نو مئی 2023: احتجاج، جلاؤ گھیراؤ اور کریک ڈاؤن کی پسِ پردہ کہانی؟
رینجرز کی وردی میں ملبوس درجنوں اہلکار اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو حراست میں لینے کے بعد لگ بھگ گھسیٹتے ہوئے لے جا رہے تھے اور یہ منظر کروڑوں پاکستانیوں کی طرح لاہور کے رہائشی ابرار (فرضی نام) نے بھی اپنی موبائل سکرین پر دیکھا تھا۔
یہ نو مئی 2023 تھا، وہ دن جب پاکستانی سیاست ہمیشہ کے لیے بدلنے والی تھی۔
ابرار کے لیے عمران خان پی ٹی آئی کے سربراہ ہی نہیں بلکہ ’بچپن کے ہیرو‘ بھی ہیں اور وہ خود کو پی ٹی آئی کا ایک وفادار کارکن کہتے ہیں۔ یہ مناظر دیکھتے ہی انھوں نے بغیر سوچے سمجھے یہ فیصلہ کیا کہ انھوں نے احتجاج کرنا ہے اور وہ فوراً ہی اپنے گھر سے نکل پڑے۔
ابرار یوں تو اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ فوٹیج دیکھنے کے بعد وہ مشتعل نہیں ہوئے اور پرامن احتجاج کرنے گھر سے نکلے لیکن ان کے بقول وہ یہ ضرور محسوس کر رہے تھے کہ اُن کے ’لیڈر کو اس طرح ذلیل نہیں کرنا چاہیے تھا۔‘
ابرار گھر سے نکلے تو اُن کا رُخ لاہور چھاؤنی کی حدود میں واقع کور کمانڈر ہاؤس کی جانب تھا۔ ابرار کا کہنا ہے کہ احتجاج کے لیے اس مقام کے تعین کی وجہ اُن حلقوں سے سوال کرنا تھا جو ان کے رہنما کی گرفتاری کے ’اصل ذمہ دار تھے۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا ’آپ ہی نے گرفتار کیا تھا تو آپ ہی سے آ کر پوچھنا تھا کہ خان کو گرفتار کیوں کیا؟‘
ابرار کے بقول اُن کی جانب سے عمران خان کی گرفتاری پر احتجاج کے لیے کور کمانڈر ہاؤس جانا اُن کا ذاتی فیصلہ تھا تاہم اس واقعے کے بعد میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایسی متعدد ویڈیوز اور آڈیوز گردش کرتی رہیں جن کے حوالے سے حکام نے دعویٰ کیا کہ مظاہرین کا فوجی علاقوں اور تنصیبات کا رُخ کرنا ایک ’سوچا سمجھا منصوبہ‘ تھا اور انھیں اس عمل کے لیے تحریکِ انصاف کے رہنماؤں نے اُکسایا تھا۔
لاہور کے رہائشی حسن (فرضی نام) ایک طالبعلم ہیں اور اُن کے بقول نو مئی 2023 کے دن جب وہ کالج سے گھر پہنچے تو انھیں عمران خان کی گرفتاری کی فوٹیج ٹی وی پر نظر آئی۔ ’خان صاحب سے جذباتی تعلق ہے۔۔۔ ایک بھائی جیسا، والد جیسا۔ جب انھیں پکڑا گیا تو دل خون کے آنسو رو رہا تھا اور کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کیا جائے۔‘
اِسی سوچ میں غلطاں حسن نے اپنی موٹرسائیکل نکالی اور لبرٹی چوک پہنچ گئے جو عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے لاہور میں تحریکِ انصاف کے اکثر مظاہروں کا مرکز رہا تھا۔
حسن کے مطابق لبرٹی چوک میں اُن جیسے درجنوں افراد جمع تھے جبکہ پولیس اہلکار بھی وہاں موجود تھے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’پولیس کو بھی ہم یہی کہہ رہے تھے کہ آج آپ سامنے نہیں آئیے گا، آج آپ نے ریڈ لائن کراس کر دی ہے۔ پھر پتا چلا کہ ہم کور کمانڈر ہاؤس کی طرف مارچ کر کے جائیں گے تو مظاہرین کے ساتھ اُس طرف چل پڑا۔‘
حسن کے مطابق وہ کور کمانڈر ہاؤس کے اندر نہیں گئے بلکہ اس سے کافی فاصلے پر موجود تھے جب انھیں معلوم ہوا کہ اندر توڑ پھوڑ ہو چکی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں اکیلا تھا اس لیے ایک، دو گھنٹے وہیں رش میں گزر گئے۔ میں بس چاہتا تھا کہ میری موجودگی ہونی چاہیے کہ خان کے ساتھ چونکہ غلط ہوا ہے اس لیے میں باہر ہوں۔‘
