صحت

بھائی کا وہ ڈی این اے ٹیسٹ جس سے پتا چلا کہ اس کی بہن 57 برس پہلے ہسپتال میں تبدیل ہو گئی تھی

Share

موسم سرما کے ایک دن بے مقصد تجسّس کی وجہ سے کیے جانے والے ڈی این اے ٹیسٹ کے چونکا دینے والے نتیجے نے دو خواتین اور ان کے اہلخانہ کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنے بارے میں جو کچھ بھی جانتی ہیں اس کا ازسرنو جائزہ لیں۔

جب ٹونی کے دوستوں نے سنہ 2021 میں کرسمس کے لیے انھیں ڈی این اے ہوم ٹیسٹنگ کٹ دی تو انھوں نے اسے اپنے باورچی خانے کے سائیڈ بورڈ پر چھوڑ دیا اور دو ماہ تک اس کے بارے میں بھول گئیں۔

فروری کے ایک دن ان کا دھیان اس طرف گیا، ٹونی گھر پر تھے اور بور ہو گئے تھے کیونکہ ان کے گالف کے ہفتہ وار راؤنڈ میں بارش ہو چکی تھی۔ انھوں نے نمونے کی ٹیوب میں تھوک دیا اور کٹ کو بھجوا دیا۔

انھوں نے ہفتوں تک اس کے بارے میں نہیں سوچا۔

ایک شام انھیں نتائج موصول ہوئے۔ جب ای میل آئی تو ٹونی اپنی والدہ جون سے فون پر بات کر رہے تھے۔

پہلے تو سب کچھ ان کی توقع کے مطابق لگ رہا تھا۔ ٹیسٹ نے آئرلینڈ میں ان کے ننھیال کی نشاندہی کی۔ ان کے خاندان میں ایک کزن تھا، ان کی ایک بہن بھی تھی۔

لیکن جب انھوں نے اپنی بہن کا نام دیکھا تو یہ غلط تھا۔ جیسیکا کی بجائے، کلیر نامی خاتون کو ان کی بہن کے طور پر درج کیا گیا تھا۔ (جیسیکا اور کلیئر ان کے حقیقی نام نہیں ، خواتین کی شناخت کے تحفظ کے لیے دونوں نام تبدیل کیے گئے ہیں)

جون کے چار بچوں میں ٹونی سب سے بڑے ہیں۔ تین بیٹوں کے بعد انھیں بیٹی کی خواہش تھی اور آخر کار یہ خواہش اس وقت پوری ہوئی جب جیسیکا 1967 میں پیدا ہوئیں۔

جون نے مجھے بتایا کہ ’یہ ایک حیرت انگیز احساس تھا، آخر کار ایک لڑکی کا ہونا تاہم جب انھوں نے سنا کہ ٹونی کے ڈی این اے کے نتائج میں کچھ غیر متوقع ہے تو وہ فوری طور پر پریشان ہو گئیں۔‘

ٹونی بھی حیران تھے لیکن انھوں نے ظاہر نہیں ہونے دیا۔ اپنے والد کی موت کے دس سال بعد ٹونی کی والدہ 80 کی دہائی میں تھیں اور اکیلی رہتی تھیں۔ وہ انھیں پریشان نہیں کرنا چاہتے تھے۔

اگلی صبح انھوں نے ڈی این اے ٹیسٹنگ کمپنی کی نجی میسجنگ سہولت کا استعمال کرتے ہوئے کلیر سے رابطہ کیا جس خاتون کے بارے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ ان کی بہن ہیں۔

انھوں نے میسج میں لکھا ’ہیلو، میرا نام ٹونی ہے۔ میں نے یہ ڈی این اے ٹیسٹ کیا۔ آپ میری بہن کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ میں سوچ رہا ہوں کہ یہ غلطی ہے۔ کیا آپ اس پر روشنی ڈال سکتی ہیں؟‘

