منتخب تحریریں

ایک روٹی کا سوال ہے بابا!

Share

ہمارے صاحبانِ اقتدار بنیادی طور پر بہت سادہ لوح لوگ ہیں۔ اگر اُن کی دکھتی رگ پر ہاتھ نہ رکھا جائے بلکہ توصیف آمیز تنقید کریں تو وہ خوش دلی سے قبول کر لیتے ہیں بلکہ وہ اِسے صحت مند تنقید کہتے ہیں۔ اِسی طرح حکومت میں شامل کسی ایک فرد کی جی بھر کر تعریف کر دی جائے تو وہ اپنی حکومت سے بالا بالا میڈیا پرسن کو خوش کرنے میں لگا رہتا ہے بلکہ حکومت میں اُس کی لابی بن جاتی ہے اور یوں ایک ہی وقت میں مرکز اور صوبے سے خوشگوار تعلقات قائم رکھنا ممکن ہو جاتا ہے۔ تاہم میرے نزدیک دوسری صورت زیادہ سود مند ہے یعنی صوبائی حکومت اور مرکزی حکومت میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لیا جائے اور اقتدار کی اِس جنگ میں کالم کو نیام میں سے نکال کر کرپان کی طرح ہوا میں لہرایا جائے۔ اِن دنوں میڈیا پرسنز کو اِس ضمن میں ایک سہولت بھی حاصل ہے یعنی صوبائی حکومت اور مرکزی حکومت الگ الگ جماعتوں کی ہے اور یوں اِن دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ’’الحاق‘‘ خوشامد یا مفاداتی سرگرمیوں کی ذیل میں نہیں آتا۔ بلکہ اِسے نظریاتی عمل کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ میں اِن دنوں متذکرہ صورتحال پر غور کر رہا ہوں تاہم فی الحال کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچا۔

اگر آپ سچ پوچھیں تو مجھے اِس قدر الجھن کا شکار ہونے کی وجہ خود بھی سمجھ نہیں آتی کیونکہ ماضی میں ہر نئی حکومت کی آمد پر میرا لائحہ عمل پہلے سے تیار ہوتا تھا اور مجھے اُس پر عمل درآمد میں کبھی کسی ذہنی الجھن کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ مثلاً ایوب خان کے زمانے میں میرا تجزیہ یہ تھا کہ ٹھیک ہے، ملک میں آمریت کی بنیادیں رکھ دی گئی ہیں لیکن اِس آمریت کی بھرپور سپورٹ وقت کا تقاضا ہے، اُس کے لئے میں نے ایوب خان کی متعارف کردہ بنیادی جمہوریت کے تصور کو اپنے تھیسز کا مرکزی نکتہ بنایا کہ تیسری دنیا کے ممالک کو اِسی قسم کی جمہوریت کی ضرورت ہے۔ ایوب خان نے ملک بھر میں صنعتوں کا جو جال بچھایا، اُس کے حوالے سے میں نے ملکی معیشت کے استحکام کو بنیاد بنا کر ایوب خان کی حمایت میں متعدد کالم لکھے۔

1965میں انڈیا کے ساتھ جنگ ہوئی تو میں نے ایوب خان کے مجاہدانہ کردار کو بنیاد بنا کر اُنہیں فیلڈ مارشل اور تا حیات صدر بنانے کی تجویز پیش کی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے عنانِ حکومت سنبھالی تو میں نے اُن کے فسطائی اقدامات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اُن کے اسلامی سوشلزم کے نعرے کی بنیاد پر اُن کی حمایت کا اعلان کیا اور اپنے دوستوں میں یہ تھیسز پیش کیا کہ رجعت پسندوں کے مقابلے میں بھٹو صاحب کو سپورٹ کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ اُن کے بعد ضیاء الحق آئے تو آمریت کا روڑا ایک دفعہ پھر درمیان میں تھا۔ اُس روڑے کو میں نے یہ کہہ کر درمیان سے ہٹایا کہ ضیاء الحق کھل کر اسلام کا نام لینے والا پہلا حکمران ہے لہٰذا سرخوں اور لادینی قوتوں کو نیچا دکھانے کے لئے اُن کی بھرپور حمایت ضروری ہے۔ غرضیکہ ہر حکومت کے دور میں مجھے حکومت کی ہم نوائی کی سہولت بھی حاصل رہی اور میں نے اپنی نظریاتی پاک دامنی پر کبھی کوئی حرف بھی نہیں آنے دیا۔

میں نے اپنے ایک دوست سے اپنی متذکرہ الجھن بیان کی اور کہا یہ پہلا موقع ہے کہ نئی حکومت بلکہ حکومتوں کو وجود میں آئے دو سال سے زیادہ ہو چکے ہیں مگر ابھی تک اپنا لائحہ عمل مرتب نہیں کر سکا جب کہ میرے دوستوں میں سے کوئی حکومت پنجاب کا وظیفہ خوار بن چکا ہے، کوئی مرکزی حکومت سے من کی مرادیں پوری کر رہا ہے اور کوئی سندھ یا بلوچستان حکومت اور کوئی ان سب کو بےوقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کرنے میں مشغول ہے۔ میں 1947میں قیامِ پاکستان کے وقت چھوٹا ہونے کی وجہ سے لوٹ مار میں شریک نہ ہو سکا، جس کا مجھے اب تک افسوس ہے اور 2020میں اُس پیمانے کی ’’کمائی‘‘ کا یہ دوسرا موقع ہے جو میں قوتِ فیصلہ میں کمی کی وجہ سے گنوا رہا ہوں۔ خدا کے لئے مجھے اِس قومی نقصان سے بچائو۔

مجھے علم نہیں تھا کہ میرا یہ دوست ذرا وکھری ٹائپ کا ہے۔ چنانچہ اُس نے مجھے کسی کام کا مشورہ دینے کی بجائے کہا ’’صرف اخبار یا کسی چینل سے وابستگی کے حوالے سے بےشمار افراد کی آنکھیں اُس پر ہوتی ہیں اور آج کل یہ آنکھیں صرف مفاد تلاش کرنے میں مشغول ہیں، ہر کوئی لوٹ مار میں مشغول ہو گیا ہے یہ سوچے بغیر کہ وہ اپنا ہی گھر لوٹ رہا ہے چنانچہ اب لٹیروں کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں رہا، ہم سب لوگ اپنے دھڑے کے نوے فیصد جھوٹ سے صرفِ نظر کر کے اُس کے دس فیصد سچ کی حمایت میں مشغول ہیں۔ قیامت والے دن یہ سچ گرم کرکے ہماری پیشانیوں پر لگایا جائے گا اگر تمہارا خدا پر اور جزا پر ایمان ہے تو اپنی جھولیاں نیچے گرا دو کہ اِن جھولیوں میں تم سیم و زر نہیں دوزخ کی آگ اکٹھی کر رہے ہو‘‘۔

میرے لئے دوست کی یہ تقریر بالکل غیرمتوقع تھی چنانچہ میں نے گھبرا کر اپنی پھیلی ہوئی جھولی نیچے گرا دی مگر دوسرے ہی لمحے میں نے غیرارادی طور پر اپنی دھوتی کا پلا اوپر اٹھایا اور اسے جھولی کی طرح پھیلا کر کھڑا ہو گیا یہ دیکھ کر ذرا وکھری ٹائپ کے کالم نگار نے اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا۔