اُس وقت کے ڈی آئی جی آپریشنز لاہور اور موجودہ آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی نو مئی کو کور کمانڈر ہاؤس کے اطراف موجود پرتشدد مظاہرین کو کنٹرول کرنے میں سرگرم تھے جب انھیں اس دوران متعدد زخم آئے اور ان کی دائیں آنکھ کی بینائی بھی متاثر ہوئی۔
بی بی سی کے شہزاد ملک سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ نو مئی کو جب وہ کور کمانڈر ہاؤس کے باہر موجود تھے تو ان کے پاس 92 پولیس اہلکاروں کی نفری موجود تھی جبکہ ان کے اندازے کے مطابق اس وقت وہاں چار ہزار کے قریب مظاہرین تھے جن کے پاس مبینہ طور پر غلیلیں اور پٹرول بم موجود تھے۔
اُن کے مطابق ان کے پاس پانچ آنسو گیس کی گنز تھیں جنھیں انھوں نے 20، 20 اہلکاروں کی ٹولیاں بنا کر مؤثر انداز میں استعمال کیا اور اس دوران ماحول ایسا تھا کہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا اور ایسے میں ان کے آنکھ پر غلیلوں کے ذریعے مارے گئے دو بنٹے لگے جس کی وجہ سے ان دائیں آنکھ کی بینائی متاثر ہوئی۔
’اس روز میری سب سے پہلی ترجیح یہ تھی کہ میں نے ان 92 اہلکاروں کو صحیح سلامت اس پرتشدد ہجوم سے نکالنا ہے۔ جس میں میں بالآخر کامیاب رہا۔ میرے جسم پر 80 سے زیادہ زخم تھے اور 29 دن تک میں ہسپتال رہا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’لوگ جب مجھ سے اُس دن کے بارے میں پوچھتے ہیں تو میں اُن سے کہتا ہوں کہ وہاں پر لاقانونیت تھی، خونریزی ہوئی، قانون کی دھجیاں اڑیں۔ یہ تو کیمرے کی آنکھ نے، ڈیجیٹل اور پرنٹ میڈیا نے اور سب نے دیکھا کہ کیا کیا ہوا۔‘
اُس دن عمران خان کی گرفتاری پر احتجاج کرنے والوں میں صرف اُن کے مداح یا جماعت کے کارکن ہی نہیں بلکہ رہنما بھی شامل تھے۔ عمران خان کی حکومت میں وزیر داخلہ رہنے والے شہریار آفریدی بھی اُن میں سے ایک ہیں۔
بی بی سی سے نو مئی کے واقعات پر بات کرتے ہوئے وہ خاصے جذباتی نظر آئے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’میری زندگی اُن کچھ لمحات نے بدل کر رکھ دی۔ وہ لیڈر جسے آپ جتنی بار بھی ملیں آپ کا اللہ پر ایمان مزید مضبوط ہوتا ہے جب اس شخص کے ساتھ اِس ملک میں یہ ہوا اور جب وہ (عمران خان کی گرفتاری) فوٹیج دیکھی تو یقین جانیے بہت تکلیف ہوئی۔‘
’عمران خان ہائیکورٹ میں خود پیش ہوئے، اسلام آباد پولیس کہاں تھی اور رینجرز کو کیوں بلایا گیا؟ کیا نوبت آئی کہ شیشے توڑے گئے اور ایسا ماحول کیوں بنایا گیا؟ کیا یہ سب اشتعال دلانے کے لیے کافی نہیں تھا؟ پوری قوم کی عقیدت اُن (عمران خان) کے ساتھ ہے۔‘
وہ اس دن کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘جب میں اسلام آباد کی سڑکوں پر نکلا تو تمام عمروں کے لوگ نظر آئے جن کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ پریشان تھے اور لوگ میری گاڑی روک کر پوچھ رہے تھے کہ کیا کرنا ہے؟ تو میں نے انھیں یہی کہا کہ خان صاحب نے کہا تھا کہ پُرامن احتجاج کرنا ہے تو ہم آپ کے ساتھ ہیں۔‘
شہریار آفریدی نے دعویٰ کیا کہ اس روز مظاہروں کے دوران ’غیر متعلقہ‘ لوگ موجود تھے جو توڑ پھوڑ اور انتشار پھیلانے پر اُکسا رہے تھے۔
’ماسک پہنے کچھ لوگ میرے پاس آتے ہیں اور مجھے گریبان سے پکڑ کر کہتے ہیں کہ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں، جی ایچ کیو (فوجی ہیڈکوارٹر) کیوں نہیں جا رہے؟ یہ ایک یا دو دفعہ نہیں ہوا۔ میں نے وہیں پر کہا کہ یہ لوگ مجھے پلانٹڈ لگ رہے ہیں، اُن کی بات آپ نے نہیں سننی۔ مجھے گالیاں بھی دی گئیں، دھکے بھی دیے گئے۔‘
خیال رہے کہ عمران خان اور اُن کی جماعت کی جانب سے نو مئی کے بعد سے یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ یہ واقعات دراصل ریاست کی جانب سے ایک ’فالس فلیگ آپریشن‘ کا نتیجہ تھے جبکہ پاکستانی فوج اور اُس وقت کی حکومت کی جانب سے اس الزام کی تردید کی جاتی رہی ہے۔
