وائرس کرہ ارض پر انسانی اور دیگر زندگیوں کی بقا میں کیا کردار ادا کرتے ہیں؟
اس وقت پوری دنیا کووڈ 19 وبا کی گرفت میں ہے۔ اس کے لیے ایک وائرس ذمہ دار ہے جسے نوول یعنی نئے کورونا وائرس یا SARS CoV-2 کا نام دیا گیا ہے۔
انسانیت کو تباہ کرنے والا یہ پہلا وائرس نہیں ہے۔ مختلف وائرس انسانیت کو متعدد بار چوٹ پہنچا چکے ہیں۔ 1918 میں ہسپانوی فلو نامی وائرس کی وجہ سے پانچ سے 10 کروڑ افراد ہلاک ہوگئے تھے جس کی وجہ سے دنیا میں تباہی مچ گئی تھی۔ وہیں صرف بیسویں صدی میں ہی چیچک کے وائرس نے کم از کم 20 کروڑ لوگوں کی جان لے لی ہے۔
ان مثالوں کو دیکھ کر تو ایسا ہی لگتا ہے کہ وائرس ہمارے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہیں اور انھیں زمین سے ختم ہو جانا چاہیے۔ کاش کوئی ایسی جادو کی چھڑی ہوتی جو زمین سے سارے وائرس مٹا دیتی۔
لیکن زمین سے وائرسوں کو ختم کرنے کا ارادہ کرنے سے پہلے محتاط رہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ہم بھی نہیں بچ پائیں گے۔ وائرسوں کے بغیر اس دھرتی پر زندگی ممکن نہیں ہے۔
امریکہ کی وسکونسن میڈیسن یونیورسٹی میں وبائی امور کے ماہر ٹونی گولڈبرگ کہتے ہیں ’اگر اچانک زمین سے سارے وائرس ختم ہوجائیں تو اس زمین پر موجود تمام مخلوقات کو مرنے میں ایک سے ڈیڑھ دن کا وقت لگے گا۔ وائرس اس دھرتی کی زندگی کا محور ہیں۔ لہٰذا ہمیں ان کی برائیوں کو نظر انداز کرنا ہوگا۔‘
ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ دنیا میں کتنی اقسام کے وائرس موجود ہیں، بس اتنا معلوم ہے کہ ان میں سے زیادہ تر وائرس انسانوں میں کوئی بیماری نہیں پھیلاتے۔ ہزاروں وائرس ایسے ہیں جو اس زمین کے ماحولیاتی نظام کو چلانے میں بے حد اہم کردار ادا کرتے ہیں جس میں کیڑے مکوڑے، مویشی اور انسان زندہ رہتے ہیں۔
میکسیکو کی نیشنل اوٹونومس یونیورسٹی کی وائرس کے امور کی ماہر سوسانہ لوپیز شیرٹن کا کہنا ہے کہ ’وائرس اور دیگر مخلوقات اس زمین پر ایک متوازن ماحول میں رہتے ہیں۔ وائرسوں کے بغیر ہم زندہ نہیں رہیں گے۔‘
بیشتر لوگ یہ نہیں جانتے کہ وائرس اس زمین پر زندگی کو چلانے کے لیے کتنے اہم ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم صرف اُن وائرسوں کے بارے میں تحقیق کرتے ہیں جو بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ تاہم اب بعض سائنس دانوں نے وائرسوں کی انجان دنیا کی طرف قدم بڑھا دیا ہے۔
اب تک انسان کو صرف چند ہزار وائرسوں کے بارے میں ہی معلوم ہے جبکہ ایسے لاکھوں وائرس موجود ہیں جن کے بارے میں ہمیں کچھ معلوم نہیں ہے۔
