کورونا: کیا لاک ڈاؤن کے دوران ہاؤس پارٹی ایپ کا استعمال محفوظ ہے؟
ویڈیو کانفرنسنگ ایپ ’زوم‘ نے کورونا وائرس کی وبا کے دوران سب سے زیادہ مقبولیت حاصل کی ہے اور دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھروں میں بیٹھے افراد اپنے دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے اس کا استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
زوم کے استعمال میں اضافے پر بہت بات ہو رہی ہے لیکن ہاؤس پارٹی جو ویڈیو چیٹنگ میں خود کو زیادہ رجحان آمیز اور تفریحی ورژن سمجھتا ہے، بالکل اتنا ہی بڑا اور تیز تر ہے۔
ہاؤس پارٹی موجود تو سنہ 2016 سے ہے اور اسے ٹیکنالوجی کمپنی ایپک گیم نے گذشتہ برس خریدا تھا جبکہ معروف کمپنی فورٹنائٹ گیم بھی اسی کی ہے۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ اس نے کبھی توقع نہیں کی تھی کہ اس کی شہرت میں اتنا زیادہ اضافہ ہو گا۔
اس امریکی فرم کی ایپ کو پہلے ایک ہفتے میں ایک لاکھ افراد ڈاؤن لوڈ کرتے تھے لیکن وبا کے دوران دنیا بھر میں ایک ہفتے میں اسے 20 لاکھ افراد نے ڈاؤن لوڈ کیا۔
اس ایپ کی مدد سے ایک وقت میں آٹھ افراد ویڈیو اور آڈیو کال کے لیے ایک دوسرے سے جڑ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں ٹرائویا اور ڈائنگ گیمز کی بھی سہولت ہے۔
یہ ان نوجوانوں میں کافی مقبول ہے جو لاک ڈاؤن کے دوران اپنے دوستوں کی محفل کی کمی محسوس کر رہے ہیں۔
کیا ایپ ہیک ہو گئی تھی؟
اس ایپ کے متعلق یہ افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ ایپ کو وہ لوگ لیڈ کر رہے ہیں جو ہیکرز کا شکار ہوئے۔
مارچ کے آخر میں سوشل میڈیا پر لوگ یہ شکایت کر رہے تھے کہ جب سے انھوں نے ہاؤس پارٹی ڈاؤن لوڈ کی ہے تب سے ان کے استعمال میں موجود دیگر آن لائن سروسز مثلاً نیٹ فلکس، پے پال اور سپاٹیفائے متاثر ہو رہی ہیں۔
ٹوئٹر، واٹس ایپ، فیس بک اور سنیپ چیٹ نے اپنے صارفین سے کہا ہے کہ وہ خود کو محفوظ کرنے کے لیے اس ایپ کو ڈیلیٹ کر دیں۔
یہ افواہیں اتنی زیادہ پھیلیں کہ ہاؤس پارٹی کو خود کہنا پڑا کہ وہ پیسے دے کر چلائی جانے والی منفی مہم کا شکار ہو رہی ہے۔
دس لاکھ ڈالر انعام
ہاؤس پارٹی کے علم میں آیا ہے کہ اس کے صارفین کی بڑی تعداد کی جانب سے ایپ کو ڈیلیٹ کیا گیا ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس بات کے کوئی شواہد نہیں کہ اس ایپ کا ہیکنگ سے کوئی تعلق ہے۔
یہاں تک کہ ہاؤس پارٹی نے اپنے اس دعوے کے پیچھے کسی بدنیتی کا ثبوت پیش کرنے والے کو دس لاکھ امریکی ڈالر انعام دینے کی پیشکش بھی کی ہے۔
انفارمیشن سکیورٹی کی دنیا میں اس بات پر اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ یہ امکان کم ہے کہ یہ ایپ لوگوں کے دوسرے اکاؤنٹس ہیک کر رہی ہے۔