سات مئی کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے ترجمان نے تحریک انصاف کے ’فالس فلیگ آپریشن‘ کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ اُس دن (نو مئی) کے لیے کارکنوں کی ذہن سازی بہت عرصے سے کی جا رہی تھی اور یہ سب سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔
تحریکِ انصاف کے کارکنوں اور رہنماؤں کی جانب سے پُرامن احتجاج کی کال کے دعوے اپنی جگہ مگر اُس روز لاہور کے کور کمانڈر ہاؤس سمیت ملک بھر میں فوجی علاقوں اور تنصیبات میں جو جلاؤ گھیراؤ ہوا اس کے مناظر سب نے دیکھے۔
تسلیم کرنے کو تیار ہوں کہ ہمیں پہلے سے کوئی معلومات نہیں تھیں: رانا ثنا اللہ
اس تناظر میں ایک اہم سوال یہ بھی اٹھایا جاتا رہا کہ کیا اُس وقت کی حکومت کے لیے عمران خان کی گرفتاری کا ردعمل غیر متوقع تھا اور اگر نو مئی کے واقعات کسی مبینہ سوچی سمجھی سازش کے تحت ہوئے تو کیا اسے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی انٹیلیجنس کی ناکامی قرار دیا جا سکتا ہے؟
بی بی سی نے یہ سوال وزیر اعظم کے سیاسی مشیر (جو نو مئی 2023 کو وزیر داخلہ بھی تھے) رانا ثنا اللہ سے پوچھا تو اُن کا کہنا تھا کہ یہ معلومات تو مل رہی تھیں کہ ’عمران خان اپنے قریبی ساتھیوں کے ساتھ میٹنگز میں یہ کہتے تھے کہ آپ نے احتجاج کور کمانڈر ہاؤس اور جی ایچ کیو کے سامنے جا کر کرنا ہے، اس حد تک تو انٹیلیجنس تھی۔ لیکن شاید یہ بات پوری طرح سے ہمارے ذہن میں یا تجزیے میں نہیں تھی کہ وہ جی ایچ کیو پر حملہ آور ہو جائیں گے۔‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’بعد میں جو انکوائریاں ہوئی ہیں ان میں کچھ لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ لیکن کسی کو بھی یہ احساس نہیں تھا کہ احتجاج یہ شکل اختیار کر لے گا، اس لیے کسی نے انتہائی قدم نہیں اٹھایا۔ یہ بات ان کے مخصوص لوگوں کو معلوم تھی کہ وہاں جا کر انھوں نے کیا کرنا ہے لیکن میں یہ بات تسلیم کرنے کے لیے تیار ہوں کہ اس کی ہمیں پہلے سے کوئی معلومات نہیں تھیں۔‘
رانا ثنا اللہ نے بی بی سی سے بات چیت میں نو مئی کے واقعات کو ماضی میں ہونے والے پی ٹی آئی کے مظاہروں کا تسلسل قرار دیا۔ ’یہ ماحول بن چکا تھا کہ بانی پی ٹی آئی خود کو ریاست سے زیادہ طاقتور ثابت کرنے پر ناصرف تُلے ہوئے تھے بلکہ ثابت کر رہے تھے۔‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’عمران خان ریاست کو چیلنج کرتے ہوئے یہ کہہ رہے تھے کہ مجھے گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی بندہ یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ مجھے گرفتار کیا گیا تو یہ ریڈ لائن کراس کرنے جیسا ہو گا۔ تو یہ تو ایک باغیانہ فلسفہ ہے۔‘
رانا ثنا اللہ کے مطابق ’جب ایک سیاسی جماعت جس کی ملک پر بھی حکومت رہی ہو، دو صوبوں میں بھی حکومت ہو اور وہ اس قسم کی سوچ پر تل جائے تو اس قسم کا ہنگامہ تو وہ کر سکتی ہے جتنا انھوں نے کیا۔‘
رانا ثنا اللہ نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ تحریکِ انصاف کی دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت نو مئی کو ہونے والے واقعات کے مبینہ منصوبے کا علم رکھتی تھی اور ’شاید کچھ ہی لوگ ایسے ہوں گے جنھیں یہ نہیں پتا ہو گا کہ لوٹ مار بھی کرنی ہے اور آگ بھی لگانی ہے۔‘
