14 مئی قریب آ چکا، سیاسی جماعتیں ایک مؤقف پر آ جائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے، چیف جسٹس
ملک میں ایک ہی وقت انتخابات کی سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیں کہ منجمد سیاسی نظام چلنا شروع ہو رہا ہے، 14 مئی قریب آ چکا ہے، سیاسی جماعتیں ایک مؤقف پر آ جائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ وزارت دفاع کی جانب سے ملک کی تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کی درخواست پر سماعت کررہا ہے۔
سماعت کے لیے ابتدائی طور پر ساڑھے 11 بجے صبح کا وقت مقرر کیا گیا تھا تاہم کارروائی تاخیر کا شکار ہونے کے بعد 2 بجے شروع ہوئی۔
سماعت کا آغاز قرآنی آیات کی تلاوت سے ہوا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے دعا کی کہ مولا ہمیں ہمت دے کہ صحیح فیصلے کریں اور ہمیں نیک لوگوں میں شامل کر، جب ہم چلے جائیں تو ہمیں اچھے الفاظ میں یاد کیا جائے۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ معاملہ بہت لمبا ہوتا جارہا ہے، حکومت نے اپنا ایگزیکٹیو کام پارلیمان کو دیا ہے یا نہیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کو وزارت خزانہ کی رپورٹ پڑھنے کی ہدایت کی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو کہا گیا تھا ضمنی گرانٹ کے بعد منظوری لی جائے گی، اس کے برعکس معاملہ ہی پارلیمنٹ کو بھجوا دیا گیا، کیا الیکشن کے لیے ہی ایسا ہوتا ہے یا عام حالات میں بھی ایسا ہوتا ہے؟
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ قائمہ کمیٹی نے حکومت کو ہدایت جاری کی تھی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ قائمہ کمیٹی میں حکومت کی اکثریت ہے، حکومت کو گرانٹ جاری کرنے سے کرنے سے کیسے روکا جاسکتا ہے؟ وزیراعظم کے پاس اسمبلی میں اکثریت ہونی چاہیے، مالی معاملات میں تو حکومت کی اکثریت لازمی ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ قومی اسمبلی کی قرار داد کی روشنی میں معاملہ پہلے منظوری کے لیے بھیجا گیا تھا۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ جب آئین حکومت کو اختیار دیتا ہے تو اسمبلی قرارداد کیسے منظور کرسکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ بعد میں گرانٹ کی منظوری لینے میں خطرہ تھا۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا بجٹ کے وقت حکومت کی اکثریت نہیں ہونی تھی؟ جو بات آپ کر رہے ہیں وہ مشکوک لگ رہی ہے، کیا کبھی ضمنی گرانٹ کی منظوری لینے میں حکومت کو شکست ہوئی؟
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سال 2013 میں کٹوتی کی قراردادیں منظور ہوئی تھیں موجودہ کیس میں گرانٹ جاری کرنے سے پہلے منظوری لینے کے لیے وقت تھا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ وزارت خزانہ کی ٹیم نے بار بار بتایا کہ ضمنی گرانٹ کی منظوری بعد میں لی جاتی ہے، اس کے لیے وزارت خزانہ نے آئین کے آرٹیکل 84 کا حوالہ دیا تھا۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ قومی اسمبلی اس معاملے میں قرارداد منظور کرچکی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے دریافت کیا کہ کیا قرار داد کی منظوری کے وقت گرانٹ منظوری کے لیے پیش کی گئی تھی، وفاقی حکومت کی اسمبلی میں اکثریت لازمی ہے، حکومت کی گرانٹ اسمبلی سے کیسے مسترد ہو سکتی ہے، کیا آپ کو سپلیمنٹری بجٹ مسترد ہونے کے نتائج کا علم ہے۔
