منتخب تحریریں

جی ایچ کیو پر ایک بورڈ لگا دیں

Share

اب تک تو ہم حزبِ اختلاف اور حکومت میں براہِ راست مچاٹا دیکھنے کے عادی تھے۔ کسی کلیدی ریاستی ادارے اور اپوزیشن کے مابین براہِ راست دنگل کی روایت نہیں تھی۔ مگر گذشتہ ہفتے سے یہ روایت بھی پڑ گئی۔

آسمان نے دیکھا کہ جاری سیاسی تھیٹر کے سٹیج پر اوور ایکٹنگ کرنے والی شلوار سوٹ حکومت اچانک مہمان اداکار میں تبدیل ہو گئی اور کہانی نے انہونا موڑ لے لیا۔

سٹیج کے پیچھے کا کبھی نہ اٹھنے والا پردہ بھی اٹھ گیا اور بی گریڈ اداکاروں کی بور ایکٹنگ سے اکتائے چھچھورے تماشائیوں کی مسلسل ہوٹنگ سے فلاپ ہوتے ڈرامے کو بچانے کے لیے ڈرامہ کمپنی کے مصنف، ہدایت کار، سیٹ ڈیزائنر، کاسٹیوم ڈیزائنر، فنانسر، مینیجر وغیرہ کو براہ راست سٹیج پر آنا پڑ گیا اور پھر بدتمیز تماشائیوں سے دوبدو فقرے بازی اور گالم گفتار شروع ہو گئی۔

ایسا ڈرامائی تجربہ تو کبھی براڈوے، ویسٹ اینڈ اور بریخت کے ڈراموں میں بھی نہیں سوچا گیا تھا۔

اس کے بعد سے اب تک سٹیج پر جو کچھ دیکھنے میں آ رہا وہ پیسہ وصول اوریجنل تھیٹر ہے۔

اگرچہ دھما چوکڑی میں اوریجنل سکرپٹ پھٹ چکا ہے۔ ہر کردار چیخ رہا ہے مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کہانی ہدایت کار کے کنٹرول سے آزاد ہونے اور خودکار موڑ مڑنے کے باوجود بے ہنگمیت کا شکار نہیں بلکہ مسلسل آگے بڑھ رہی ہے۔

بقول افتخار عارف:

کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے

یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشہ ختم ہوگا

مجھے ذاتی طور پر سب سے اچھا ڈائیلاگ یہ لگا کہ اپوزیشن حساس قومی اداروں کو سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش نہ کرے کیونکہ ان اداروں کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں اور پھر اگلی ہی سانس میں حساس قومی ادارے کے رسمی و غیر رسمی ترجمان میڈیا پر یہ بھی بتا رہے ہیں کہ کس سیاستدان نے کب کب چھپ کر کس قومی ادارے کے اعلیٰ عہدیدار سے ملاقات میں کیا کیا کہا اور اس کے جواب میں قومی ادارے کے عہدیدار نے کیا کہا۔

اس دو بدو کے بعد سوال اٹھتا ہے کہ کیا کوئی طاقت ور سمجھا جانے والا ادارہ ایسا بھی ہو سکتا ہے جو کوئی کام نہ کرنا چاہے مگر کوئی بھی باہر کا شخص اس سے زبردستی اپنی مرضی کا کام کروالے۔

چلو کوئی یہی بتا دے کہ ہم جو بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ فوج پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کے ساتھ ساتھ نظریاتی سرحدوں کی بھی محافظ ہے تو اس جملے کا آسان اردو میں کیا ترجمہ ہے؟

اے پی سی

موجودہ چھیچھا لیدر سے خود کو بالا رکھنے کے لیے جی ایچ کیو کے ہر گیٹ پر یہ بورڈ لگانا کتنا مشکل ہے کہ:

’برائے کرم تمام سیاستدان، سویلین آئینی عہدیددار، ارکانِ پارلیمان و اسمبلی، بیوروکریٹس، میڈیا نمائندے فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) سے صبح نو سے دوپہر 12 بجے کے درمیان صرف غیر سویلین معاملات کے سلسلے میں رابطہ کر سکتے ہیں۔ معیار کو برقرار رکھنے کے لیے ملاقات یا کال کا آڈیو ویڈیو اور تحریری ریکارڈ محفوظ رکھا جائے گا جسے کوئی بھی مجاز عہدیدار عندالطلب ملاحظہ کر سکتا ہے۔

’نیز اعلیٰ فوجی قیادت سے ملاقات کی خواہش مند سرکاری و غیر سرکاری شخصیات و میڈیا نمائندے وزارتِ دفاع کے ذریعے اور غیر ملکی سفارت کار وزارتِ خارجہ کے توسط سے تحریری درخواست دے سکتے ہیں۔ اس درخواست کے منظور یا رد ہونے کے بارے میں درخواست گزار کو اگلے 48 گھنٹے میں سیکریٹری دفاع کے دفتر سے مطلع کر دیا جائے گا۔‘

آپ کو شاید یاد ہو کہ جب ایبٹ آباد پر دو مئی 2011 کو امریکی حملہ ہوا تھا تو سپاہ سالار جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل شجاع پاشا نے 13 مئی کو پارلیمان کے بند اجلاس میں حکومت اور پارلیمان کو بریفنگ دی تھی۔

چنانچہ یہ کس قدر مشکل ہے کہ جب بھی قومی قیادت یا ارکانِ پارلیمان کو کسی حساس قومی مسئلے پر بریفنگ درکار ہو تو بجائے پورا کا پورا سویلین غول جی ایچ کیو یا آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر تشریف لے جائے اور پھر میڈیا میں چہ میگوئیوں کا طوفان آ جائے اور سرکار اور اپوزیشن کے درمیان والی بال شروع ہو جائے۔

چند متعلقہ اعلیٰ دفاعی عہدیدار پارلیمان کے بند ہال، کمیٹی روم، ایوانِ صدر یا ایوانِ وزیرِ اعظم میں بنفسِ نفیس بریفنگ دے دیا کریں۔ جیسا کہ دیگر ممالک میں روایت ہے۔

رہی بات دفاعی اداروں کی سیاسی غیر جانبداری کی تو یہ بات تواتر سے دہرانے کی ضرورت ہی نہیں۔ جب چاند چڑھتا ہے تو سب ہی دیکھ لیتے ہیں۔ چاند کو ایک ایک کو پکڑ کے بتانے کی ضرورت تھوڑا پڑتی ہے۔