اس سلسلے میں شہریار آفریدی کی ہی نو مئی کو کی گئی ایک ایسی تقریر کا حوالہ دیا جاتا ہے جو انھوں نے راولپنڈی کے مضافاتی علاقے سوہان میں احتجاج کے لیے جمع مظاہرین کے سامنے کی تھی۔
اس تقریر کے دوران ُان کی جانب سے کہے گئے ایک جملے کے باعث انھیں کئی ماہ جیل میں گزارنے پڑے جب ان پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے لوگوں کو جی ایچ کیو جانے پر اُکسایا۔
شہریار آفریدی اپنے اوپر عائد الزام کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اُن کی تقریر کا ایک جملہ اٹھا کر اسے سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ہر ماں، ہر بچہ یہی کہہ رہا ہے کہ چلو چلو جی ایچ کیو چلو۔ ہم جی ایچ کیو ضرور جائیں گے لیکن پارٹی لیڈر شپ نے یہ کہا ہے کہ آپ ابھی اُدھر ہی رہیں پھر آپ کو بتائیں گے تاکہ ان کے جذبات کو ٹھنڈا کیا جا سکے۔‘
’بیٹی نے کہا بابا میں اللہ سے دعا مانگتی ہوں کہ آپ باہر آ جائیں‘
نو مئی کو ملک بھر میں جو احتجاج ہوا اس میں نہ صرف متعدد افراد ہلاک ہوئے بلکہ سکیورٹی اہلکاروں سمیت بہت سے مظاہرین زخمی بھی ہوئے۔ حکومتِ پاکستان کے مطابق جانی نقصان کے علاوہ نو مئی سے گیارہ مئی کے دوران ہونے والے جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کے واقعات میں ملک کو ڈھائی ارب روپے کا نقصان بھی ہوا۔
ان واقعات کے بعد پکڑ دھکڑ کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا اور لاہور سے تعلق رکھنے والے ابرار اور حسن جیسے کارکن ہوں یا شہریار آفریدی جیسے رہنما سبھی گرفتار کر لیے گئے۔ گرفتار افراد میں سے چند کو حال ہی میں رہائی ملی ہے۔
حال ہی میں ہم لاہور میں تحریکِ انصاف کے ایسے متعدد کارکنوں اور حامیوں سے ملے جو نو مئی کو ہونے والے پُرتشدد مظاہروں میں ملوث ہونے کے الزام میں جیل میں کئی ماہ گزار کر آئے ہیں۔ یہ سب اپنی کہانی بتانا چاہتے تھے لیکن کیمرے پر آنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں تھا۔
یہ سب ہی یہ دعویٰ کرتے نظر آئے کہ نو مئی کے جلاؤ گھیراؤ سے اُن کا کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ صرف پُرامن احتجاج کے لیے اپنے گھروں سے نکلے تھے۔
’پُرامن‘ احتجاج کا دعویٰ کرنے والے ابرار بھی تقریباً نو ماہ زیرِ حراست رہے اور انھیں اس سال کے اوائل میں لاہور کی ایک انسداد دہشت گردی عدالت نے ضمانت پر رہا کیا ہے۔ جیل میں گزارے نو ماہ ابرار کے لیے کسی ’اذیت‘ سے کم نہیں تھے اور اس عرصے کی بہت سے ایسی ’تلخ یادیں‘ ہیں جو آج بھی انھیں ’جذباتی‘ کر دیتی ہیں۔
’بابا مجھے ایک چیز چاہیے مگر میں اللہ سے دعا مانگتی ہوں کہ آپ باہر آ کر مجھے خود دلا دیں گے’۔ اپنی بیٹی کے ساتھ جیل میں ہونے والی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے وہ جذباتی ہو گئے اور سوال اٹھایا کہ ’اگر شواہد ہی نہیں تھے تو مجھے اپنی فیملی سے دور اتنا عرصہ کیوں رہنا پڑا؟‘
ابرار کہتے ہیں کہ ’کبھی کبھی یہ لگتا تھا کہ یہ قید نہیں ہے، قبرستان ہے، شاید اسی لیے اسے زندان کہتے ہیں۔ جیسے ہم اپنے پیاروں کی قبروں پر فاتحہ پڑھ کر آتے ہیں ویسے ہی شاید ہمارے گھر والے ہم پر ملاقات کے وقت فاتحہ پڑھتے تھے۔ میری بیٹی رو رہی ہوتی تھی اور میں اس کے آنسو صاف نہیں کر سکتا تھا۔‘
اُدھر حسن کا دعویٰ ہے کہ جب اُن سے تفتیش کی جا رہی تھی تو وہ کہہ کچھ رہے تھے اور لکھا کچھ جا رہا تھا۔ ’میں انھیں کہہ رہا تھا کہ میں نے کچھ نہیں کیا اور ہم پڑھے لکھے ہیں تو تحریری طور پر اُن کی جانب سے فارم میں لکھا گیا کہ ہم نے سب کچھ کیا ہے۔‘
’میں اس کا (تفتیشی افسر) ہاتھ روک کے بول رہا ہوں کہ آپ جو لکھ رہے ہیں کہ میں نے جلاؤ گھیراؤ کیا ہے، میرے پاس ڈنڈا تھا، اور یہ کہ میں نے سب کچھ کیا ہے، جبکہ میں کہہ رہا ہوں کہ میں سٹوڈنٹ ہوں، میرا کیریئر ختم ہو جائے گا یہ نہ لکھیے۔ آگے سے مجھے کہنے لگے کہ یار چھوڑ یہ پاکستان ہے یہاں ایسے ہی چلتا ہے۔‘
تحریکِ انصاف کے ایک اور کارکن انتظار (فرضی نام) کے مطابق نو مئی کے کئی روز بعد انھیں اس لیے گرفتاری دینی پڑی کیونکہ پولیس نے اُن کے خاندان والوں کو ہراساں کرنا اور گرفتار کرنا شروع کر دیا تھا۔
’انھوں نے میرے گھر کا گیٹ توڑ دیا، میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ بعد میں جب انھوں نے میرے بہنوئی اور بھائی کو حراست میں لیا تو میں نے گرفتاری دینے کا فیصلہ کر لیا۔‘
قید میں اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں بات کرتے ہوئے انتظار کا دعویٰ تھا کہ ’ان کا ابتدا میں برتاؤ ایسا تھا جیسے ہم پاکستانی نہیں دہشت گرد ہیں۔ سِول لباس میں کچھ لوگ ماسک پہنے آئے اور پولیس نے مجھے ان کے حوالے کر دیا۔‘
’میں نے ان کو بتایا کہ میں نے صرف احتجاج کیا کوئی توڑ پھوڑ نہیں کی۔ انھوں نے مجھے مارا، اور مارتے ہی چلے گئے۔ جب میں بے ہوش ہونے لگا تو انھوں نے مجھے ایک کمرے میں بند کر دیا اور پھر پولیس کے حوالے کر دیا۔‘
ان دعوؤں پر جب علی ناصر رضوی سے بات کی گئی تو انھوں نے اس الزام کو مسترد کر دیا اور کہا ’یہ غلط ہے، سو فیصد غلط ہے۔ پولیس کا تحقیقاتی یونٹ اتنا مضبوط ہے اور پولیس سے بہتر کوئی تحقیقات کر نہیں سکتا۔ پولیس سے بہتر کیس فائل کوئی تیار نہیں کر سکتا۔ کیونکہ یہ کیس پولیس کا تھا تو اسے پولیس نے دیکھنا تھا اور پولیس نے ہی اس کیس کو دیکھا۔ یہ بالکل بے بنیاد الزامات ہیں۔‘
’انھوں نے تو مجھے مار دیا نہ، میں ایک پشتون ہوں میری ماں بہن کی عزت ہی تو سب کچھ ہے‘
جہاں ایک جانب پی ٹی آئی ورکرز زیرِ عتاب تھے وہیں پاکستان تحریکِ انصاف کے متعدد رہنماؤں کو بھی حراست میں لیے جانے کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ خود شہریار آفریدی کو 15 مئی کو اسلام آباد میں اُن کی رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا گیا۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا ’میں شادی شدہ آدمی ہوں، بیٹیوں والا ہوں۔ رات ڈیڑھ بجے آپ میرے گھر کا گیٹ پھلانگ کر آتے ہیں، دروازے توڑ رہے ہیں، میری بچیاں چیخ رہی ہیں، مجھے میرے بیڈروم سے کھینچ کر لے کر گئے اور یہ سب کون کر رہا تھا؟ پولیس۔ یعنی میرے گھر میں داخل ہونے والے پولیس والے تھے ان کے ساتھ سویلین لباس میں کچھ لوگ تھے، وہ کون تھے میں نہیں جانتا، میں ایک ذمہ دار شخص ہوں میں الزام تراشی پر یقین نہیں رکھتا۔‘
وہ اپنے بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’انھوں نے مجھے گھسیٹا تو میں نے ان سے کہا کہ مجھے چپل تو پہننے دیں، منھ ہاتھ تو دھونے دیں، لیکن انھوں نے مجھے گھسیٹا، چھوٹی سی گاڑی میں ڈالا اور میری چاروں طرف سکیورٹی اہلکار تھے۔‘
شہریار آفریدی خود سے زیادہ اپنے گھر والوں کے ساتھ روا رکھے گئے مبینہ ناروا سلوک پر افسردہ ہیں۔ ان کے مطابق ان کی اہلیہ، اہلیہ کی بہن اور ان کے بھائیوں کو بھی مختلف دورانیے کے لیے حراست میں لیا گیا۔
انھوں نے بہت جذباتی انداز میں کہا کہ ’انھوں نے تو مجھے مار دیا نہ، میں ایک پشتون ہوں قبائلی ہوں۔ میری ماں بہن کی عزت ہی تو سب کچھ ہے۔ مجھے آپ نے جو بھی سزا دینی ہے، مجھے مار دیں، الٹا لٹکا دیں، پھانسی دے دیں، ٹکڑے کر دیں۔ لیکن میری بیوی بیٹیوں کا کیا قصور ہے؟‘