ڈی این اے

’مجھے اپنا آپ ایک دھوکے باز کی طرح محسوس ہوا‘

کلیئر کو دو سال قبل اسی برانڈ کا ڈی این اے ٹیسٹ دیا گیا تھا جو ان کے بیٹے نے انھیں سالگرہ کے تحفے کے طور پر دیا تھا۔

اس کے نتائج بھی عجیب تھے۔ ان نتائج کا ان کے والدین کی جائے پیدائش سے کوئی تعلق نہیں تھا اور ان کا ایسے فرسٹ کزن سے جینیاتی تعلق تھا جسے وہ نہیں جانتی تھیں اور ان کے پاس کی کی کوئی وضاحت نہیں تھی۔

پھر 2022 میں انھیں اطلاع ملی کہ ایک بھائی ان کے فیملی ٹری ’شجرہِ نسب‘ میں شامل ہو گیا ہے۔

یہ حیران کن تھا لیکن ایک طرح سے ان سب کی ایک منطق تھی کیونکہ بڑے ہوتے ہوئے انھیں کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ وہ وہاں کی ہیں۔

وہ کہتی ہیں ’مجھے ایک دھوکے باز کی طرح محسوس ہوتا۔ شکل و صورت یا خصوصیات میں کوئی مماثلت نہیں تھی۔ میں سوچتی تھی کہ شاید مجھے گود لیا گیا۔‘

جب کلیئر اور ٹونی نے پیغامات اور سوانح حیات کی تفصیلات کا تبادلہ شروع کیا تو انھیں پتہ چلا کہ کلیئر تقریباً اسی وقت اور اسی ہسپتال میں پیدا ہوئی تھیں جہاں ان کی بہن جیسیکا پیدا ہوئیں۔

پھر یہ بات سامنے آئی کہ 57 سال پہلے دونوں بچیاں پیدائش کے وقت تبدیل ہو گئی تھیں، جس کے بعد انھوں نے مختلف خاندانوں میں پرورش پائی۔

برطانیہ میں زچگی کے وارڈوں میں حادثاتی طور پر بچوں کے بدل جانے کے واقعات سننے میں نہیں آتے۔

سنہ 2017 میں فریڈم آف انفارمیشن کی درخواست کے جواب میں این ایچ ایس نے جواب دیا کہ جہاں تک اس کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے بچوں کو غلط والدین کے ساتھ گھر بھیجنے کا کوئی دستاویزی واقعہ نہیں۔

نہ 1980 کی دہائی سے نوزائیدہ بچوں کو ان کی پیدائش کے فورا بعد ریڈیو فریکوئنسی آئیڈینٹیفیکیشن (آر ایف آئی ڈی) ٹیگ دیے جاتے ہیں، جس سے ان کے مقام کو ٹریک کیا جا سکتا ہے۔

اس سے پہلے، زچگی کے وارڈ میں بستروں پر ہاتھ سے لکھے ہوئے ٹیگ اور کارڈ لگائے جاتے تھے۔

اس خبر کے صدمے کو برادشت کرتے ہوئے کلیئر اور ٹونی کو یہ فیصلہ کرنا تھا کہ آگے کیا کرنا ہے۔

ٹونی نے کلیئر کو لکھا کہ ’اس کا ردِ عمل شدید ہوگا۔ اگر آپ اسے یہیں چھوڑنا چاہتی ہیں تو میں اسے بالکل قبول کروں گا اور ہم اس میں بالکل بھی پیشرفت نہیں کریں گے۔‘

کلیئر بغیر کسی ہچکچاہٹ کے جانتی تھیں کہ وہ ٹونی اور ان کی ماں سے ملنا چاہتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں صرف انھیں دیکھنا چاہتی تھی ان سے ملنا چاہتی تھی، ان سے بات کرنا چاہتی تھی اور انھیں گلے لگانا چاہتی تھی۔‘

جب ٹونی نے آخر کار جون کو بتایا کہ ڈی این اے ٹیسٹ سے کیا پتہ چلا، تو وہ جاننے کے لیے بے تاب ہوگئیں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟

1967 کی برفانی رات

جون کو اپنی بیٹی کی پیدائش کی رات یاد ہے۔ وہ گھر پر ہی بچے کو جنم دینے والی تھیں لیکن چونکہ انھیں ہائی بلڈ پریشر تھا اس لیے ان کی زچگی ویسٹ مڈلینڈز کے ایک ہسپتال میں ہوئی۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’وہ مجھے اتوار کے دن اندر لے گئے، اس دن برفباری ہوئی تھی۔‘

بچے کی پیدائش تقریبا رات 22:20 بجے ہوئی۔ جون نے بہت انتظار کے بعد پیدا ہونے والی اپنی بیٹی کو صرف چند منٹوں کے لیے تھاما تھا۔ انھیں یاد ہے کہ وہ نوزائیدہ بچی کے سرخ چہرے اور بالوں کو دیکھ رہی تھی۔

اس کے بعد بچی کو رات کے لیے نرسری میں لے جایا گیا تاکہ اس کی ماں آرام کر سکے۔ 1960 کی دہائی میں یہ عام رواج تھا۔ چند گھنٹے بعد آدھی رات کے فوراً بعد جیسیکا اسی ہسپتال میں پیدا ہوئیں۔

اگلی صبح جون کو ان کی بیٹی کلیئر کی جگہ جیسیکا سونپ دی گئیں۔

ان کے بال باقی خاندان کے برعکس بھورے تھے لیکن جون نے اس بارے میں کچھ نہیں سوچا۔ کیونکہ ان کی خالہ اور کزنز ایسے ہی تھے۔ جب ان کے شوہر بچی جیسیکا سے ملنے کے لیے ہسپتال پہنچے تو وہ اتنے خوش تھے کہ انھیں بھی شک نہیں ہوا۔

57 سال بعد جون یہ جاننے کے لیے بے چین تھیں کہ کلیر کی زندگی کیسی تھی۔ کیا وہ خوشیوں میں بڑی ہوئی تھیں؟ لیکن اس سے پہلے کہ وہ جواب حاصل کرتیں انھیں اور ٹونی کو یہ خبر جیسیکا کو بھی دینی پڑی، جنھوں نے اپنی پوری زندگی اس یقین کے ساتھ گزاری تھی کہ جون ان کی ماں اور ٹونی ان کے بھائی ہیں۔

ٹونی اور جون یہ بات بتانے خود جیسیکا کے گھر گئے۔

جون کا کہنا ہے کہ انھوں نے انھیں یقین دلایا تھا کہ وہ ہمیشہ ماں اور بیٹی رہیں گے لیکن اس کے بعد سے وہ کہتی ہیں کہ ان کا رشتہ ایک جیسا نہیں رہا۔

جیسیکا اس کہانی کےلیے انٹرویو نہیں دینا چاہتی تھیں۔

ڈی این اے

’ایسا لگا کہ سب ٹھیک ہے‘

ایک دن بعد یعنی ٹونی کے ڈی این اے نتائج ملنے کے صرف پانچ دن بعد کلیئر نے اپنے گھر اور جون کے گھر کے درمیان مختصر فاصلہ طے کیا۔

کئی سال سے وہ کام پر جاتے ہوئے جون کے علاقے سے گزرا کرتی تھیں لیکن انھیں کبھی نہیں معلوم تھا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں ان کی حیاتیاتی ماں رہتی ہیں۔

ٹونی ڈرائیو وے پر ان کا انتظار کر رہے تھے۔

’ہیلو بہن! آؤ اور ماں سے ملو۔‘

کلیئر کہتی ہیں کہ جب انھوں نے جون کو دیکھا تو ایسا لگا جیسے وہ ہمیشہ ایک دوسرے کو جانتی ہیں۔ ’میں نے انھیں دیکھا اور کہا کہ ’اوہ خدایا میری آنکھیں آپ پر گئی ہیں! ہماری آنکھیں ایک جیسی ہیں۔ اوہ میرے خدا، میری صورت کسی سے ملتی ہے۔‘