گرانٹ منظوری کا اصل اختیار پارلیمنٹ کو ہے، اٹارنی جنرل
اٹارنی جنرل نے کہا کہ گرانٹ منظوری کا اصل اختیار پارلیمنٹ کو ہے، اسمبلی پہلے قرارداد کے ذریعے اپنی رائے دے چکی تھی، گرانٹ جاری ہونے کے بعد منظوری نہ ملے تو اخراجات غیر آئینی ہوتے۔
جسٹس منیب اختر نے کہاکہ اگر حکومت سنجیدہ ہوتی تو کیا ضمنی گرانٹ منظور نہیں کروا سکتی تھی، وزیراعظم کے پاس اسمبلی میں اکثریت ہونا لازمی ہے، اٹارنی جنرل صاحب سمجھنے کی کوشش کریں معاملہ بہت سنجیدہ ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمارا نقطہ نظر سمجھ چکے ہیں، انتظامی امور قائمہ کمیٹی کو بھجوانے کی کوئی مثال نہیں ملتی، انتخابی اخراجات ضرورت نوعیت کے ہیں غیر اہم نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کا گرانٹ مسترد ہونے کا خدشہ اسمبلی کے وجود کے خلاف ہے، توقع ہے کہ حکومت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے گی، حکومت فیصلہ کرے یا اسمبلی کو واپس بھجوائے جواب دے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے کے نتائج غیر معمولی ہو سکتے ہیں، فی الحال غیر معمولی نتائج پر نہیں جانا چاہتے، حکومت کو عدالتی احکامات پہنچا دیں۔
چیف جسٹس نے کہاکہ الیکشن کمیشن کہتا ہے اکتوبر تک الیکشن نہیں ہوسکتے، کمیشن نے ایک ساتھ الیکشن کرانے کا بھی کہا ہے، اس بات پر کئی سوالات جنم لیتے ہیں، الیکشن کمیشن کی آبزرویشن کی بنیاد سیکیورٹی کی عدم فراہمی ہے۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ ملک میں دہشت گردی 1992 سے جاری ہے لیکن 1987، 1991، 2002، 2008، 2013 اور 2018 میں الیکشن ہوئے، سیکیورٹی کے مسائل ان انتخابات میں بھی تھے، 2008 میں تو حالات بہت کشیدہ کیوں کہ 2007 میں بینظیر بھٹو کی شہادت ہوئی تھی اور 2013 میں دہشت گردی تھی۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اب ایسا کیا منفرد خطرہ ہے جو الیکشن نہیں ہو سکتے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلے ایک ساتھ تمام سیکیورٹی فورسز نے فرائض سر انجام دیے تھے، اب دو صوبوں میں الیکشن الگ ہوں گے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا گارنٹی ہے کہ 8 اکتوبر کو حالات ٹھیک ہو جائیں گے، وزارت دفاع نے بھی اندازہ ہی لگایا ہے، حکومت اندازوں پر نہیں چل سکتی۔
سپریم کورٹ نے انتخابات کے لیے فنڈز کی فراہمی سے متعلق حکومت سے دوبارہ جواب طلب کر لیا۔
فنڈز فراہم نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج آ سکتے ہیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے متنبہ کیا کہ فنڈز فراہم نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج آ سکتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ آپریشنز میں متعین کردہ ٹارگٹ حاصل کرنے کی پوری کوشش ہے، کسی کو توقع نہیں تھی کہ اسمبلیاں پہلے تحلیل ہو جائیں گی۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ گزشتہ سال ایک حکومت کا خاتمہ ہوا تھا، عدالت نوٹس نہ لیتی تو قومی اسمبلی تحلیل ہو چکی تھی، صوبائی اسمبلیوں کے ہوتے ہوئے قومی اسمبلیوں کے انتخابات بھی ہونے ہی تھے، آئین میں اسمبلی تحلیل ہونے پر الیکشن کا وقت مقرر ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ برطانیہ میں جنگ کے دوران بروقت انتخابات ہوئے تھے، بم دھماکوں کے دوران بھی برطانیہ میں انتخابات ہوتے تھے، عدالت کو کہاں اختیار ہے کہ الیکشن