سائنس

جنوبی کوریا میں ’خوشی کی فیکٹری‘ جہاں آدم بیزار نوجوانوں کے والدین اپنی مرضی سے قید تنہائی کاٹ رہے ہیں

Share

’ہیپی نیس فیکٹری‘ یعنی خوشی کی فیکٹری نامی جگہ میں ہر چھوٹے سے کمرے کا بیرونی دنیا سے رابطہ صرف دروازے میں موجود وہ چھوٹا سا سوراخ ہے جس سے کھانا اندر پہنچایا جاتا ہے۔

ان جیل کی کوٹھڑی نما کمروں میں فون یا لیپ ٹاپ رکھنے کی اجازت نہیں۔ ان کمروں میں مقیم افراد کے پاس دیواروں کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔

یہ افراد جیل ہی کی طرح کے نیلے رنگ کے کپڑے زیب تن کیے نظر آ سکتے ہیں لیکن وہ قیدی نہیں ہیں۔ وہ جنوبی کوریا کے اس مرکز میں اپنی مرضی سے تنہائی کا تجربہ کرنے آئے ہیں۔

ان میں سے اکثریت ایسے والدین کی ہے جن کا ایک بچہ معاشرے سے مکمل طور پر کٹ چکا ہے اور اب یہ افراد یہ سیکھنا چاہتے ہیں کہ دنیا سے کٹ کر جینا کیسا محسوس ہوتا ہے۔

قید تنہائی

ان والدین کے ایسے بچے، جو معاشرے سے کٹ کر جیتے ہیں، ’ہیکیکوموری‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ یہ لفظ 1990 کی دہائی میں جاپان میں نوجوانوں میں تنہائی کے رجحان کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہونا شروع ہوا تھا۔

گزشتہ سال جنوبی کوریا کی وزارت صحت نے ایک سروے کیا تھا جس کے مطابق 19 سے 34سال کی عمر کے 15 ہزار افراد سے بات چیت کی گئی اور یہ جانا گیا کہ ان میں سے پانچ فیصد اپنی مرضی سے تنہائی کو چن رہے تھے۔

اگر اس سروے کے نتائج کو جنوبی کوریا کی آبادی کے تناسب کے حساب سے دیکھا جائے تو اس کا مطلب ہو گا کہ تقریبا پانچ لاکھ 40 ہزار لوگ ایسی ہی صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں۔

رواں سال اپریل کے ماہ سے والدین غیر سرکاری تنظیموں کوریا یوتھ فاؤنڈیشن اور بلیو ویل ریکوری سینٹر کے زیر انتظام 13 ہفتوں کے تعلیمی پروگرام میں شرکت کر رہے ہیں جس کا مقصد یہ سکھانا ہے کہ تنہائی پسند بچوں سے کیسے بات چیت کی جائے۔

اسی ہروگرام کے تحت ایک مرکز میں والدین ایسے کمروں میں وقت گزارتے ہیں جو قید تنہائی کے حالات پر مبنی ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ اس تنہائی سے والدین اپنے بچوں کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکیں گے۔

’جذباتی قید‘

جن ینگ کے بیٹے نے خود کو تین سال سے کمرے میں تنہا کیا ہوا ہے۔ لیکن خود تنہائی میں وقت گزارنے کے بعد وہ اپنے 24 سالہ بیٹے کی جذباتی قید کو بہتر سمجھ سکتی ہیں۔

’میں سوچتی رہتی تھی کہ میں نے کیا غلط کیا ہے اور یہ سوچ تکلیف دہ تھی۔ لیکن جب میں نے اپنے طرز عمل کے بارے میں سوچنا شروع کیا تو مجھے کچھ باتیں واضح ہوئیں۔‘

جنوبی کوریا

بات چیت میں ہچکچاہٹ

50 سالہ جن کہتی ہیں کہ ان کا بیٹا ہمیشہ سے بہت ٹیلنٹڈ تھا اور ان کے شوہر اور خود انھیں بھی اپنے بیٹے سے بہت امیدیں تھیں۔

لیکن ان کا بیٹا اکثر بیمار رہتا تھا، اسے دوست بنانے میں مشکل پیش آتی اور پھر اسے خوراک کی ایک بیماری لاحق ہو گئی جس کی وجہ سے اس کا سکول جانا ہی مشکل ہو گیا۔

جب ان کے بیٹے نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو کچھ عرصے تک سب ٹھیک چلتا رہا لیکن پھر ایک دن وہ مکمل طور پر الگ تھلگ ہو گیا۔

اپنے بیٹے کو کمرے میں بند دیکھ کر جن کا دل ٹوٹ سا گیا کیوں کہ وہ نہ تو ٹھیک سے کھانا کھاتا اور نہ ہی صفائی کا خیال رکھتا۔

اگرچہ خاندان اور دوستوں سے تعلقات قائم کرنے میں مشکلات کے ساتھ ساتھ کسی بہت اعلی یونیورسٹی میں داخلہ لینے میں ناکامی نے ان کے بیٹے کو متاثر کیا ہو، وہ ان سے اس معاملے پر بات نہیں کرتا۔

جب جن خوشی کی فیکٹری نامی جگہ پہنچیں تو انھوں نے دیگر تنہائی پسند نوجوانوں کی تحریریں پڑھیں۔

’ان کو پڑھ کر مجھے علم ہوا کہ اچھا وہ خود کو خاموشی کی مدد سے محفوظ رکھ رہا ہے کیوں کہ کوئی اسے سمجھ نہیں پاتا۔‘

