… اور اندیشہ ہائے دور دراز
اشرف ممتاز چسکہ لینے کے موڈ میں تھا۔ اس کا فون تھا: نواب زادہ صاحب زندہ ہوتے تو اس صورتحال پر کون سا شعر پڑھتے؟ بابائے جمہوریت اپنی گفتگو میں اشعار کے برموقع اور برمحل استعمال سے بات کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتے!! ہمیں ایسے متعدد مواقع یاد ہیں؛ چنانچہ کبھی کبھی کسی خاص صورتِ حال کے حوالے سے لکھتے ہوئے نواب زادہ صاحب کا سہارا لیتے ہیں کہ وہ زندہ ہوتے تو یہ شعر پڑھتے۔ اشرف ممتاز کا اشارہ، سزائے موت کے حالیہ عدالتی فیصلے اور اس پر کسی لاگ لپیٹ کے بغیر شدید غم و غصے اور اضطراب کے اظہار کی طرف تھا (فرزندِ لال حویلی کے بقول، ایسا تلخ ترین ردِ عمل انہوں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ ایسے میں انہیں حالات مزید بگڑتے نظر آرہے تھے) اشرف ممتاز کو ہمارا جواب تھا: رات خواب میں نواب زادہ صاحب سے ملاقات ہوئی، وہیں 32 نکلسن روڈ پر، نواب زادہ صاحب کے ڈیرے میں۔ وہ عدلیہ کی آزادی پر خوش تو تھے لیکن اس ردِ عمل میں پنہاں خطرات پر مضطرب بھی۔ وہ غالب کا یہ شعر پڑھ رہے تھے:
تو اور آرائشِ خمِ کاکل
میں اور اندیشہ ہائے دور دراز
پرویز مشرف 3نومبر 2007 کی ”ایمرجنسی پلس‘‘ پر اس سزا کے مستحق قرار پائے ہیں۔ ہمیں 2 نومبرکی شام یاد آئی۔ ہم جدہ میں اپنے دفتر سے پیشہ ورانہ (صحافتی) مصروفیات سے فراغت پاکر ”شریف پیلس‘‘ چلے آئے تھے اور میاں صاحب کے پاس تھے، جب پاکستان سے ایک کال آئی جو آدھ گھنٹے پر محیط ہوگئی تھی۔ باخبر کالر میاں صاحب کو بتا رہا تھا کہ مشرف نے اعلیٰ عدلیہ کے آزاد منش ججوں سے نجات اور میڈیا کی زبان بندی کے لیے ایمرجنسی کے نفاذ کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اِدھر میاں صاحب کا کہنا تھا کہ آئین جس ایمرجنسی کی اجازت دیتا ہے، اس کے تحت ججوں سے نجات کیسے حاصل کی جا سکتی ہے؟ اگلے روز پرویز مشرف نے جس اقدام (PCO) کا اعلان کیا، 12 اکتوبر 1999 کے اقدام کی طرح اس غیر آئینی اقدام کو بھی مارشل لاء کا نام نہیں دیا گیا تھا بلکہ اسے ”ایمرجنسی پلس‘‘ کہا گیا؛ البتہ اس کا ہدف حکومت، سیاسی جماعتیں اور پارلیمنٹ نہیں بلکہ اعلیٰ عدلیہ تھی‘ اور مقصد مزید 5 سال کیلئے اپنی صدارت کا تحفظ تھا۔
6 اکتوبر 2007 کے صدارتی انتخاب میں مشرف کے مدمقابل جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے مشرف کی اہلیت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا تھا۔ ان کا موقف تھا کہ آرمی چیف کی حیثیت سے مشرف صدارتی الیکشن کے لڑنے کے اہل نہیں۔ یہ سوال بھی موجود تھا کہ 10 اکتوبر 2002 کو منتخب ہونے والی قومی و صوبائی اسمبلیاں، جو اپنی آئینی عمر کے آخری سانس لے رہی تھیں، کیا مشرف کو آئندہ 5 سال کے لیے صدر منتخب کرنے کا اختیار رکھتی تھیں؟ اس سے قبل قاضی حسین احمد (مرحوم) اور ڈاکٹر مبشر حسن نے بھی انہی بنیادوں پر مشرف کی اہلیت کو چیلنج کیا تھا‘ لیکن ان کی درخواست اس بنا پر مسترد کر دی گئی کہ وہ اس معاملے میں ”متاثرہ فریق‘‘ نہیں (کہ وہ صدارتی امیدوار نہیں تھے)۔ اپوزیشن جماعتوں نے نہ صرف صدارتی انتخاب کا بائیکاٹ کیا بلکہ قومی وصوبائی اسمبلیوں سے مستعفی بھی ہوگئی تھیں۔ صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت تھی۔ وہاں وزیر اعلیٰ اکرم درانی کی ایڈوائس پر صوبائی اسمبلی توڑی جاسکتی تھی اور یوں صدارتی انتخاب کا الیکٹورل کالج نامکمل ہوجاتا، لیکن درانی صاحب نے تاخیر کردی اس دوران اپوزیشن ان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لے آئی جس کے بعد وہ اسمبلی توڑنے کے صوابدیدی اختیار سے محروم ہوگئے۔ پیپلز پارٹی کے صدارتی امیدوار مخدوم امین فہیم نے صدارتی انتخابات سے علیحدگی اختیار کرلی لیکن وہ (این آر اوکے باعث) اسمبلیوں سے مستعفی نہ ہوئی۔ جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے ”متاثرہ فریق‘‘ کی حیثیت سے مشرف کی اہلیت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کررکھا تھا۔ گیارہ رکنی بنچ اس کی سماعت کررہا تھا۔ 6 اکتوبر (صدارتی الیکشن کا دن) تک سماعت مکمل نہ ہوسکی تو سپریم کورٹ نے مقررہ تاریخ پر الیکشن تو ہونے دیا لیکن اس کی آئینی حیثیت کے فیصلے تک نتیجے کا سرکاری اعلان روک دیا۔ ادھر فیصلے کی گھڑی قریب آرہی تھی، ادھر مشرف کیمپ میں اضطراب بڑھتا جارہاتھا۔ یہ گمان غالب تھا کہ سپریم کورٹ 6 اکتوبر کے صدارتی انتخاب کو غیرآئینی قرار دے دے گی؛ چنانچہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری والی سپریم کورٹ (اور ہائی کورٹس کے بھی ”ناپسندیدہ‘‘ ججوں ) سے نجات کا فیصلہ کیا گیا اور اس کے لیے 3 نومبر کی ”ایمرجنسی پلس‘‘کا سہارا لیا گیا۔