اگلے سال کروانے کا کہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز کا کام بیرونی خطرات سے نمٹنا ہے، سال 2001 سے سیکیورٹی ادارے بارڈرز پر مصروف ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے فنڈز اور سیکیورٹی ملنے پر انتخابات کرانے کا کہا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم آگے بڑھیں گے پیچھے نہیں ہٹیں گے، فنڈز کے حوالے سے عدالتی حکم ایک سے دوسرے ادارے کو بھیجا جا رہا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جو پیغام اپ دینا چاہ رہے ہیں وہ سمجھ گیا ہوں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا گارنٹی ہے کہ 8 اکتوبر کو الیکشن ہوجائیں گے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فوج نے انتخابات کے مقررہ وقت کے مطابق آپریشنز شروع کیے تھے۔
جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ کیا آرٹیکل 245 کے تحت فوج سول حکومت کی مدد کو آتی ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 245 کے تحت بنیادی حقوق معطل ہوتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا 2018 کے انتخابات میں بنیادی حقوق معطل تھے؟ وفاقی حکومت آرٹیکل 245 کا اختیار کیوں استعمال نہیں کر رہی؟ کیا آئین بالادست نہیں ہے۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ افواج نے ملک کے لیے جانوں کی قربانیاں دی ہیں، افواج پاکستان کا تو سب کو شکر گزار ہونا چاہیئے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 27 مارچ کو عدالتی کارروائی شروع ہوئی 4 اپریل کو فیصلہ آیا، پہلے 4/3 کا معاملہ تھا پھر فل کورٹ کا، بائیکاٹ ہوا لیکن کسی نے سیکیورٹی کا مسئلہ نہیں اٹھایا۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ میری درخواست پر ڈی جی ملٹری آپریشنز نے بریفنگ دی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی اور سیکریٹری دفاع بھی موجود تھے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملاقات میں افسران کو بتایا تھا، دوران سماعت یہ معاملہ نہیں اٹھایا گیا، سب کو بتایا کہ فیصلہ ہو چکا ہے اب پیچھے نہیں ہٹ سکتے، الیکشن کمیشن اور وزارت دفاع کی درخواستیں فیصلے واپس لینے کی بنیاد نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پہلے کہا کہ وسائل دیں الیکشن کروالیں گے، اب کہتے ہیں ملک میں انارکی پھیل جائے گی، الیکشن کمیشن پورا مقدمہ دوبارہ کھولنا چاہتا ہے۔
وزارت دفاع کی درخواست ناقابل سماعت ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وزارت دفاع کی رپورٹ میں عجیب سی استدعا ہے، کیا وزارت دفاع ایک ساتھ الیکشن کروانے کی استدعا کرسکتی ہے؟ وزارت دفاع کی درخواست ناقابل سماعت ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ٹی وی پر سنا ہے وزرا کہتے ہیں اکتوبر میں بھی الیکشن مشکل ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہاکہ کل بلاول بھٹو اور آج وزیراعظم سے ملا تھا، کوشش ہے ملک میں سیاسی ڈائیلاگ شروع ہو، ایک کے علاوہ تمام حکومتی جماعتیں پی ٹی آئی سے مذاکرات پر آمادہ ہیں۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ بلاول بھٹو آج مولانا فضل الرحمٰن سے مل کر مذاکرات پر قائل کریں گے، معاملات سلجھ گئے تو شاید اتنی سیکیورٹی کی ضرورت نہ پڑے، تمام سیاسی جماعتیں مذاکرات پر آمادہ ہورہی ہیں، امیر جماعت اسلامی بھی شہباز شریف اور عمران خان سے ملے ہیں.