پارک ہان سل اپنے 26 سالہ بیٹے کی وجہ سے اس مقام پر آئیں جس کو تنہائی اختیار کیے سات سال ہو چکے ہیں۔

ان کے بیٹے نے کئی بار گھر چھوڑا لیکن اب وہ اپنے کمرے سے کم ہی باہر نکلتا ہے۔ پارک نے کئی ڈاکٹروں سے بھی مشورہ کیا لیکن ان کے بیٹے نے ذہنی صحت کی کوئی بھی دوا لینے سے انکار کر دیا۔ اسے ویڈیو گیم کھیلنے کا جنون ہو چکا تھا۔

ذاتی تعلقات

پارک نے بھی اس پروگرام کی مدد سے اپنے بیٹے کی ذہنی کیفیت اور احساسات کو بہتر طور پر سمجھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے احساس ہوا کہ اسے کسی مخصوص سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کیے بغیر اس کی زندگی کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔‘

جنوبی کوریا کی وزارت صحت کی تحقیق میں تجویز کیا گیا کہ تنہائی پسند نوجوانوں کے ایسے طرز زندگی میں بہت سے عوامل کارفرما ہو سکتے ہیں۔

ان میں سب سے عام وجوہات نوکری حاصل کرنے میں مشکلات، ذاتی تعلقات میں مشکلات، خاندانی مسائل اور صحت کے مسائل شامل ہیں۔

واضح رہے کہ جنوبی کوریا ان ممالک میں شامل ہے جہاں دنیا میں سب سے زیادہ خودکشی کی شرح ہے اور گزشتہ سال حکومت نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے پانچ سالہ منصوبے کا اعلان کیا تھا جس کے تحت 20 سے 34 سالہ افراد کا سرکاری خرچ پر ہر دو سال بعد طبی معائنہ کیا جائے گا۔

جاپان، جہاں 1990 میں نوجوانوں کی پہلی لہر نے تنہائی اختیار کرنے کا آغاز کیا تھا، میں ایسے افراد اپنے بوڑھے والدین پر منحصر ہو کر رہ گئے تھے۔

جنوبی کوریا

صرف اپنی معمولی پینشن پر اولاد کی مدد کرنے کی کوشش میں کئی والدین غربت اور ڈپریشن کا شکار ہو گئے۔

کیونگ ہی یونیورسٹی کے شعبہ عمرانیات سے منسلک پروفیسر جیونگ گو وون کہتے ہیں کہ کورین معاشرے میں یہ توقع کی جاتی ہے کہ نوجوان اپنے تمام سنگِ میل وقت پر مکمل کر لیں اور ان توقعات کے سبب نوجوان افراد پریشانی کا شکار ہوجاتے ہیں، وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب معاشی بدحالی اور بےروزگاری عروج پر ہے۔

یہ سوچ کہ بچوں کی کامیابی دراصل والدین کی کامیابی ہے اس صورتحال کو مزید گمبھیر بنا دیتی ہے۔

دوسری جانب کچھ والدین اپنے بچوں کو پیش آنے والی پریشانیوں کو اپنی ناکامی کے طور پر دیکھتے ہیں اور خود ترسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

پروفیسر جیونگ کہتی ہیں کہ ’کوریا میں والدین اکثر اپنی محبت حقیقت پسندانہ طریقے سے ظاہر کرتے ہیں ناکہ زبانی الفاظ سے۔‘

’والدین محنت کر کے اپنے بچوں کی ٹیوشن فیس بھرتے ہیں اور یہ اس کلچر کو ظاہر کرتا ہے جہاں والدین کی ذمہ داریوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔‘

جنوبی کوریا
،تصویر کا کیپشنکورین معاشرے میں یہ توقع کی جاتی ہے کہ نوجوان اپنے تمام سنگِ میل وقت پر مکمل کر لیں

محنت کا یہی کلچر 21 صدی میں جنوبی کوریا کی اقتصادی ترقی کی وجہ بنا تھا اور یہ ملک دنیا کی ایک بڑی معاشی طاقت بن کر اُبھرا تھا۔ تاہم ’ورلڈ ایکوالیٹی ڈیٹا بیس‘ کے مطابق پچھلی تین دہائیوں میں ملک کی معیشت خراب ہو گئی ہے۔

بلیو وہیل ریکوری سینٹر کی ڈائریکٹر کِم اوکے رین کہتے ہیں کہ نوجوان لوگوں کا خود کو تنہائی کا شکار کر لینے کا رجحان ’خاندانی مسئلے‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اسی وجہ سے ان کے والدین بھی خود کو دنیا سے الگ کر لیتے ہیں اور وہ اپنی صورتحال یا مسائل کا ذکر اپنا خاندان والوں سے بھی نہیں کرتے۔

کِم اوکے رین کہتی ہیں کہ ’والدین اس مسئلے پر کُھل کر بات نہیں کر پاتے اور خود کو بھی تنہائی کا شکار کر لیتے ہیں۔ وہ اکثر خاندانی تقریبات میں بھی شرکت کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔‘

جو والدین ہیپی نیس فیکٹری میں آئے تھے وہ اب بھی بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے بچے واپس نارمل زندگی کی طرف آ جائیں۔

جب جِن سے پوچھا گیا کہ تنہائی سے باہر آنے والے بیٹے کو دیکھ کر وہ کیا کہیں گی تو ان کا بھرّائی ہوئی آواز میں کہنا تھا کہ: ’تم بہت مصیبتوں سے گزر چکے ہو، وہ مشکل تھا، ہے نہ؟ میں تمھارا خیال رکھوں گی۔‘