سائبر سکیورٹی کمپنی سوفوس کے ایک محقق پال ڈکلن کا کہنا ہے کہ یہ پوسٹس واضح طور پر اس بات کا اشارہ دیتی ہیں کہ ہاؤس پارٹی ایک بدیانت ایپ ہے جو آپ کی ڈیجیٹل لائف کے ہر حصے کو پرنشانہ بنا رہی ہے اور مجرمانہ ارادے سے اسے خراب رہی ہے۔
لیکن یہ ایک مرکزی دھارے میں شامل ایپ ہے جس کو ایپل اور گوگل کے آن لائن سٹورز میں ایک مشہور سافٹ ویئر کمپنی نے شامل کیا ہے۔
وہ یہ تجویز نہیں کرتے کہ ہاؤس پارٹی کا ہیک ہو جانا بہت بڑا ہے لیکن اس واقعے کی نوعیت عام طورپر ہونے سائبر جرائم جیسی نہیں ہے۔
ڈیٹا بیس کی بلیک مارکیٹ
ایلیوٹ تھامپسن جو شیور کلاؤڈ نامی سافٹ وئیر کمپنی میں کنسلٹنٹ ہیں کا کہنا ہے کہ کہ عموماً جو سائبر کرائم گروہ کسی کمپنی کا ڈیٹا چوری کرتے ہیں یا کسی صارف کے اکاؤنٹ کا ڈیٹا تو اسے پھر بڑی قیمت میں بیچا جاتا ہے اور بہت احتیاط سے استعمال کیا جاتا ہے۔
اگر کوئی گروپ دس ہزار ڈالر کا ڈیٹا خریدتا ہے معاشی طور پر اس کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی کہ وہ سٹریمنگ سروس کے لیے اکاؤنٹس چوری کرنے کے لیے ڈیٹا کو ضائع کرے گا۔
اسی طرح اگر یہ ایسی خلاف ورزیاں بڑے پیمانے پر کی جاتیں تو یہ یہ سب کو نظر آتا اور ہم نے یقیناً ایسا ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ان خلاف ورزیوں کا ممکنہ طور پر غیر متعلقہ ہیکنگ سے ہے اور لوگوں کا یہ اطلاع دینا کہ وہ ایپ کو ڈاؤن لوڈ کرنے کے کچھ ہی دیر بعد اس کا شکار ہو رہے ہیں ایک اتفاق ہے۔
ہاؤس پارٹی کے سیفٹی رِسک کیا ہیں؟
امریکی کمپنی ایپک گیمز یہ اصرار کرتی ہے کہ اس کے صارفین کا ڈیٹا محفوظ ہے لیکن اب بھی اس میں خطرات ہیں اور بچوں کے رفاہی ادارے بطور خاص اس مسئلے کو اجاگر کرتے ہیں۔
اس فیچر میں اصل مسئلہ جسے کمپنی ’سٹرینجر ڈینجر‘ یعنی نامعلوم صارف کا خطرہ کہتی ہے۔ کمپنی نے اپنی ویب سائٹ پر اس کے بارے میں کچھ یوں لکھا ہے ’جب آپ کے کسی دوست کا دوست پارٹی میں شامل ہو یا پھر آپ کا کوئی ایسا دوست جو اس چیٹ روم میں موجود سب افراد کو نہ جانتا ہوں۔ وہ اجنبی خطرے یا پارٹی کا وقت ہوتا ہے۔‘
سائبر بلنگ
بچوں کے رفاہی اداروں کا کہنا ہے کہ یہ بچوں کے تحفظ یا انٹرنیٹ پر ہراسگی کے خدشات کی وجہ بن سکتا ہے۔
دا چریٹی انٹرنیٹ میٹرز کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ ایپ نسبتاً محفوظ ہے اور وہ یہاں ایک ’روم‘ بنانے کے بعد وہاں وہی نام منتخب ہوں گے جن لوگوں سے آپ بات کرنا چاہیں گے۔
لیکن اگر کوئی بچہ چیٹ روم کو لاک نہیں کرے گا اور پراییویٹ سیٹنگ کو منتخب کرے گا تو ایسے میں دیگر لوگ اس ویڈیو چیٹ کا حصہ بننے کے لیے دلچسپی ظاہر کر سکتے ہیں۔
چیریٹی کی جانب سے والدین کو یہ تجویز دی جا رہی ہے کہ جب بچے ویڈیو چیٹنگ کر رہے ہوں تو وہ ان کے ساتھ بیٹھیں اور پرائیویسی فلٹرز کو سیٹ کریں۔