خیبرپختونخوا: شہری انصاف کارڈ کے لیے مختص 10 لاکھ روپے کیسے اور کہاں خرچ کر سکیں گے؟
پاکستان میں صوبہ خیبر پختونخوا اب پہلا ایسا صوبہ ہے جہاں ہر فیملی 10 لاکھ روپے تک کا علاج کسی بھی ہسپتال سے مفت کرا سکتی ہے۔ اس کے لیے اگر کسی نے دل کا آپریشن کرانا ہے یا گردوں کا ٹرانسپلانٹ کرانا ہے تو وہ صحت انصاف کارڈ کے ذریعے کرا سکتا ہے۔
وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان نے جمعرات کو صوبہ خیبرپختونخواہ کے ہر خاندان کو صحت انصاف کارڈ کی فراہمی کے 18 ارب روپے کے پروگرام کا اجرا کر دیا ہے جس کے تحت ہر خاندان کو دس لاکھ روپے تک علاج کی مفت سہولت فراہم کی جائے گی۔
پاکستان میں کسی بھی صوبے میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا منصوبہ ہے۔ اس سے پہلے صوبے کے 40 فیصد ضرورت مند افراد کو یہ سہولت فراہم کی گئی تھی۔
صحت انصاف کارڈ: یہ دس لاکھ کیسے خرچ ہوں گے؟
صوبے کے 60 لاکھ خاندان اس سہولت سے مستفید ہوں گے۔
اس منصوبے کے تحت 2 لاکھ روپے بنیادی صحت اور ایمرجنسی جیسے واقعات کے لیے ہوں گے۔ اس میں فوری نوعیت کے علاج جیسے کوئی ایمر جنسی ہو گئی ہے اور اس کے لیے ہسپتال میں داخل ہونا ہوتا ہے، زچگی کے لیے ڈاکٹر کے پاس جانا اور علاج کرانا، جنرل سرجری جیسے پتے یا ہرنیا کا آپریشن وغیر اور اس کے علاوہ ذیابطیس، بلڈ پریشر اور دل کے عارصے کی ادویات پر خرچ کیے جا سکیں گے۔
اس کے بعد 4 لاکھ روپے ایڈوانس علاج کے لیے ہیں۔ اس میں جیسے گردوں اور دل کی بیماریوں کے علاج، اینجو پلاسٹی اور اوپن اہرٹ سرجری، ذیابطیس، مصنوعی اعضاء اور نیورو سرجری کے حوالے سے بیماریوں کے علاج پر خرچ کیے جا سکیں گے۔
اس کے علاوہ 4 لاکھ روپے بڑے آپریشنز جیسے اعضا کے ٹرانسپلانٹ اور کینسر جیسی بیماریوں کے علاج کے لیے مختص ہوں گے۔
یہ علاج کوئی بھی شہری کسی بھی سرکاری یا نجی ہسپتال سے کرا سکتا ہے۔ اس کے لیے ملک بھر میں ہسپتالوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
صوبائی حکومت نے سٹیٹ لائف انشورنس کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے اور اس کے لیے 18 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
اس منصوبے پر عمل درآمد اس سال اکتوبر سے مرحلہ وار ہوگا۔ پہلے مرحلے میں سوات چترال اور ملاکنڈ کے علاقے ہیں، اس کے بعد نومبر، دسمبر اور جنوری میں دیگر اضلاع میں عمل درآمد کیا جائے گا۔
کیا 10 لاکھ روپے میں بڑے علاج ممکن ہو سکیں گے؟
پاکستان میں بیشتر بڑے آپریشن یا ٹرانسپلانٹ کی سہولت سرکاری ہسپتالوں میں کم ہی نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر کڈنی ٹرانسپلانٹ کے لیے خیبر پختونخوا میں ایک ہی ہسپتال ہے، انسٹیٹیوٹ آف کڈنی ڈیزیز (آئی کی ڈی) جبکہ نجی سطح پر بھی ایک ہی پرائیویٹ ہسپتال ہے جہاں گردوں کا ٹرانسپلانٹ کیا جاتا ہے۔
نجی سطح پر اس کا خرچ 12 سے 15 لاکھ روپے ہوتا ہے۔ اس طرح دل کے بڑے آپریشنز پر بھی اخراجات کہیں زیادہ آتے ہیں۔ تاہم مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے بڑی حد تک لوگوں کو سہولت فراہم ہو سکے گی۔
وزیراعظم عمران خان کیا کہتے ہیں؟
آج جمعرات کو اس منصوبے کے اجرا کے موقع پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ یہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے جس سے عام لوگوں کو صحت کی سہولت میسر ہوگی۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان میں علاج معالجے پر غریب لوگوں کی بڑی رقم خرچ ہو جاتی ہے جس سے ان کا بجٹ متاثر ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دیگر صوبوں کو بھی اس کی پیروی کرنی چاہیے اور اب عوامی دباؤ بھی بڑھے گا اور وہ خود صوبہ پنجاب اور بلوچستان سے کہیں گے کہ اس پر عمل درآمد کیا جائے جس کے بعد سندھ میں بھی یہ منصوبہ شروع کرنا پڑے گا۔
ڈاکٹرز کیا کہتے ہیں؟
صحت انصاف کارڈ ضرورت مند افراد کے لیے خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے گزشتہ صوبائی دور حکومت میں شروع کیا گیا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ نجی ہسپتالوں نے صحت انصاف کارڈ کے تحت سرجریز بند کردی تھیں اور یہ شکایات آنے لگی تھیں کہ ہسپتالوں کو ادائیگی میں تاخیر ہوتی رہی ہے۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر رضوان کنڈی نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ ’تجربہ ناکام رہا ہے‘ اور ماضی میں بھی ضرورت مند افراد کے لیے پرائیویٹ ہسپتالوں میں یہ سہولت بند کر دی گئی تھی۔
رضوان کنڈی کا کہنا ہے کہ ان کی رائے کے مطابق جو رقم صحت انصاف کارڈ کے لیے مختص کی گئی ہے اس سے موجودہ ہسپتالوں میں بنیادی ضروریات مکمل کر دی جائیں یا اس رقم سے نئے ہسپتال بنائے جائیں جو مستقل حل ہوگا اور اس سے لوگوں کو صحت کی بہتر سہولیات دستیاب ہو سکیں گی۔