مرتے وقت انسان کیا محسوس کرتا ہے؟
اگر آپ نے موت کو گلے لگاتے کسی شخص کو کبھی دیکھا ہو تو آپ نے بھی غور کیا ہوگا کہ ایسا لگتا ہے جیسے اچانک اس کے چہرے پر سکون آ گیا ہو لیکن اس دوران آخر اس کے دماغ میں کیا کچھ چل رہا ہوتا ہے؟
انتقال کرنے والے شخص کا چہرہ دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے وہ سو رہا ہو۔ چہرے پر بہت عام تاثرات ہوتے ہیں۔ میرے ایک رشتہ دار انتقال کے قریب بہت تکلیف میں تھے۔ لیکن مرنے کے بعد ان کا چہرہ چمک رہا تھا اور اچانک ایسا لگنے لگا جیسے وہ بہت خوش ہوں۔
برسوں میں یہی سوچتا رہا کہ کیا زندگی کے آخری لمحات میں جب موت آپ سے لپٹ رہی ہوتی ہے، کیا وہ پل زبردست خوشی دینے والا ہوتا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ انتقال کے وقت جسم میں تناؤ دور کرنے والا انڈورفن ہارمون بھرپور مقدار میں خارج ہوتا ہو؟
عام طور یہ تصور کیا جاتا ہے کہ زندگی کے آخری لمحات میں ایک جنگ سی چل رہی ہوتی ہے۔ لیکن کیا ایسا بھی ممکن ہے کہ جسم موت کو خوشی خوشی گلے لگاتا ہو؟
پیلیئیٹیو کیئر یعنی درد سے نجات میں مدد کرنے کی سہولیات کے ماہر ہونے کے ناطے مجھے ایسا لگتا ہے کہ موت کا عمل آخری سانس لینے سے ایک ہفتہ قبل شروع ہو جاتا ہے۔ اس دوران صحت متاثر ہونے لگتی ہے۔ جسم کمزور پڑنے لگتا ہے، چلنے میں دشواری پیش آنے لگتی ہے اور غنودگی طاری رہتی ہے۔ آخری لمحات میں کھانا پینا مشکل ہونے لگتا ہے۔
متاثرہ شخص کے اس مقام پر پہنچنے تک ہمیں یہ سمجھ آنے لگتا ہے کہ بس اب اس کی دو چار روز کی زندگی اور باقی ہے۔ بہت سے لوگ اس پورے عمل سے ایک ہی دن میں گزر جاتے ہیں۔ اور کچھ لوگ زندگی اور موت کے درمیان تقریباً ایک ہفتے تک رہتے ہیں۔ یہ صورت حال رشتہ داروں کے لیے تکلیف دہ ہوتی ہے۔
لیکن موت کے لمحے کو ٹھیک ٹھیک سمجھ پانا مشکل ہے۔ میرے اپنے ساتھیوں کی ایک تحقیق، جو کہیں شائع نہیں ہوئی ہے، کے مطابق جیسے جیسے موت کی گھڑی قریب آتی ہے جسم میں تناؤ پیدا کرنے والے کیمیکل میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ممکنہ طور پر جسم میں موت کے وقت تناؤ کم کرنے والے انڈورفن ہارمون کا اخراج ہوتا ہے۔ لیکن کبھی اس بارے میں کوئی ریسرچ نہیں ہوئی ہے، اس لیے اسے یقینی طور پر کہنا ممکن نہیں۔
دماغ میں خارج ہونے والا ایک اور ہارمون سیروٹونن خوشی کے احساس کے ذمہ دار ہوتا ہے۔ سنہ دو ہزار گیارہ کی ایک تحقیق کے مطابق چھ چوہوں کے دماغ میں مرتے وقت اس ہارمون کی مقدار تین گنا پائی گئی۔ عین ممکن ہے کہ ایسا ہی عمل انسانوں میں بھی ہوتا ہو۔
ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے جو یہ بتا سکے کہ انسان میں انڈورفن اور سیروٹونن کی مقدار کتنی ہے، اس لیے یہ مشورہ قابل غور ہو سکتا ہے۔ حالانکہ مرنے والے کے آخری لمحات میں اس کے خون کے نمونے موصول کرنا مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔ ایسی ریسرچ کے لیے فنڈنگ حاصل کرنا بھی آسان نہیں ہے۔
اگر کسی شخص کو پہلے سے درد کی شکایت نہیں ہے تو عام طور پر اسے مرنے کے قریب بھی درد کا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔
مرنے والے کو درد سے پریشانی ہونا ضروری نہیں ہے۔ اپنے مریضوں کے ساتھ میرے تجربے اور میرے ساتھیوں سے اس بارے ہوئی بات چیت کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر کسی شخص کو پہلے سے درد کی شکایت نہیں ہے تو عام طور پر اسے مرتے وقت بھی درد کا مسئلہ نہیں ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے یہ کہنا مشکل ہے۔ اس کا تعلق اینڈورفنس سے ہو سکتا ہے۔ لیکن اس بارے میں بھی کوئی ریسرچ سامنے نہیں آئی ہے۔
دماغ میں متعدد ایسے عوامل ہو سکتے ہیں جن کی وجہ سے درد کا احساس نہ ہو۔ اسی لیے جنگ کے میدان میں فوجیوں کو اکثر درد کا احساس نہیں ہوتا ہے کیونکہ ان کی توجہ کہیں اور مرکز ہوتی ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایرین ٹریسی کی ریسرچ کے مطابق مذہبی عقائد بھی درد کم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مراقبہ بھی فائدہ پہنچاتا ہے۔
غیر معمولی خوشی کا احساس
آخری لمحات میں انڈورفنس کے علاوہ اور کون سی چیز ہے جو غیر معمولی خوشی کے احساس کے لیے ذمہ دار ہوتی ہے؟
جب جسم کام کرنا بند کرتا ہے تو ظاہر ہے دماغ بھی متاثر ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ اس سے بھی زندگی کے آخری لمحات کا تجربہ متاثر ہوتا ہو۔ امریکی سائنسدان جل بولٹ ٹیلر نے ایک ٹیڈ ٹاک میں اس تجربے پر تبصرہ کیا ہے۔
انہون نے بتایا کہ کس طرح انہوں نے موت کو قریب سے محسوس کیا۔ انہون نے بیان کیا کہ سٹروک کی وجہ سے ان کے دماغ کے بائیں حصے کے بند ہو جانے کے باعث انہیں ہر فکر سے ‘آزاد’ ہونے جیسا احساس ہوا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بولٹ ٹیلر کو دماغ کے بائیں جانب چوٹ لگی تھی۔ جبکہ دماغ کے داہنی جانب چوٹ لگنے سے بھی آپ کے خدا کے نزدیک ہونے کے احساس میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
کئی امکانات ہو سکتے ہیں۔ یہ کہ آپ کا رشتہ دار روحانی احساسات سے گزرا ہو۔ جب میرے دادا کا اتنقال ہوا، اس وقت انہوں نے اپنا ہاتھ اور ایک انگلی اٹھائی ہوئی تھی جیسے سامنے کھڑے کسی شخص کی جانب اشارہ کر رہے ہوں۔
میرے والد کیتھولک ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ان کے والد کو اپنی والدہ اور اہلیہ نظر آ رہی تھیں۔ مرتے وقت ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ یہ دیکھ کر میرے والد کو بہت تسلی ہوئی۔
بودھ مذہب کے ماننے والوں کا عقیدہ ہوتا ہے کہ انتقال کے وقت ذہن کے پاس غیر معمولی صلاحیت آجاتی ہے۔ مرنے والے کو زندگی اور موت کے درمیان کا فاصلہ ختم ہوتا محسوس ہوتا ہے۔
ان باتون کا یہ مطلب بالکل نہیں ہے کہ زیادہ مذہبی لوگوں کے لیے موت کا عمل مزہ دار ہوتا ہے۔ میں نے پادریوں اور ننز کو موت کے قریب بے چین حالت میں دیکھا ہے۔ ہو سکتا ہے انہیں ان کے زندگی گزارنے کے طریقے اور مرنے کے بعد فیصلے کے لمحات کی فکریں پریشان کرتی ہوں۔
ہر موت مختلف ہوتی ہے۔ آپ یہ طے نہیں کر سکتے کہ کس کو کیسی موت آئے گی۔ میں نے کچھ اموات ایسی بھی دیکھیں ہیں جن میں لگتا ہے کہ اینڈورفنس سے کوئی فائدہ نہ پہنچا ہو۔ چند ایسے کم عمر لوگوں کو میں نے مرتے دیکھا ہے جن کے لیے یہ قبول کرنا مشکل تھا کہ ان کا آخری وقت آ چکا ہے۔ موت کے پورے عمل کے دوران وہ بے چین ہی نظر آئے۔
میں نے ان لوگوں کو سکون سے مرتے دیکھا ہے جن کی زندگی کے آخری دن خوش حالی اور اطمینان میں گزرے۔ کینسر جیسے امراض سے دو چار افراد کے آخری دن بھی خوش حال ہو سکتے ہیں اگر انہیں پیلیئیٹیو کیئر یا درد سے نجات میں مدد حاصل ہو۔