انہوں نے کہا کہ دونوں فریقین نے مذاکرات کے لیے کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں، عدالت کچھ مہلت دے تو معاملہ سلجھ سکتا ہے، جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی بات میں وزن ہے، منجمد سیاسی نظام چلنا شروع ہو رہا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 14 مئی قریب آ چکا ہے، سیاسی جماعتیں ایک موقف پر آ جائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے۔
اس معاملے کو زیادہ طویل نہیں کیا جا سکتا، چیف جسٹس
چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ اس معاملے کو زیادہ طویل نہیں کیا جا سکتا، 5 دن عید کی چھٹیاں آ گئی ہیں، میرے ساتھی ججز کہتے ہیں 5 دن کا وقت بہت ہے۔
شاہ خاور ایڈوکیٹ نے دلائل دیے کہ عدالتی فیصلہ کبھی ایک وجہ سے نافذ نہیں ہو سکا کبھی دوسری وجہ سے، عدالتی فیصلے پر عملدرآمد ضروری ہے، لوگ کنفیوز اور ٹینشن میں ہیں، عوام کو ہیجانی کیفیت سے نکالنے کے لیے درخواست دائر کی ہے۔
وکیل شاہ خاور نے مؤقف اپنایا کہ ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ ہونے چاہئیں، انتخابات الگ الگ ہوئے تو کئی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی، صوبوں میں منتخب حکومتیں الیکشن پر اثرانداز ہوں گی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جب بحث ہو رہی تھی تو اٹارنی جنرل نے یہ نکتہ کیوں نہیں اٹھایا؟ اٹارنی جنرل کو نہ جانے کس نے 4/3 پر ذور دینے کا کہا، اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے کس نے ان کو یہ مؤقف اپنانے سے روکا۔
وکیل شاہ خاور نے دلائل دیے کہ سیاسی جماعتیں ابھی بھی متفق ہوجائیں تو آئیڈیل حالات ہوں گے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مذاکرات کی بات ہے تو 8 اکتوبر پر ضد نہیں کی جاسکتی، یکطرفہ کچھ نہیں ہوسکتا، سیاسی جماعتوں کو دل بڑا کرنا ہوگا، 90 دن کا وقت 14 اپریل کو گزر چکا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کے مطابق 90 دن میں انتحابات کرانے لازم ہیں، آپ کے مطابق یہ سیاسی انصاف کا معاملہ ہے، جس میں فیصلہ عوام کرے گی، آپ کی تجویز ہے کہ سیاسی جماعتیں مذاکرات کریں، عدالت نے یقین دہانی کرانے کا کہا تو حکومت نے جواب نہیں دیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے بتایا کہ حکومت نے آج پہلی بار مثبت بات کی، عدالت ایک دن انتحابات کرانے کی درخواستوں پر سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کردیتی ہے؟ سیاسی جماعتوں کو کل کے لیے نوٹس جاری کررہے ہیں۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ نگران حکومت 90 دن سے زیادہ برقرار رہنے پر بھی سوال اٹھتا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ عدالت سیاسی جماعتوں کو مہلت دے۔
عدالت نے فیصل چوہدری کو روسٹرم پر بلا لیا اور چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی مذاکرات پر آمادہ ہے، فیصل چوہدری نے کہا کہ سراج الحق زمان پارک آئے اگلے دن ہمارا سندھ کا صدر گرفتار ہو گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ تاریخ پر جماعتیں مطمئن ہوئیں تو لیول پلیئنگ فیلڈ ملے گا، قوم کی تکلیف اور اضطراب کا عالم دیکھیں۔
فیصل چوہدری نے دلائل دیے کہ قوم آپ کی طرف دیکھ رہی ہے آپ سے بہت امید ہے،۔
عدالت نے سماعت کل ساڑے گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ پارٹی قیادت سے ہدایات لے کر عدالت کو آگاہ کریں، ممکن ہے عدالت تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو طلب کرے۔
ایڈووکیٹ فیصل چوہدری نے دلائل دیے کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق پی ٹی آئی نے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے، وزیر داخلہ ہر گھنٹے بعد عدالت کو دھمکیاں دیتا ہے، وزیر داخلہ کہتا ہے جو مرضی کر لے 14 مئی کو الیکشن نہیں ہوں گے۔
