برطانیہ کے پانچ آسیب زدہ مقامات اور سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی کہانیاں: ’اگر آپ بہادر ہیں تو یہاں ایک رات بھی گزار سکتے ہیں‘
دنیا کے ہر ملک میں اپنی اپنی بھوت پریت کی کہانیاں اور اُس سے منسلک افسانوی کردار موجود ہوتے ہیں۔ لیکن برطانیہ، جہاں سے غیرمرئی واقعات اور کہانیوں کی باقاعدہ تفتیش کا آغاز ہوا تھا، شاید زمین پر سب سے زیادہ آسیب زدہ ملک ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔
برطانیہ دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جہاں قدیم قلعوں، محلات اور شراب خانوں کی کمی نہیں ہے۔ آج کے دور میں بھی یہاں بہت سے ایسی قدیم جگہیں موجود ہیں جو آسیب زدہ مشہور ہیں اور جہاں جا کر آپ کھا، پی سکتے ہیں اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ بہت بہادر ہیں تو آپ یہاں ایک رات بسر بھی کر سکتے ہیں۔
ذیل میں ایسے ہی پانچ بڑے آسیب زدہ مقامات کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔
سکریڈ اِن، ویلز
یہ ویلز کا قدیم ترین شراب خانہ ہے جس کی تاریخ 900 برسوں پر محیط ہے۔ ’سکریڈ اِن‘ نامی شراب خانہ بریکون بیکنز نیشنل پارک کے مشرقی کنارے پر واقع ہے۔
اگر آپ یہاں کے مقامی افراد کی باتوں پر یقین کریں تو شاید یہ برطانیہ کی سب سے آسیب زدہ جگہ ہے۔
اس عمارت کے آسیب زدہ ہونے کی کہانیوں کو اس عمارت کے ماضی سے جوڑا جاتا ہے جب یہاں ایک عدالت اور جیل ہوتی تھی اور جہاں سینکڑوں قیدیوں کو لکڑی کے شہتیر سے لٹکا کر پھانسی دی جاتی تھی۔
لکڑی کے یہ شہتیر اب بھی اس شراب خانے کے عقبی حصے میں موجود ہیں۔
صدیوں سے سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی کہانیوں میں اس عمارت میں اُڑتے شیشوں، عمارت کے بالائی کمروں میں گونجنے والی خوفناک ہنسی اور عمارت کے درجہ حرارت میں اچانک کمی کی بات کی جاتی ہے۔
اس عمارت میں ہر ماہ میں کئی مرتبہ ’گھوسٹ ایوننگز‘ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ آپ یہاں موجود ایک گیسٹ روم میں بھی ٹھہر سکتے ہیں جہاں کے کمرے انتہائی روایتی اور قدیم ہیں، جہاں پتھر کے چولہے، آتش دان اور گھر کا پکا ہوا کھانا ملتا ہے۔
چوئنگہیم کیسل (قلعہ)
دیہی نارتھمبرلینڈ کے دور دراز علاقے میں ایک جگہ ’چوئنگہیم‘ ہے، جسے برطانیہ میں سب سے زیادہ آسیب زدہ قلعہ قرار دیا جاتا ہے۔
12ویں صدی میں یہ قلعہ ایک خانقاہ ہوا کرتا تھا جو متعدد مواقع پر سکاٹ لینڈ سے آنے والے حملہ آوروں کے نشانے پر آیا۔
اس قلعے سے سکاٹ لینڈ کی سرحد بمشکل 15 میل دور ہے۔ ابتدائی طور پر یہ جگہ ایک خانقاہ تھی تاہم سنہ 1344 میں اس کے گرد ایک قلعہ بنا دیا گیا کیونکہ یہ شمال کی طرف جانے والی برطانوی افواج کے لیے حکمت عملی کے لحاظ سے اہم تھا۔
سنہ 1298 میں کنگ ایڈورڈ اول بھی ایک جنگی مہم پر پہنچنے سے قبل یہاں ٹھہرے تھے۔