جون کہتی ہیں کہ ’ایسا لگا سب کچھ ٹھیک ہے۔ میں نے جیسا سوچا تھا وہ بالکل ویسی ہی لگ رہی تھی جیسے میں اپنے جوانی کے دنوں میں تھی۔‘

انھوں نے سہ پہر فیملی کی تصاویر دیکھنے میں گزاری۔

کلیئر نے ٹونی اور جون کو اپنی فیملی کے بارے میں بتایا لیکن جب یہ سوال آیا کہ آیا ان کا بچپن خوشگوار رہا ہے تو کلیئر نے اس سے گریز کیا۔

وہ کہتی ہیں ’میں اس وقت سچ نہیں بتا سکتی تھی، جب میں بہت چھوٹی تھی تو میرے والدین الگ ہو گئے تھے۔ مجھے یاد نہیں کہ وہ ایک ساتھ تھے۔ میری پرورش انتہائی غربت میں ہوئی، میں اکثر بھوکی رہتی تھی۔ یہ بہت مشکل بچپن تھا۔‘

کلیئر کہتی ہیں کہ ان کی پرورش کرنے والی ماں کو یہ خبر سنانا سب سے مشکل کام تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے اپنے والدین کو یقین دلانے کی پوری کوشش کی، جن کے ساتھ وہ پلی بڑھی تھیں کہ ان کے تعلقات میں کچھ بھی تبدیل نہیں ہوگا۔

اس سال کے اوائل میں ان کی والدہ چل بسیں۔

ایک نئی جینیاتی شناخت کے ساتھ ساتھ کلیئر کے لیے بہت کچھ عملی طور پر بدلا۔ چونکہ وہ آدھی رات سے پہلے پیدا ہوئی تھیں، اس لیے انھیں پتہ چلا کہ وہ ایک دن بڑی ہیں۔ ’میرا برتھ سرٹیفکیٹ غلط، میرا پاسپورٹ، میرا ڈرائیونگ لائسنس سب کچھ غلط ہے۔‘

’ایک خوفناک غلطی‘

اس دریافت کے چند ہفتے بعد ٹونی نے این ایچ ایس ٹرسٹ کو خط لکھا جو اس ہسپتال کی نگرانی کرتا ہے، جہاں کلیئر اور جیسیکا تبدیل ہوئی تھیں۔

ٹرسٹ نے اس کی ذمہ داری قبول کی حالانکہ ڈھائی سال بعد بھی معاوضے پر اتفاق نہیں ہوا۔

ٹونی اور جون کا کہنا ہے کہ انھیں گذشتہ برس کہا گیا تھا کہ اسے حتمی شکل دے دی جائے گی۔

بی بی سی نے این ایچ ایس ریزولوشن سے رابطہ کیا جو این ایچ ایس کے خلاف شکایات سے نمٹتا ہے۔ اس نے کہا کہ بچوں کی تبدیلی ’خوفناک غلطی‘ تھی جس کے لیے اس نے قانونی ذمہ داری قبول کی۔

تاہم ادارے نے کہا کہ یہ ایک ’انوکھا اور پیچیدہ معاملہ‘ ہے اور وہ اب بھی معاوضے کی رقم پر اتفاق کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔

کلیئر اور جون یہ دریافت کر رہی ہیں کہ ان میں کتنی مماثلت ہے جیسے کپڑوں اور کھانے میں ان کی پسند اور وہ اپنی چائے کیسے لیتی ہیں۔

کلیئر اپنے نئے دریافت شدہ خاندان کے بارے میں کہتی ہیں کہ ’ہم بہت قریب ہیں، میں ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا چاہتی ہوں، یقیناً بہت سا وقت گزر چکا ہے جو ان سے چھین لیا گیا تھا۔‘

کلیئر اب جون کو ’ماں‘ کہہ کر پکارتی ہیں تاہم جیسیکا اب ایسا نہیں کرتیں لیکن جون کو لگتا ہے کہ انھیں ایک اور بیٹی مل گئی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جیسیکا میری حیاتیاتی بیٹی نہیں۔ وہ اب بھی میری بیٹی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *