ہیڈلائن

پی آئی سی واقعہ: وزیر اعظم کے بھانجے کی گرفتاری کیلئے پولیس کا دوسرا چھاپہ

Share

لاہور کے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) پر مبینہ طور پر وکلا کے حملے کے بعد وزیراعظم عمران خان کے بھانجے بیرسٹر حسان نیازی کی گرفتاری کے لیے پولیس نے دوسرا چھاپہ مارا، تاہم گرفتاری عمل میں نہیں آسکی۔

پولیس نے بتایا کہ حسان نیازی کی گرفتاری کے لیے دوسرا چھاپہ رائے ونڈ کے علاقے میں موبائل فون کی لوکیشن اور خفیہ اطلاع پر مارا گیا لیکن وہ کارروائی سے قبل ہی فرار ہوگئے۔

علاوہ ازیں پولیس نے بتایا کہ پولیس وین جلانے کے مقدمے میں بھی حسان نیازی کا نام شامل کرلیا گیا ہے۔

قبل ازیں  رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ گزشتہ روز پولیس ٹیم نے کینٹونمنٹ کے علاقے میں حسان نیازی کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا تھا لیکن انہیں گرفتار کرنے میں ناکام رہی تھی۔

پولیس عہدیدار نے کہا تھا کہ ڈسٹرکٹ انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) انویسٹی گیشن کی جانب سے تشکیل کردہ ٹیم نے گزشتہ روز حسان نیازی کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا تھا لیکن وہ وہاں موجود نہیں تھے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس ٹیم حسان نیازی کی گرفتاری یقینی بنانے کے لیے ان تمام مقامات سے متعلق معلومات جمع کر رہی ہے جہاں وہ ممکنہ طور پر موجود ہوسکتے ہیں۔

خیال رہے کہ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر مبینہ طور پر حملہ کرنے والے 250 وکلا میں حسان نیازی کا نام بھی سامنے آیا تھا۔

تاہم پی آئی سی حملے سے متعلق درج کیے گئے 2 مقدمات میں بیرسٹر حسان نیازی کا نام شامل نہ کرنے پر پولیس کو سخت تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔

ایک عہدیدار نے بتایا تھا کہ موبائل فون کی فوٹیج میں وزیر اعظم کے بھانجے حسان نیازی کو جیل روڈ پر پولیس پر پتھراؤ کرتے دیکھا گیا تھا۔

انہوں نے بتایا تھا کہ فوٹیج سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے ایف آئی آر میں ان کو نامزد کیا اور نہ ہی انہیں گرفتار کیا۔

قبل ازیں گزشتہ روز پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) لاہور کو مریضوں کے لیے فوری بحال کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کے بھانجے حسان خان نیازی کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے۔

مریم اورنگزیب نے کہا تھا کہ حسان نیازی کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے، صرف گھر پر چھاپے مارنے کی خبریں نہ چلوائی جائیں، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ واقعے میں واضح طور پر ملوث ہونے کے باوجود ان کے خلاف اب تک کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا۔

اس سے قبل 12 دسمبر کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے کہا تھا کہ ‘ہسپتال پر حملہ کرنے والے وکلا میں وزیر اعظم کا بھانجا بھی شامل تھا اور عمران خان نے خود اس حوالے سے مذمت کی ہے، جبکہ وزیر اعظم کا رشتہ دار ہو یا کوئی بھی ایکشن لیا جائے گا’۔

خیال رہے کہ 11 دسمبر کو لاہور میں پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) میں مبینہ طور پر وکلا نے ہنگامہ آرائی کر کے ہسپتال کے اندر اور باہر توڑ پھوڑ کی تھی جس کے باعث طبی امداد نہ ملنے سے 3 مریض جاں بحق اور متعدد افراد زخمی ہوگئے تھے جبکہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب نے واقعے کا نوٹس لے لیا تھا۔

جس کے بعد پی آئی سی پر حملے کے بعد پولیس نے 81 وکلا کو گرفتار کرلیا تھا، لاہور میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 46 وکلا کو جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا تھا جبکہ پولیس کی جانب سے پی آئی سی پر حملے کے الزامات کی تحقیقات کے لیے ان کے جسمانی ریمانڈ سے متعلق پولیس کی درخواست مسترد کردی تھی۔

شادمان پولیس نے 200 سے 250 وکلا کے خلاف کے 2 ایف آئی آرز درج کی تھیں جن میں انسداد دہشت گردی کی دفعہ نمبر 7 شامل ہے۔

یہاں یہ بھی یاد رہے کہ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر مبینہ حملے میں ملوث ہونے پر گرفتار وکلا پر مقدمات درج ہونے کے خلاف لیگل باڈیز کی کال پر ملک بھر میں وکلا نے احتجاج کیا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ گرفتار کیے گئے وکلا کو ’فوری رہا‘ کیا جائے۔