آرٹیفیشل انٹیلیجنس: مصنوعی ذہانت کورونا وائرس کے علاج کی دریافت کا عمل کیسے تیز کر سکتی ہے؟
ایسا لگتا ہے کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا پر قابو پانے اور اس سے ہونے والی اموات کے سلسلے کو روکنے کے لیے کسی مافوق الفطرت مدد کی ضرورت ہے۔
شاید آرٹیفیشل انٹیلیجنس (مصنوعی ذہانت) کو کچھ زیادہ ہی بڑھا چڑھا کر بیان جاتا ہے۔ لیکن جب بات طب کی آتی ہے تو اس شعبے میں مصنوعی ذہانت کتنی کارآمد ثابت ہوئی ہے، اس کا مصدقہ ریکارڈ موجود ہے۔
تو کیا مصنوعی ذہانت اس خطرناک بیماری کا علاج دریافت کرنے کے چیلینج میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے؟
بہت سی کمپنیاں یہ عقدہ حل کرنے کی دوڑ میں لگی ہیں۔
آکسفورڈ میں واقع کمپنی ’ایکسینٹیہ‘، جس نے پہلی مرتبہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے دریافت ہونے والی دوائی کا تجربہ انسانوں پر کیا تھا، کیلیفورنیا کے سکریپس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں موجود 15 ہزار ادویات کی تحقیق میں مصروف ہے۔
ویاگرا کے شریک تخلیق کار ڈاکٹر ڈیوڈ براؤن کی قائم کردہ کیمبرج کمپنی ’ہیلکس‘ نے غیر معمولی بیماریوں کے لیے ادوایات ڈھونڈنے کے مصنوعی ذہانت کے نظام کا رخ موڑ دیا ہے۔ اب ان کا مقصد کورونا کا علاج دریافت کرنا ہے۔
اس نظام کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:
- بیماری سے متعلق تمام موجودہ لٹریچر کا جائزہ لینا
- وائرس کے ڈی این اے اور ساخت کا مطالعہ کرنا
- مختلف ادویات کے موزوں ہونے کا جائزہ لینا
دوا کی تلاش کا عمل روایتی طور پر خاصا سست رہا ہے۔
ڈاکٹر براؤن نے بی بی سی نیوز کو بتایا ’میں 45 برسوں سے یہ کام کر رہا ہوں اور اب تک میں صرف تین دوائیں مارکیٹ تک لانے میں کامیاب ہو سکا ہوں۔‘
لیکن مصنوعی ذہانت بہت تیز رفتار ثابت ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر براؤن کا کہنا ہے کہ ’ہمیں مطلوبہ اعداد و شمار کو اکٹھا کرنے میں کئی ہفتوں کا وقت لگا ہے اور گذشتہ چند دنوں میں ہمیں نئی معلومات بھی مل چکی ہیں لہذا اب ہمارے پاس بڑے پیمانے پر ڈیٹا موجود ہے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’ایسٹر پر الگورتھم کو چلایا گیا اور اگلے سات دنوں میں ہمارے پاس تینوں طریقہ کار کے نتائج موجود ہوں گے۔‘
ہیلکس کو امید ہے کہ اس معلومات کی روشنی میں وہ مئی کے مہینے تک ممکنہ ادوایات کی ایک فہرست بنا لیں گے اور ان کے کلینیکل ٹرائلز کے لیے وہ لیبارٹریوں سے بات چیت کر رہے ہیں۔
جب بات کورونا وائرس کی ہو تو مصنوعی ذہانت کی مدد سے علاج ڈھونڈنے والوں کے لیے دو راستے موجود ہوتے ہیں:
- مکمل طور پر نئی دوائی ڈھونڈنا لیکن اس کے محفوظ استعمال کی منظوری کے لیے چند سال انتظار کرنا ہو گا
- موجودہ دوائیوں کو دوبارہ نئے مقصد کے ساتھ تیار کرنا