‘میری بیوی کو بھی گرفتار کیا گیا، میری سالی کو یہ کہہ کر گرفتار کیا گیا کہ یہ میری دوسری بیوی ہیں۔ میری 17 سالہ بیٹی کو بھی گرفتار کرنے لگے تھے، پھر میری بیوی نے شور مچایا کہ یہ کیا کر رہے ہیں۔‘
وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے قدرے جذباتی انداز میں کہتے ہیں کہ ’جو سب سے زیادہ مجھے تکلیف ہوئی وہ تب تھی جب میں اور میری اہلیہ اڈیالہ جیل میں تھے اور ہر قسم کے لوگ مجھے اور اسے دیکھ رہے تھے تو میں یہی دعا کر رہا تھا کہ اللہ زمین کھل جائے اور میں اس میں چلا جاؤں۔‘
کریک ڈاؤن کے دوران مبینہ بدسلوکی، چادر اور چار دیواری کے تقدس کی پامالی اور قانون کو پیشِ نظر نہ رکھنے کے الزامات پر علی ناصر رضوی نے کہا ہے کہ ’یہ وہ بے بنیاد الزامات ہیں جن کا کوئی سر ہے نہ پیر۔ جتنے بھی لوگ ہیں جن کے خلاف کیسز چل رہے ہیں، جنھوں نے بلوہ کیا اور پولیس والوں کو زخمی کیا صرف اُن کے بارے میں تحقیقات ہوئیں۔‘
’یہ صرف ایک لاہور کی بات نہیں تھی، اسلام آباد کراچی یہ ہر جگہ تھا۔ اس دوران جب حالات معمول پر لانے کے لیے لوگوں کو آہنی ہاتھوں سے ضرور نمٹا جا رہا تھا لیکن پولیس جیسی پروفیشنل فورسز قانون اور ضابطے کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتیں۔‘
انھی الزامات کے بارے میں جب اُس وقت کے وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ سے سوال کیا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ ’جو بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیں جب انھیں کہا جاتا ہے کہ کسی مقدمے میں وہ فوٹیج کی مدد سے لوگوں کی شناخت کریں اور اس کی مدد سے انھیں حراست میں لیں تو انھیں حکومت یا انتظامیہ کی جانب سے کوئی یہ نہیں کہتا کہ آپ غلط لوگوں کی شناخت کریں یا بےگناہوں کو بیچ میں ڈال دیں۔‘
’نہ کوئی یہ کہتا ہے کہ جب آپ انھیں گرفتار کرنے جائیں تو چادر اور چار دیواری کا تحفظ نہ کریں یا اگر کسی کے گھر جاتے ہیں تو خواتین سے بدتمیزی کریں، ایسا تو حکومت کی سطح پر کسی نے نہیں کہا بلکہ ہم نے اس کے برعکس بات کی ہے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’معاملہ یہ ہے کہ جب آپ فورس کو کسی کام پر بھیجتے ہیں تو آپ ہر آدمی کے ساتھ بندھے تو نہیں ہوتے۔ لوگ پھر مختلف وجوہات کی بنیاد پر، ذاتی عناد کی بنیاد پر، پسند ناپسند کی بنیاد پر، لالچ کی بنیاد پر کسی بے گناہ کو پکڑ سکتے ہیں اور کسی گناہ گار کو چھوڑ سکتے ہیں اور کسی کو گرفتار کرتے وقت قانونی تقاضوں کو پامال کر سکتے ہیں۔ اس قسم کی شکایات ضرور پیدا ہوئی ہیں، اور جب بھی ایسا واقعہ ہماری حکومت میں ہمارے نوٹس میں لایا گیا تو ہم نے کارروائی کی ہے۔‘
’فوج پر حملہ آور انتشاری ٹولے سے کوئی بات چیت نہیں کرے گا‘
انسانی حقوق کے اداروں اور تجزیہ کاروں کا بھی ماننا ہے کہ نو مئی کے بعد ہونے والے احتساب کے عمل میں انسانی حقوق کو نظر انداز کیا گیا اور اس معاملے پر پاکستانی فوج کے ترجمان نے حال ہی میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ دیگر ممالک میں اس طرز کے واقعات کے بعد اس سے بھی کہیں زیادہ سخت ردعمل سامنے آتا رہا ہے اور ’نو مئی کے سہولت کار انسانی حقوق کی آڑ میں احتساب کے عمل سے نہیں بچ سکتے۔‘
نو مئی کے پرتشدد واقعات کے بعد تحریکِ انصاف کے کارکنوں اور رہنماؤں کے ساتھ جو ہوا اس کا ایک ’عوامی‘ ردعمل ہمیں آٹھ فروری 2024 کے انتخابات کے نتائج میں بھی دیکھنے کو ملا جب تمام اندازوں کے برعکس تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار بڑی تعداد میں آزاد حیثیت میں کامیاب ہو کر پارلیمان میں پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