پینسلوینیا سٹیٹ یونیورسٹی کی میریلن روسینک کہتی ہیں کہ ’سائنس یا سائنسدان صرف بیماریوں پر تحقیق کرتے ہیں، یہ افسوس کی بات ہے لیکن حقیقت ہے۔‘
چونکہ ہم زیادہ تر وائرسوں کے بارے میں نہیں جانتے، لہٰذا ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ کون سے وہ وائرس ہیں جو انسان کے لیے خطرناک ہیں۔ یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کے سائنسدان کرٹس سٹل کا کہنا ہے کہ ’اگر ہم وائرس کی اقسام کی مجموعی تعداد پر غور کریں تو ان میں انسان کو نقصان پہنچانے والے وائرسز کی تعداد صفر کے برابر ہوگی۔‘
’وائرس ماحولیاتی نظام کی جان‘
وہ وائرس ہمارے لیے سب سے اہم ہیں جو بیکٹیریا کو متاثر کرتے ہیں۔ انھیں ‘فیج’ کہا جاتا ہے یعنی نگل جانے والا وائرس۔ ٹونی گولڈ برگ کا کہنا ہے کہ فیج وائرسوں کا سمندروں میں بیکٹیریا کی آبادی متوازن رکھنے میں اہم کردار ہے۔ اگر یہ وائرس ختم ہوجائیں تو اچانک سمندر کا توازن بگڑ جائے گا۔
سمندر میں پائی جانے والی 90 فیصد حیاتیات جرثومے ہیں یعنی ایک خلیے والے چھوٹے چھوٹے جاندار۔ وہ زمین کے لیے آکسیجن کا نصف حصہ پیدا کرتے ہیں اور یہ کام وائرس کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ سمندر میں پائے جانے والے وائرس روزانہ وہاں کے آدھے بیکٹیریا اور 20 فیصد دیگر خردبینی جرثوموں کو مار دیتے ہیں۔
اس کی مدد سے سمندر میں موجود کائی اور دیگر پودوں کو خوراک مل جاتی ہے، جس سے وہ ‘فوٹو سنتھیسیز’ کے عمل کے ذریعے سورج کی روشنی کی مدد سے آکسیجن بناتے ہیں۔ اسی آکسیجن زمین پر زندگی چلتی ہے۔ اگر یہ وائرس ختم ہوجائیں تو سمندر میں اتنی آکسیجن نہیں بن پائے گی اور زمین پر زندگی کا چلنا ممکن نہیں ہوگا۔
کرٹس سٹل کہتے ہیں کہ ’اگر موت نہ ہو تو پھر زندگی ممکن نہیں ہے کیونکہ زندگی زمین پر موجود عناصر کے دوبارہ استعمال یعنی ریسائیکلنگ پر منحصر ہے، اور اس ریسائکلنگ کو وائرس کہتے ہیں۔‘
دنیا میں حیاتیات کی آبادی پر قابو پانے کے لیے بھی وائرس ضروری ہیں۔ جب بھی کسی نوع کی آبادی بڑھتی ہے تو وائرس اس پر حملہ کر کے آبادی کو کنٹرول کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر وبا کے ذریعے انسانی آبادی پر قابو پایا جاتا ہے۔ اگر وائرس نہیں ہوں گے تو زمین پر موجود حیاتیات کی آبادی قابو سے باہر ہوجائے گی اور اگر ایک ہی قسم کی حیاتات کا غلبہ ہوگا تو گوناگونیت ختم ہوجائے گی۔
کچھ انواع کی بقا وائرسوں پر ہی منحصر ہے جیسے گائے اور جگالی کرنے والے دیگر جانور۔ وائرس ان جانوروں کی گھاس میں موجود سیلولوز یا نشاستے کو چینی میں تبدیل کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ اور پھر وہی ان کے جسم میں گوشت چڑھانے اور دودھ پیدا کرنے میں مدد کا ذریعہ بنتا ہے۔