’سیاسی عمل اگے نہ بڑھا تو الیکشن میں تصادم ہوسکتا ہے‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سیاسی اتفاق رائے ہوا تو 14 مئی کا فیصلہ نافذ کرائیں گے، کیا آپ سڑکوں پر تصادم چاہتے ہیں؟ سیاسی عمل اگے نہ بڑھا تو الیکشن میں تصادم ہوسکتا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ دونوں فریقین کو سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔
عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کرکے تمام سیاسی جماعتوں کے سینئر قائدین کو طلب کرلیا۔
درخواست کا پس منظر
خیال رہے کہ ایک روز قبل وزارت دفاع نے اپنی درخواست میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی تھی کہ قومی اور سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے پر قومی اور تمام صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات ایک ساتھ کرانے کی ہدایت جاری کی جائے۔
یہ استدعا ایک رپورٹ کے ساتھ منسلک درخواست کے ذریعے کی گئی تھی، جسے سپریم کورٹ کی جانب سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) اور دیگر محکموں کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے جاری کرنے کے بعد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایات کی تعمیل میں پیش کیا گیا تھا۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ ’مسلح افواج کے ارکان کو انتخابی ڈیوٹی کے لیے تیار کرنے کے لیے خاصہ وقت درکار ہے، اس لیے کہ فورس کا بڑا حصہ کافی عرصے سے آپریشنز میں مصروف ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ پنجاب اور سندھ میں سیکیورٹی کی صورتحال بالترتیب خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں جاری آپریشنز کی کوششوں کے تناظر میں مستحکم ہے۔
درخواست میں وضاحت کی گئی تھی کہ اس لیے خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے فوجیوں کی کسی بھی قسم کی منتقلی کے نتیجے میں پنجاب اور سندھ میں سیکیورٹی کی صورتحال براہ راست متاثر ہوگی۔
انتخابات کے لیے فنڈز کے اجرا کا معاملہ
عدالت عظمیٰ نے حکومت کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 10 اپریل تک انتخابات کرانے کے لیے الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے فراہم کرنے کا حکم دیا تھا اور الیکشن کمیشن کو ہدایت کی تھی کہ وہ حکومت کی جانب سے حکم کی تعمیل سے متعلق رپورٹ 11 اپریل کو فراہم کرے۔
تاہم، حکومت نے معاملہ پارلیمنٹ کو بھجوایا جس نے عدالت کے احکامات کی خلاف ورزی کی اور فنڈز جاری کرنے سے انکار کردیا۔
گزشتہ ہفتے الیکشن کمیشن نے سربمہر لفافے میں سپریم کورٹ کو اپنی رپورٹ پیش کی تھی، معلومات سے باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا تھا کہ ایک صفحے کی رپورٹ میں عدالت عظمیٰ کو 21 ارب روپے جاری کرنے میں حکومت کی ہچکچاہٹ سے متعلق بتایا گیا۔
اس کے بعد عدالت عظمیٰ نے اسٹیٹ بینک کو ہدایت کی تھی کہ وہ اکاؤنٹ نمبر ون کے فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے انتخابات کے لیے 21 ارب روپے جاری کرے اور اس سلسلے میں 17 اپریل تک وزارت خزانہ سے مناسب رابطہ کرے۔
سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد مرکزی بینک نے پیر کے روز فنڈز مختص کیے اور رقم جاری کرنے کے لیے وزارت خزانہ کی منظوری طلب کی۔
فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے رقم جاری کرنے کے لیے حکومت کی منظوری درکار ہوتی ہے جب کہ حکومت کو اس کے اجرا کے لیے قومی اسمبلی کی منظوری لینی ہوتی ہے۔
لیکن اسی روز قومی اسمبلی نے دونوں صوبوں میں انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کو ضمنی گرانٹ کے طور پر 21 ارب روپے فراہم کرنے کے مطالبے کو مسترد کر دیا۔
اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت اجلاس میں وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی جگہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ضمنی گرانٹ کی موشن ایوان میں پیش کی جس پر ووٹنگ کے دوران اسے مسترد کردیا گیا۔