اس الیکشن میں ن لیگ کے متعدد اہم رہنماؤں کو پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا جن میں فیصل آباد سے رانا ثنا اللہ بھی شامل تھے۔
رانا ثنا اللہ سمجھتے ہیں کہ اِس کی ایک بڑی وجہ نو مئی کے واقعات کے ذمہ داران کے خلاف مقدمات کو منطقی انجام تک نہ پہنچایا جانا ہے۔
’نو مئی کے ملزمان کا ٹرائل الیکشن سے پہلے مکمل ہو جانا چاہیے تھا۔ اس تاخیر کا ہمیں الیکشن کے دوران نقصان ہوا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ان مقدمات کو جلدی نمٹانا چاہیے تھا، اسے اتنا لمبا نہیں کھینچنا چاہیے تھا، اس کے منفی اثرات ہوئے۔ ہماری عدلیہ کے نظام میں بہت بہتری کی ضرورت ہے۔ میں اُن کی نیت پر شک نہیں کروں گا لیکن اس معاملے میں ہماری پراسیکیوشن سروس اور لیگل ٹیمیں یہ ذمہ داری وقت پر پوری نہیں کر سکیں۔‘
پاکستانی فوج بھی نو مئی کے واقعات کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کے معاملے میں کچھ ایسا ہی موقف رکھتی ہے۔
رواں ہفتے ایک پریس کانفرنس میں نو مئی کے مقدمات پر بات کرتے ہوئے پاکستانی افواج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف کا کہنا تھا کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد اور منصوبہ سازوں کو آئین و قانون کے مطابق سزا دینی ہو گی۔
انھوں نے کہا ’کسی بھی ملک میں اس کی فوج پر حملہ کروایا جائے، اس کے شہدا کی علامات کی تضحیک کی جائے اور اس کے بانی کو گھر (جناح ہاؤس) کو جلایا جائے۔ وہاں عوام اور افواج کے درمیان نفرت پھیلائی جائے۔ (اس سے) نظام انصاف پر سوال کھڑا ہو جاتا ہے، اگر یہ کرنے اور کروانے والوں کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا جائے۔‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر پاکستان کے نظام انصاف پر یقین قائم رکھنا ہے اور جزا اور سزا کا نظام جس پر قدرت کا نظام چلتا ہے، اگر اس پر یقین رکھنا ہے تو نو مئی کے ملزمان، اسے کرنے اور کروانے والوں کو آئین و قانون کے مطابق سزا دینی ہو گی۔‘
خیال رہے کہ نو مئی کے واقعات سے جڑے مقدمات میں 103 افراد کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے گئے ہیں جبکہ ان کے علاوہ بڑی تعداد میں مقدمات سول عدالتوں میں بھی زیرِ سماعت ہیں۔ ان ملزمان میں سے چند کو سزائیں سنائی جا چکی ہیں جبکہ کچھ ضمانت پر رہا ہیں۔
انتظار اور حسن جیسے لوگ بھی ضمانت پر رہائی حاصل کر کے اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں مگر ان کے بقول جب وہ باہر آئے تو اب ایک مختلف زندگی ان کا انتظار کر رہی تھی۔
انتظار کہتے ہیں کہ ‘میں جیل سے باہر آیا تو ہوں لیکن مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں اپنے گھر آ گیا ہوں۔ ابتدائی پانچ چھ دن تو اگر سوتا تھا تو ذہن میں وہی سب کچھ چلتا تھا جو ہمارے ساتھ ظلم ہو رہے ہیں۔‘
اُدھر حسن سمجھتے ہیں کہ اب انھیں اپنی زندگی صفر سے شروع کرنی پڑے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ قید کے دوران جن لوگوں (تحریک انصاف کے حامی و کارکن) کے ساتھ ’مشکل‘ وقت گزرا وہی اب ان کا خاندان ہیں اور ’انشااللہ ایک دن خان صاحب باہر آئیں گے اور سب کچھ معمول پر آ جائے گا۔‘
تحریکِ انصاف کے رہنما شہریار آفریدی کو بھی رہائی مل گئی ہے اور وہ اب علی الاعلان یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ اُن کی جماعت ایک بار پھر ’اسٹیبلشمنٹ‘ سے بات کرنا چاہتی ہے اور موجودہ حکومت سے کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہم بات کریں گے آرمی چیف سے، ڈی جی آئی ایس آئی سے، ڈی جی ایم آئی سے کہ ہم پاکستانی ہیں اس ملک کے نظام کو ہم سب نے مل کر چلانا ہے۔ اس کے اداروں کو ہم نے بنانا ہے۔‘