انسانوں اور دوسری انواع کے اندر پلنے والے بیکٹیریا کو قابو کرنے میں بھی وائرس کا اہم کردار ہوتا ہے۔
امریکہ کے مشہور یلوسٹون نیشنل پارک کی گھاس اگر تیز گرمی برداشت کرپاتی ہے تو اس کے پیچھے بھی وائرسوں کا ہی اہم کردار ہے۔ یہ بات روسینک اور ان کی ٹیم نے اپنی تحقیق سے ثابت کی ہے۔
ہالاپینو مرچ کے بیجوں میں پائے جانے والے وائرس انھیں ان کے رس کو جذب کر لینے والے کیڑوں سے بچاتے ہیں۔ روسینک کی ٹیم نے اپنی تحقیق میں پایا کہ کچھ پودے اور فنگس وائرس کو نسل در نسل منتقل کرتے ہیں ،تاکہ ان کی حفاظت کا حلقہ بنا رہے۔ اگر یہ وائرس نفع بخش نہیں ہوتے تو پودے ایسا کیوں کرتے؟
وائرس انسان کا حفاظتی حلقہ تیار کرتا ہے
ایسے بہت سارے وائرس ہمیں کچھ خاص قسم کے امراض سے بچاتے ہیں۔ ڈینگی کے ذمہ دار وائرس کا دور دراز کا رشتہ دار ‘جی بی وائرس سی’ ایسا ہی ایک وائرس ہے۔ اس سے ایچ آئی وی سے متاثرہ شخص میں ایڈز کی بیماری تیزی سے نہیں پھیلتی۔ اور اگر یہ وائرس کسی شخص کے جسم میں ہے تو پھر ایبولا وائرس سے مرنے کا امکان کم ہوجاتا ہے۔
ہرپیز کا وائرس چوہوں کو طاعون اور لیسٹیریا (زہر خورانی کی ایک عام قسم) جیسی بیماریوں سے بچا سکتا ہے۔ انسانوں پر ان بیماریوں کا تجربہ کرنا غیر اخلاقی ہوگا لیکن سائنسدانوں کو یقین ہے کہ چوہوں میں نظر آنے والے اثرات ممکنہ طور پر انسانوں میں بھی ہو سکتے ہیں۔
وائرس ہمارے لیے کئی بیماریوں سے لڑنے کی دوا بھی بن سکتے ہیں۔ 1920 کی دہائی میں سوویت یونین میں اس بارے میں کافی تحقیق ہوئی تھی۔ اب دنیا میں بہت سے سائنس دان ایک بار پھر فیج تھیراپی پر تحقیق کر رہے ہیں۔
فیج تھیراپی میں وائرسوں کے ذریعے بیکٹیریائی انفیکشن کو ہدف بنایا جاتا ہے۔ یہ اب تیزی سے بڑھتا ہوا شعبہ ہے، نہ صرف اس لیے کیونکہ بیکٹیریا میں اینٹی بائیوٹک ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا ہو رہی ہے بلکہ اس لیے بھی کیونکہ ان کے ذریعے ہم مخصوص بیکٹیریا کو ہدف بنا سکتے ہیں۔ اس کے برعکس اینٹی بائیوٹک ادویات ہمارے جسم میں موجود تمام بیکٹیریا کو بلا تخصیص نشانہ بنتی ہیں۔
سٹل کا کہنا ہے کہ وائرسوں کے ذریعے ایسی کئی جانیں بچائی جا چکی ہیں جہاں اینٹی بائیوٹک ادویات ناکام ہوگئی تھیں۔ اس کے علاوہ اونکولائیٹک وائرس یعنی وہ جو کینسر کے خلیوں کو متاثر کر کے تباہ کر دیتے ہیں، ان پر بھی زیادہ تحقیق کی جا رہی ہے تاکہ کینسر کا ایک کم زہریلا اور زیادہ مؤثر علاج تیار کیا جا سکے۔
