صحت

دنیا کا پہلا ملک جو بچوں میں مونگ پھلی سے ہونے والی ’جان لیوا‘ الرجی کا علاج کرے گا

Share

گذشتہ کئی سال میں مختلف کھانوں سے الرجی کے امراض میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور مونگ پھلی سے الرجی ان میں سے مہلک ترین ہے لیکن اب دنیا میں پہلی بار بچوں کو مونگ پھلی سے ہونے والی الرجی کا علاج مہیا کیا جا رہا ہے اور اس کا آغاز آسٹریلیا میں کیا گیا ہے۔

ابتدائی طور پر آسٹریلیا میں بچوں کے دس ہسپتالوں میں اس علاج کا آغاز کیا جا رہا ہے، جس کے ذریعے بچوں کی قوت مدافعت بڑھانے کے لیے انھیں کم از کم دو سال تک روزانہ مونگ پھلی کا پاؤڈر کھلایا جائے گا۔

پاؤڈر کی مقدار آہستہ آہستہ بڑھائی جائے گی تاکہ بچوں کی مونگ پھلی سے حساسیت میں کمی آئے۔ اس عمل کو اورل امیونوتھیراپی (oral immunotherapy) کہتے ہیں۔

’اورل امیونوتھیراپی‘ دنیا بھر میں کئی طبی تجربات کا حصہ ہے اور الرجی پر کام کرنے والے کچھ اداروں میں یہ علاج میسر ہے تاہم یہ پہلی بار ہے کہ کسی ملک میں مونگ پھلی سے الرجی کے خلاف ’اورل امیونوتھیراپی‘ کو قومی سطح پر متعارف کرایا گیا ہو۔

آسٹریلیا جسے ’الرجی کا عالمی دارالحکومت‘ بھی کہا جاتا ہے، میں ہر دس بچوں میں سے ایک کو کھانے کی کسی چیز سے الرجی ہوتی ہے اور اس میں مونگ پھلی سے ہونے والی الرجی سب سے زیادہ جان لیوا اور تیزی سے بڑھنے والی الرجی ہے۔

آسٹریلیا میں 12 ماہ کی عمر کے بچوں میں سے تین فیصد کو مونگ پھلی سے الرجی ہوتی ہے اور ان میں سے بہت کم ایسے ہوتے ہیں جن کی الرجی وقت کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے۔

سکول جانے کی عمر کے بچوں میں سب سے زیادہ مونگ پھلی سے الرجی پائی جاتی ہے۔

آسٹریلیا کی اسسٹنٹ وزیر صحت گیڈ کرنی کے مطابق ’ہم سب چاہتے تھے کہ کوئی ایسا علاج آئے جس سے اس الرجی کو زور پکڑنے سے روکا جا سکے۔‘

آسٹریلیا میں ’اورل امیونوتھیراپی‘ کا یہ پروگرام مفت فراہم کیا جائے گا۔ یہ علاج صرف ان 12 ماہ کے بچوں کو میسر ہو گا جو ان دس ہسپتالوں میں پہلے سے مونگ پھلی سے الرجی کی وجہ سے زیر علاج ہیں۔

پروگرام کے سربراہ ٹِم بریٹگ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بچوں کو کس وقت کتنی مقدار میں مونگ پھلی پاؤڈر دینا ہے اس کا بہت احتیاط سے حساب لگایا جائے گا تاکہ وہ پاؤڈر کی اس مقدار تک پہنچ جائیں جسے دو سال تک بر قرار رکھا جا سکے۔‘

کچھ بچوں میں مضر اثرات سامنے آنے کا بھی خدشہ ہے جس میں مونگ پھلی سے الرجی شامل ہے تاہم اس طبی تجربے میں جو بچے شامل ہیں ان میں الرجی کی شدت قدرے کم ہے۔

ڈاکٹر ٹِم بریٹگ نے مزید بتایا کہ اس پروگرام کا مقصد بچوں میں مونگ پھلی سے ہونے والی الرجی کے خطرات کو کم کرنا اور ان کی قوت برداشت کو بڑھانا ہے۔

ڈاکٹر ٹِم نے بتایا کہ ’کچھ بچوں میں برداشت اتنی بڑھ جائے گی کہ ان کی خوراک میں مونگ پھلی شامل کی جا سکے اور کچھ بچوں میں اس طرح ہو گا کہ اگر وہ غلطی سے مونگ پھلی کھا لیں تو انھیں الرجی نہیں ہو گی۔‘

آسٹریلیا کے نیشنل الرجی سینٹر کی ڈائریکٹر پروفیسر کرسٹن پیڑٹ نے بتایا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ الرجی کی وجہ سے بچے بیمار نہ ہوں تاکہ زیادہ سے زیادہ بچے اس جان لیوا الرجی کے خوف کے بغیر سکول جا سکیں۔‘

آسٹریلیا میں الرجی پر کام کرنے والا یہ قومی ادارہ اس علاج کی جانچ کرے گا کہ یہ مونگ پھلی سے الرجی کے خاتمے میں کتنا موثر اور بچوں کے لیے کتنا محفوظ ہے تاکہ اسے مزید ہسپتالوں میں متعارف کروایا جا سکے۔

علاج کے اختتام میں فوڈ الرجی ٹیسٹ بھی کیا جائے گا تاکہ پتا چل سکے کہ علاج کس حد تک کامیاب رہا۔

تاہم ڈاکٹرز نے خبردار کیا ہے کہ والدین ’اورل امیونوتھیراپی‘ گھر پر نہ کریں۔ ڈاکٹر ٹِم بریٹگ نے بتایا کہ یہ پروگرام ہر کسی کے لیے قطعی مفید نہیں۔