلومات فراہم کر سکتا ہے‘ کیونکہ اس کی معلومات 2021 تک محدود ہیں، اسی لیے چیٹ جی ٹی پی کی تربیت اسی دور کے ڈیٹا سے ہوئی ہے۔
یونیورسٹی اترا ملائیشیا کے جرنل آف انٹر کلچرل کمیونیکیشن کے ہم ری ویو کوآرڈینیٹر ماجد رضا نے ڈان کو بتایا کہ ’ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی کے بارے میں رائے قائم کرنا قبل از وقت ہوگا‘۔
انہوں نے بتایا کہ اے آئی چیٹ بوٹ کو کسی بھی ریسرچ کی ابتدا کے لیے استمعمال کیا جا سکتا ہے مثال کے طور پر مسودہ لکھنا یا مطالعے سے متعلق نظریات کا تعین کرنا ہے۔
ماجد رضا نے بتایا کہ انسانوں کے مقابلے میں اے آئی دستاویزات لکھنے یا پیچیدہ دلائل پیش نہیں کرسکتا۔
سافٹ ویئر انجینئر یاسر شاہ کا کہنا تھا کہ اے آئی کو کسی بھی ویب سائٹ کے بنیادی ڈھانچے کو بنانے کے لیے استعمال کیا جسکتا ہے، یہ ٹیکنالوجی ابتدائی پروگرامرز کے لیے بالخصوص طلبہ کے لیے پروگرام کے کوڈ میں غلطیاں شناخت کرنے اور اس کے حل کے لیے مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
گزشتہ ماہ اے آئی ٹیکنالوجی پر مبنی تصاویر تیار کرنے والی ٹیکنالوجی ’مڈجرنی‘ نے نیو یارک میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی گرفتاری کی جعلی تصاویر بنائی تھیں جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی تھیں۔
تاہم وہ افراد جو یہ سمجھتے ہیں کہ اے آئی کے آنے سے ان کی ملازمتوں کو خطرہ ہے، انہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لاہور کی فری لانس رائٹر عثمان جاوید کا کہنا ہے کہ ایک استاد زیادہ سے زیادہ مثالوں کے لیے کسی بھی موضوع کی وضاحت کرسکتا ہے جب تک آپ مطمئن نہ ہوجائیں، اس کے برعکس چیٹ جی پی ٹی ایک ہی مثال کو بار بار دہراتا ہے۔