کرٹس سٹل کا کہنا ہے کہ ’ان بیماریوں سے لڑنے کے لیے ہم وائرسوں کا ایک گائڈیڈ میزائل کی طرح استعمال کرسکتے ہیں جو براہ راست نقصان دہ بیماریوں پر نشانہ لگا کر بیکٹیریا یا کینسر کے خلیوں کو تباہ کر دیں گے۔‘
وائرس کے ذریعے ہم تمام بیماریوں کے علاج کے لیے نئی قسم کی دوائیاں تیار کرسکتے ہیں۔
چونکہ وائرس مستقل طور پر تبدیل ہوتے رہتے ہیں اس لیے ان کے پاس جینیاتی معلومات کی دولت موجود ہے۔ یہ دوسرے خلیوں میں داخل ہوکر اپنی جیناتی معلومات کی نقل کرنے کے نظام پر قبضہ کر لیتے ہیں، اس لیے ان وائرسوں کا جینیاتی کوڈ اس جاندار کے خلیوں میں ہمیشہ کے لیے درج ہوجاتا ہے۔
ہم انسانوں کے آٹھ فیصد جین بھی وائرس سے ہی ملے ہیں۔ 2018 میں سائنس دانوں کی دو ٹیموں نے الگ الگ طور پر دریافت کیا تھا کہ قدیم وائرسوں سے حاصل ہونے والے ایک جین کے ذریعے ایسا پروٹین پیدا ہوتا ہے جو اعصابی نظام میں خلیوں کے درمیان معلومات کا تبادلہ کر کے طویل مدتی یادداشت کی تیاری میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
لیکن شاید اس کی سب سے اہم مثال ممالیہ جانوروں میں آنول نالی کی ارتقا ہے۔ اس حوالے سے شواہد موجود ہیں کہ زندہ بچوں کو جنم دینے کی ہماری صلاحیت جینیاتی کوڈ کے اس ٹکڑے کی بدولت ہے جو ہمارے اجداد کو 13 کروڑ سال قبل متاثر کرنے والے قدیم ریٹرووائرسوں سے آیا۔
سنہ 2018 میں یہ دریافت کرنے والے سائنسدانوں نے پلوس بائیولوجی میں لکھا: ‘یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر ہمارے ارتقائی اجداد کو ریٹرووائرس وباؤں کا سامنا نہ کرنا پڑتا، تو انسانی حمل بہت مختلف ہوتا یا شاید وجود ہی نہ رکھتا۔’
ماہرین کو یقین ہے کہ کثیر خلیوں والی تمام حیاتیات میں اس طرح کی مثالیں موجود ہیں۔ سٹل کہتے ہیں کہ ‘ممکنہ طور پر ایسے کئی عوامل ہیں جن کے بارے میں ہم اب تک جانتے بھی نہیں ہیں۔’
سائنسدانوں نے ابھی صرف یہ دریافت کرنا شروع ہی کیا ہے کہ وائرس زندگی کی بقا میں کیسے مدد کرتے ہیں، کیونکہ انھوں نے صرف حال میں اس جانب توجہ دی ہے۔ اور بالآخر ہم نہ صرف بیماری پھیلانے والے بلکہ تمام وائرسوں کے بارے میں جتنا زیادہ جانیں گے، اتنا ہی زیادہ ہم چند وائرسوں کو بہتری کے لیے اور ان دیگر وائرسوں کے خلاف اپنا دفاع کرنے کے لیے استعمال کر سکیں گے جو ممکنہ طور پر اگلی عالمی وبا کا باعث بن سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ وائرسوں کے تنوع کے بارے میں زیادہ جاننے سے ہمیں یہ علم حاصل ہوگا کہ ہماری زمین، اس کے ماحولیاتی نظام اور اس پر موجود اجسام کیسے کام کرتے ہیں۔
کرٹس سٹل کہتے ہیں: ‘ہمیں یہ جاننے کے لیے کوششیں کرنے کی ضرورت ہے، اور یہ ہمارے اپنے ہی بھلے کے لیے ہوگا۔’