لیکن ڈاکٹر براؤن کا کہنا تھا کہ اس بات کا قطعی امکان نہیں ہے کہ اس وبا کا علاج ایک ہی دوائی سے ممکن ہو سکے۔
ہیلکس کے لیے اس کا مطلب ہے آٹھ لاکھ ممکنہ جوڑوں اور ادویات کے 10.5 ارب مجموعوں کا تفصیلی تجزیہ جو مارکیٹ میں 4000 منظور شدہ دوائیوں سے ممکن ہوتا ہے۔
امپیریل کالج میں انسٹیٹیوٹ آف گلوبل ہیلتھ اینوویشن کے ڈائریکٹر پروفیسر آرا درزی نے بی بی سی نیوز کو بتایا ’ایک قابلِ تصور دوا کے حصول کے لیے مصنوعی ذہانت ہمارے پاس موجود مضبوط ترین راستوں میں سے ایک ہے۔ لیکن اس کے لیے بنیادی ضرورت اعلی معیار، بڑے اور صاف اعداد و شمار کے سیٹ کی ہے۔‘
’آج تک اس میں سے زیادہ تر معلومات انفرادی کمپنیوں کو بھیج دی گئی ہیں جیسے بڑی فارما کمپنیاں یا یہ یونیورسٹیوں کے اندر پرانی لیبارٹریوں میں گم ہو گئی ہیں۔‘
’اب پہلے سے کہیں زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ ان متناسب ادوایات کی دریافت میں شامل اعداد و شمار کے ذرائع کو اکھٹا کیا جائے تاکہ مصنوعی ذہانت کے محققین اپنی نئی مشین لرننگ تکنیک استعمال کرتے ہوئے جلد سے جلد کووڈ-19 کا علاج دریافت کر سکیں۔‘
امریکہ میں موجود نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی کی باراباسی لیبارٹری، ہارورڈ میڈیکل سکول، سٹینفورڈ نیٹ ورک سائنس انسٹیٹیوٹ اور بائیوٹیک سٹارٹ اپ شیفر میڈیسن، یہ سب مل کر ایسی دوائی کی تلاش میں ہیں جو کووڈ 19 کے علاج کے طور پر جلد سے جلد دوبارہ تیار کی جا سکتی ہو۔
حیرت انگیز دریافت
شیفر کے چیف ایگزیکٹو علیف صالح کا کہنا تھا کہ عام طور پر ان سب کو مل کر کام کرنے کے لیے ’کاغذی کارروائی میں ہی ایک سال‘ لگ جائے گا۔
’لیکن ایسے افراد جو کام کو منطقی انجام تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور جن کے پاس وقت ہے، ایسے لوگوں کے ساتھ زوم کالز کا ایک سلسلہ شروع کر کے اس سارے عمل کو تیز رفتار بنایا جا سکتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں ’گذشتہ تین ہفتوں میں جتنا کام ہوا ہے عام طور پر اس میں آدھا سال لگ جاتا ہے۔ سب نے سب کچھ چھوڑ کر اس پر توجہ دی ہے۔‘
اور ان کی تحقیق کے حیرت انگیز نتائج سامنے آنے شروع ہوئے ہیں۔ جن میں:
- یہ تجویز کہ وائرس دماغ کے خلیوں پر حملہ آور ہو سکتا ہے، جس کی وجہ سے کچھ لوگ ذائقے یا بو کا احساس کھو دیتے ہیں
- یہ پیش گوئی کہ یہ وائرس مرد اور خواتین دونوں کے تولیدی نظام پر بھی حملہ کر سکتا ہے
شیفر میڈیسن مصنوعی ذہانت کو کسی ایسی چیز کے ساتھ جوڑتا ہے جسے وہ نیٹ ورک میڈیسن کہتے ہیں۔ یہ کسی بیماری کو مالیکیولر اجزا کے درمیان پیچیدہ باہمی تعلق کے ذریعے دیکھنے کا ایک طریقہ کار ہے۔
صالح کہتے ہیں ’ایک بیماری جس شکل میں ہمارے سامنے آتی ہے وہ شاذ و نادر ہی ایک جین یا پروٹین کی خرابی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ فطرت اتنی آسان نہیں ہے۔ بلکہ یہ متعدد پروٹینز کے درمیان میل جول میں ایک جھڑپ کا نتیجہ ہے۔‘