قرونِ وسطی کے پورے دور میں چوئنگہیم میں بہت سے قیدی لائے گئے، اور اُن قیدیوں میں سے سب سے بدقسمت قیدی وہ تھے جنھیں ’جان سیج‘ نامی ایک شخص کی نگرانی میں یہاں رکھا گیا۔
جان سیج کی شہرت شدید تشدد کرنے والے جیلر کے طور پر تھی اور انھیں عرف عام میں ’بچر آف دی سکاٹس‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ آج بھی اس قلعے کے تہہ خانوں میں اُن آلات اور ڈیوائس کی نقلیں (کاپیاں) موجود ہیں جنھیں جان سیج قیدیوں کو خوفناک اذیت دینے کے لیے استعمال کرتے تھے۔
آپ اس قلعے میں جا سکتے ہیں اور یہاں آپ کو دورہ کروانے والے آپ کو اس قلعے کی راہداریوں میں بھٹکنے والی بدروحوں کی کہانیاں سناتے ہیں، خاص طور پر ’بلیو بوائے‘ کی کہانی یعنی ایک بچے کی روح جو ایک راہداری میں موجود ہے یا ایک عورت جو رات کے اوقات میں قلعے کے صحن میں پھرتی ہے اور قریب سے گزرنے والوں سے پانی بھی مانگتی ہے۔
وٹبی، نارتھ یارکشائر
’ڈریکولا‘ نامی ناول کے مصنف برام سٹوکر آئرلینڈ سے تعلق رکھتے تھے۔ مگر آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے اس مصنف کو ڈریکولا کا کردار لکھنے میں جس جگہ نے ترغیب دی وہ برطانیہ کا ساحلی قصبہ وٹبی تھا۔
ساتویں صدی میں تعمیر کردہ ’وٹبی ایبی‘ نامی عمارت سے زیادہ حیرت انگیز عمارت کا تصور کرنا تھوڑا مشکل ہے۔ اس عمارت کی باقیات کھنڈرات کی صورت میں نیم ٹوٹی چٹان کے اوپر موجود ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ابتدا میں یہ بھی ایک خانقاہ تھا اور اس کے بانی سینٹ ہلدا کا بھوت آج بھی یہاں موجود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کونسٹینس ڈی بیورلی نامی راہبہ کی روح بھی یہاں موجود ہے جنھوں نے ’پاکدامن‘ رہنے کا اپنا عہد توڑا جس کی پاداش میں انھیں اس عمارت کی دیواروں میں چنوا دیا گیا تھا۔
اس عمارت کے نیچے موجود ساحل وہ جگہ ہے جس کا انتخاب برام سٹوکر نے ’کاؤنٹ ڈریکولا‘ کا کردار متعارف کروانے کے لیے کیا۔
اگر آپ ہارر پسند کرتے ہیں تو یہاں آنے کا بہترین وقت وہ ہے جب ’وٹبی گوتھ ویک اینڈ‘ منایا جاتا ہے جس میں گوتھ ثقافت کو سیلیبریٹ کیا جاتا ہے، سال میں دو مرتبہ یعنی اپریل کے اختتام اور نومبر کے آغاز پر۔
گلوسسٹر شائر کا قدیم رَیم سرائے
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ گلوسسٹر شائر میں ’اینشیئنٹ رَیم اِن‘ نامی ایک پب یعنی شراب خانہ ہے جو کہ برطانیہ کے سب سے زیادہ آسیب زدہ مقامات میں سے ایک ہے۔
یہ سرائے بہت پرانی ہے۔ یہ آج سے تقریباً سوا پانچ سو سال قبل سنہ 1492 کی تعمیر کی گئی تھی اور آج بھی لگ بھگ ویسی ہی نظر آتی ہے۔
یہ ایک بوسیدہ سی عمارت ہے جو اپنے ہی بوجھ تلے دبی ہوئی معلوم ہوتی ہے، جس پر سبزے اور عشق پیچاں کی بیلیں پھیلی ہوئی ہیں۔
اس عمارت میں لکڑی کا استعمال بکثرت ہوا ہے اور وقت کے ساتھ اس پر شکست و ریخت کے آثار نظر آتے ہیں۔ اس کو دیکھ کر ہی اس کی بوسیدگی اور ایک قسم کی آسیب زدگی کا احساس ہوتا ہے کہ آپ کہاں آ گئے ہیں۔