3 نومبر کے اس غیرآئینی اقدام نے پورے ملک میں احتجاج کی لہر دوڑا دی تھی۔ آٹھ، نو ریٹائرڈ جرنیلوں نے بھی مشرف کے نام خط میں مطالبہ کیا کہ وہ آرمی چیف کے عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔ ان میں جنرل (ر) معین الدین حیدر بھی تھے (جو مشرف حکومت میں طویل عرصہ وزیر داخلہ رہے تھے) اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل درانی بھی۔ ادھر ریٹائرڈ فوجیوں کی تنظیم (ایکس سروس مین سوسائٹی) اپنے اجلاس میں مطالبہ کررہی تھی کہ پرویز مشرف صدارت سے دستبردار ہو جائیں کہ اپنی متنازعہ حیثیت کے باعث وہ وفاقِ پاکستان کی علامت نہیں رہے۔ اجلاس نے 3 نومبر والی عدلیہ کی بحالی کا مطالبہ بھی کیا اور یہ بھی کہ سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے قومی اتفاق رائے کی حکومت قائم کی جائے تاکہ ملک میں حقیقی معنوں میں آزادانہ و منصفانہ انتخابات کا انعقاد عمل میں آ سکے۔ سوسائٹی نے قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن بند کرنے کا مطالبہ بھی کیا اور اس کے ساتھ اپنے 25 لاکھ ارکان سے اپیل بھی کہ وہ جمہوریت، آئین اور عدلیہ بحالی کی تحریک میں سول سوسائٹی کا ساتھ دیں۔ جنرل چشتی تو کار گل کے معاملے پر کورٹ مارشل کے مطالبے تک جا پہنچے تھے جبکہ جنرل جمشید گلزار کیانی (سابق کورکمانڈر پنڈی) مشرف کے استعفیٰ نہ دینے کی صورت میں انہیں ٹف ٹائم دینے کی بات کر رہے تھے۔
پھر ایک لمبی کہانی ہے۔ یہاں تک کہ جون 2013 میں نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بن گئے۔ اس سے پہلے مارچ 2009 میں نواز شریف کی زیر قیادت لانگ مارچ کے نتیجے میں 3 نومبر 2007 والی عدلیہ بحال ہو چکی تھی‘ اور اس نے 31 جولائی 2009 کے فیصلے میں 3 نومبر کے PCO کو آئین شکن قدم قرار دے دیا تھا (آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کا ارتکاب)
وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے تین ہفتے بعد وزیر اعظم نواز شریف پارلیمنٹ سے خطاب میں مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانے کا اعلان کر رہے تھے (اسی صبح وفاقی کابینہ اس کی منظوری دے چکی تھی اور ایف آئی اے کو اس کیس کی تفتیش کی ذمہ داری سونپ دی گئی تھی)۔ پارلیمنٹ سے خطاب میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ہمارے بیشتر مسائل آئین سے انحراف کا نتیجہ ہیں۔ آج پاکستان کے آخری ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے ساتھ آئین اور قانون کے مطابق معاملہ کرنے کا فیصلہ درپیش ہے جس نے ایک بار نہیں دو بار آئین توڑا اور دونوں بار کوئی نام نہاد قومی مصلحت نہیں بلکہ ان کا ذاتی مفاد اس کا محرک بنا۔ گزشتہ پارلیمنٹ خراجِ تحسین کی مستحق ہے کہ اس نے 3 نومبر کے غیرآئینی اقدام کو انڈمنٹی دینے سے انکار کر دیا۔ پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ پرویز مشرف کو اب عدالت کے روبرو اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔
جنرل حمید گل (پیر پگارا مرحوم انہیں طنزاً ”فاتح جلال آباد‘‘ کہا کرتے) ہمارے ویژنری جرنیلوں میں شمار ہوتے تھے۔ مشرف کے خلاف 2007 کی ”جسٹس موومنٹ‘‘ میں وہ بھی پیش پیش تھے، لیکن اب ان کا کہنا تھا کہ فوج اپنے سابق سردار کے خلاف غداری کا مقدمہ برداشت نہیں کرے گی۔
ہمیں جنرل مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کے فیصلے پر آئی ایس پی آر کے ردِ عمل سے اپنے ”ویژنری جرنیل‘‘ کی یہ بات پھر یاد آئی۔ ادھر ایکس سروس مین ایسوسی ایشن نے بھی آئی ایس پی آر کے اس بیان کی مکمل تائید کرتے ہوئے ریٹائرڈ فوجیوں کے عزت و احترام کا خیال کرنے پر زور دیا اور اس کے ساتھ یہ بھی کہ ”ورنہ ماضی کی غلطیوں کا اعادہ بھی ہو سکتا ہے‘‘ ہمیں نواب زادہ صاحب پھر یاد آئے:
تو اور آرائشِ خمِ کاکل
میں اور اندیشہ ہائے دور دراز