شہریار آفریدی کی خواہش اپنی جگہ مگر فوج کی جانب سے سات مئی 2024 کو کی گئی پریس کانفرنس میں ترجمان آئی ایس پی آر نے واضح کر دیا ہے کہ فوج ایسی کسی بات چیت میں دلچسپی نہیں رکھتی۔
ترجمان نے کہا کہ ’بات چیت سیاسی پارٹیوں کو زیب دیتی ہے۔ فوج یا ادارے بات چیت کریں یہ بالکل مناسب نہیں۔‘
انھوں نے نو مئی کے واقعات کے ذمہ داران کو ’انتشاری ٹولہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر کوئی سیاسی سوچ یا ٹولہ اپنی ہی فوج پر حملہ آور ہو تو اس سے کوئی بات چیت نہیں کرے گا۔ ایسے انتشاری ٹولے کے لیے صرف ایک راستہ ہے کہ وہ قوم کے سامنے معافی مانگے اور وعدہ کرے کہ وہ نفرت کی سیاست چھوڑ کر تعمیری سیاست میں حصہ لے گا۔‘
تجزیہ کاروں کے مطابق تحریک انصاف کی لیڈرشپ اور پارٹی سے متعلق جو سخت مؤقف ایک سال پہلے اپنایا گیا جس میں نو مئی کے واقعات کو ’فوج پر حملہ‘ قرار دیا گیا تھا، آج ایک سال بعد بھی فوج کا یہ بیان کہ ’انتشاری ٹولے سے مذاکرات نہیں ہو سکتے‘ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی فوج کی پی ٹی آئی سے متعلق مؤقف میں تبدیلی نہیں آئی۔
’اگر ریاست خاموش رہی تو ہم آگے نہیں بڑھ سکتے‘
نو مئی کے واقعے کے ایک سال بعد سیاسی منظر نامے پر بھی بہت کچھ بدل چکا ہے لیکن تاحال ان واقعات کی تحقیقات کے لیے کوئی جوڈیشل کمیشن قائم نہیں کیا گیا۔ تحریک انصاف کے چند رہنما اور کارکن یا تو ابھی بھی جیلوں میں ہیں یا روپوشی کی زندگیاں گزار رہے ہیں جبکہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کو متعدد کیسوں میں سزائیں بھی دی جا چکی ہیں اور اپنے خلاف باقی مقدمات وہ اڈیالہ جیل میں ہی بھگت رہے ہیں۔
ایسے میں الیکشن کے بعد نئی حکومت کے قیام کے بعد ایک سیاسی ڈیڈ لاک کی فضا ہے، تو اب صورتحال آگے کیسے بڑھے گی۔
اس بارے میں نو مئی کے واقعات پر رپورٹ کرنے والی صحافی بینظیر شاہ کہتی ہیں کہ ’مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ ریاست اس معاملے پر صرف اپنا غصہ نکال رہی ہے، جیسے انتقام لینے کی کوشش کر رہی ہو بجائے یہ کہ اس کی تحقیقات ہوں اور قانونی تقاضے پورے ہوں۔‘
’آپ یہ بھی دیکھیں کہ اس پورے معاملے میں انسانی حقوق کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’اس کا آسان سا حل یہ ہے کہ آپ تحقیقات کروا لیں۔ اس حوالے سے شفاف تحقیقات ہونی چاہییں، تاکہ سب کو پتا چلے کہ اصل میں کون ملوث تھا اور کس نے اس میں کردار ادا کیا۔‘
’ہم تب تک آگے نہیں بڑھ پائیں گے جب یہ نہیں ہو جاتا۔ جب تک آپ ان سوالوں کے جواب نہیں دیں گے جن کا پچھلے ایک سال سے جواب نہیں مل رہا، اگر ریاست خاموش رہے گی تو ہم آگے نہیں بڑھ سکتے اور آئندہ کے لائحہ عمل کی بات ہی نہیں کر سکتے۔‘
صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ’ہماری بدقسمتی ہے کہ کسی بھی واقعے سے جمہوری سپیس بڑھتی نہیں ہے، ہر واقعے سے جمہوری سپیس کم ہو جاتی ہے۔ پی ٹی آئی کے لیے میرا اس وقت سے یہی پیغام ہے کہ سیاسی جماعتوں کو یہ طریقہ کار سوٹ ہی نہیں کرتا۔ کیونکہ یہ طاقت کا میدان ہے۔‘
’دوسرا میرا خیال ہے کہ نو مئی میں ملوث افراد کو معاف کر دینا چاہیے۔ انھیں سزائیں مل گئیں، انھوں نے سبق سیکھ لیا لیکن جو ماسٹر مائنڈ تھے انھیں سزائیں دینی چاہیے اور جو مقتدر قوتیں ہیں انھیں دل کھلا رکھنا چاہیے۔‘