نیٹ ورک میڈیسن، مصنوعی ذہانت اور دونوں کے فیوژن کے استعمال سے کنسورشیم نے 81 ممکنہ دوائیوں کی نشاندہی کی ہے جو مدد گار ثابت ہو سکتی ہیں۔
پروفیسر البرٹ لسزلو باراباسی کہتے ہیں ’مصنوعی ذہانت بہت بہتر کام کر سکتی ہے، ناصرف آرڈر کو بہتر بنانے کے لیے بلکہ ان آزاد معلومات کو دیکھتے ہوئے بھی جو شاید نیٹ ورک میڈیسن سے کی نظر سے نہ گزرے۔‘
لیکن مصنوعی ذہانت تنہا یہ کام نہیں کر سکتی، اس کے لیے ان تینوں طریقہ کار کی ضرورت ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں ’مختلف ٹولز مختلف نقطہ نظر سے چیزوں کو دیکھتے ہیں لیکن ایک ساتھ مل کر یہ بہت طاقتور بن جاتے ہیں۔‘
کچھ مصنوعی ذہانت کی کمپنیاں پہلے ہی دعویٰ کر رہی ہیں کہ انھوں نے کچھ ایسی دوائیوں کی نشاندہی کر لی ہے جو مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
پھیپھڑوں کے خلیوں کو متاثر کرنے والے وائرس سے بچنے کے لیے بینیولینٹ مصنوعی ذہانت نے ممکنہ علاج کے طور پر ’بیرسٹینب‘ کی نشاندہی کی ہے، جو ہڈیوں کی سوزش (جس میں جوڑوں میں موجود پانی کی تھیلیوں میں سوزش پیدا ہو جاتی ہے) کے علاج کے لیے منظور شدہ دوا ہے۔
اور اب امریکہ کے الرجی اور متعدی بیماریوں سے نمٹنے والے انسٹیٹیوٹ میں اس پر کنٹرولڈ ٹرائلز کیے جا رہے ہیں۔
اسی دوران جنوبی کوریا اور امریکہ کے سائنس دانوں نے ڈیپ لرننگ کا استعمال کرتے ہوئے اپنی تحقیق کی روشنی میں تجارتی طور پر دستیاب اینٹی وائرل ادویات جیسا کہ اتیزاناویر (ایڈز کے مرض کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی دوا) کو ایک ممکنہ دوا قرار دیا ہے۔
دوسری کمپنیاں مصنوعی ذہانت کو دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں جیسا کہ ریڈیالوجسٹس پر بوجھ کم کرنے کے لیے سکینز کا تجزیہ کرنا اور یہ پیش گوئی کرنے میں مدد کرنا کہ کن مریضوں کو وینٹیلیٹر کی زیادہ ضرورت پڑے گی۔
مثال کے طور پر چینی ٹیکنالوجی گرو علی بابا نے ایک الگورتھم کا اعلان کیا جو 96 فیصد درست نتائج کے ساتھ 20 سیکنڈ کے اندر وائرس سے متاثرہ افراد کی تشخیص کر سکتا ہے۔
لیکن کچھ ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ شاید ہی ایسا ممکن ہے کہ مصنوعی ذہانت کے سسٹمز کو اعلی درجے کی بیماریوں سے متعلق اعداد و شمار کی تربیت دی گئی ہو، اور اسی وجہ سے وہ وائرس کی ابتدائی علامات کا پتا لگانے میں اتنے موثر ثابت نہ ہوں۔
پروفیسر ڈارزی کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر پالیسی سازوں کو چاہیے کہ وہ بڑی دوا ساز کمپنیوں، ماہرین تعلیم اور تحقیقی خیراتی اداروں کو اپنے ڈیٹا کے ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے ایک ساتھ کام کرنے پر رضامند کرنے کی کوشش کریں۔