اور جب آپ اس کے اندر جاتے ہیں تو پھر کسی دوسری دنیا میں ہونے کا احساس مزید بڑھ جاتا ہے۔ پہلی نظر میں یہ کسی بھی دوسرے قدیم شراب خانے کی طرح لگتی ہے جس پر موسم کے اثرات نمایاں ہیں اور جس میں پتھر کی کھردری دیواریں، پیتل کے آرائشی گھوڑے، بھڑکتے ہوئے آتش دان اور لکڑی کے شہتیر ہیں۔
لیکن قریب سے دیکھیں تو آپ کو عجیب و غریب نوادرات نظر آئیں گے۔
آپ کو دیوار پر چسپاں ایک مینڈھے کا سر، شیشے کے کیس میں ایک حنوط شدہ بلی، اور ڈارٹ بورڈ کے پاس پتھر کے فرش پر ایک گرل لگی ہوئی نظر آئے گی۔ یہ اس جگہ کی نشاندہی کرتی ہے جہاں سے ایک عورت اور دو بچوں کی لاشیں ملی تھیں۔ کہتے ہیں کہ اُن کی قربانی دی گئی تھی۔
یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہاں عجیب سے بھوت بھکشو یعنی راہب اور خانہ جنگی کے سپاہی نظر آیا کرتے ہیں اور وہاں کی کہانیوں میں عجیب و غریب قسم کی روشنیوں کے پھوٹنے کی بھی باتیں بتائی جاتی ہیں۔
اوئیجا بورڈز، بھوتوں کے شکار کے آلات اور طرح طرح کی ڈراونی کہانیاں سنانے والے ماہر گائیڈز کی قیادت میں جب آپ وہاں رات گزاریں گے تو آپ اس کے بارے میں خود ہی کسی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ یہ جگہ کیسی ہے۔
سکاٹ لینڈ کا ایڈنبرا کیسل
برطانیہ کے تمام آسیب زدہ مقامات خاموش دیہاتوں میں ہی نہیں پائے جاتے ہیں۔ اگرچہ لندن بھوتوں کی کہانیوں کے لیے مشہور ہے مگر سکاٹ لینڈ کا دارالحکومت ایڈنبرا بھی اس سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔
اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ شہر میں سب سے زیادہ آسیب زدہ مقام اس کی سب سے مشہور عمارت ایڈنبرا کیسل یعنی ایڈنبرا قلعہ ہے۔
کیسل راک نامی ایک وسیع آتش فشاں پہاڑی پر یہ قلعہ گذشتہ ایک ہزار سالوں سے موجود ہے۔ اس کے بارے میں اتنی ہی آسیبی کہانیاں بھی مشہور ہیں۔
بہت سے برطانوی قلعوں اور شاندار عمارتوں کی طرح یہاں گرے لیڈی کے بھوت کے دیکھے جانے کی بات کی جاتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ جینیٹ ڈگلس کی روح ہے جو وہاں گھومتی ہے جسے سنہ 1537 میں قلعے کے باہر سیخ پر بھون دیا گيا تھا۔
اس کے ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اینگلو سکاٹش خانہ جنگی کے بھوت بھی وہاں گھومتے ہیں۔ وہاں کبھی کبھی ایک بغیر سر والے شخص کا بھوت گھومتا ہے۔ یہ بھوت ڈھول بجانے والے اس شخص کا ہے جس نے 1650 میں اولیور کرومویل کے خطرے سے آگاہ کرنے کے لیے ڈھول بجایا تھا۔
بعض اوقات اسے آج بھی قلعے کے میدانوں پر ڈھول بجاتے دیکھا جاتا ہے۔
سب سے عجیب کہانی ایک سابق قیدی کے فرار ہونے کی ہے جس نے کھاد سے بھری ویل بیرو میں چھپ کر فرار ہونے کی ناکام کوشش کی تھی جس کی پاداش میں اسے قلعے سے نیچے گرا دیا گیا تھا جس کے باعث اس کی موت ہو گئی۔
اس کا بھوت بھی وہاں نظر آتا ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ اس کے نظر آنے سے قبل آپ کو اس کی بُو آنے لگتی ہے۔