بس بہت ہو گئی
ملک میں سیاسی افراتفری کا یہ عالم ہے کہ ابھی ایک کٹا ٹھیک طریقے سے بندھتا بھی نہیں کہ دوسرا کٹا کھل جاتا ہے۔ تازہ ترین کٹا ایاز صادق نے کھولا ہے اور اس بے ہودہ طریقے سے کھولا ہے کہ موصوف اب اپنا کھولا ہوا کٹا خود باندھنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر بعض کٹے اتنے واہیات ہوتے ہیں کہ کھولنے والے کا سب سے پہلے ستیاناس کرتے ہیں‘ یہ معاملہ بھی بالکل اسی قسم کا ہے۔
ہمارے ہاں ہر اپوزیشن کا وتیرہ ہے کہ وہ حکمرانوں کو بھارتی ایجنٹ قرار دیتی آ ئی ہے‘ یہی حال پہلے عمران خان صاحب کا تھا اور وہ میاں نواز شریف کو مودی کا یار‘ سکیورٹی رسک‘ کشمیر پر سودا کرنے اور بھارت کو ناجائز مراعات دینے والا قرار دیتے تھے۔ اس کیلئے ان کے پاس کہنے کیلئے بے شمار باتیں تھیں۔ بغیر ویزے کے بھارتیوں کی آمد‘ مودی کی ماں کیلئے ساڑھیوں کا تحفہ‘ جندال سے خفیہ ملاقاتیں اور بھارت میں سرمایہ کاری جیسی باتیں زبان زد عام تھیں۔ اب معاملہ الٹ چل رہا ہے۔ اب لوگ باگ آرٹیکل 370 کے خاتمے پر عمران حکومت کی ناکام خارجہ پالیسی‘ بھارت کو افغانستان کیلئے پاکستان کے زمینی راستے سے تجارت کی منظوری‘ کلبھوشن کو قونصلر رسائی اور اس کیلئے خصوصی آرڈیننس کا اجرا اور سلامتی کونسل میں بھارت کو ووٹ دینے کا ذمہ دار عمران خان کو ٹھہراتے ہیں۔ اگر ان ساری باتوں کو سچ مان لیں تو لگتا ہے کہ کوئی بھی حکمران پاکستان سے مخلص نہیں ہے۔
پی ڈی ایم کے گوجرانوالہ اور کوئٹہ کے جلسے سے میاں نواز شریف کے خطاب سے جو بحث چل رہی تھی اس میں خاص بات یہ تھی کہ مسلم لیگ( ن) کے بہت سے سنجیدہ لوگ ان کی ایک ادارے کے خلاف قسط وار منفی تقاریر کے حوالے سے خاصی دفاعی پوزیشن میں چلے گئے تھے اور کوئی بھی محب وطن شخص ان تقاریر کو محض ایک شخص کے خلاف نہیں‘ بلکہ ادارے کے سربراہ کے خلاف لفظی حملوں کو پورے ادارے کے خلاف باقاعدہ سازش اور ایک مہم سمجھ رہا ہے۔ اس حوالے سے ابھی ان پر الزامات کی گرد بیٹھنے بھی نہ پائی تھی کہ ایاز صادق جو سابق حکومت کے سپیکر جیسے ذمہ دار اور آئینی عہدے پر فائز رہے ہیں‘ نے ایسی غیر ذمہ دارانہ اور ملک دشمنی پر مبنی گفتگو کی ہے کہ کسی بھی صاحب ِدانش اور پاکستان سے محبت کرنے والے کو اس کا نہ تو جواز سجھائی دے رہا ہے اور نہ صفائی۔
یہ وہ بات ہے جو اس سے پہلے بھارتیوں نے بھی نہیں کہی تھی اور نہ ہی ان کو ایسا گھٹیا اور فضول الزام لگانے کی جرأت ہوئی ‘کہ پاک فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے تو دشمن بھی قائل ہیں۔ اگر عسکری ادارے بھارت کے حملے سے خوفزدہ ہوتے تو بھلا انہیں کس نے مجبور کیا تھا کہ وہ پاکستان کی فضا میں آنے والے بھارتی طیارے کو مار گراتے؟ وہ آرام سے آنکھیں بند کیے رکھتے اور بھارتی طیارے جس طرح رات کی تاریکی میں چند دن قبل بالاکوٹ کے قریب جنگل میں بمباری کر کے اپنی ڈیوٹی پوری کرکے بھارت بھاگ گئے تھے ‘ یہ طیارہ بھی چار چھ درختوں کو نقصان پہنچا کر واپس چلا جاتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ نیشنل سکیورٹی کونسل کے اجلاس کے بعد پاکستان نے بھارت پر واضح کر دیا تھا کہ ہم اس حملے کا جواب ضرور دیں گے لیکن اپنی مرضی سے اور اپنے طے کردہ وقت پر۔ اور پھر یہی ہوا۔ پاکستان کے جنگی جہازوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی ہیڈکوارٹر کے قریب جا کر ان کے ٹارگٹ لاک کیے اور انہیں پیغام دیا کہ وہ لائن آف کنٹرول کے پار اُن کی اعلیٰ عسکری قیادت کو نشانہ بنانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور ہمت بھی۔ پھر پاک فضائیہ کے جہازوں نے لاک شدہ ٹارگٹس سے تھوڑے فاصلے پر بم گرا کر یہ بھی واضح کر دیا کہ ابھی صرف وارننگ دی ہے‘ اگر آئندہ ضرورت پڑی تو بمباری نشانے پر بھی ہو سکتی ہے۔ اگر اس وقت سرکار کی ٹانگیں کانپ رہی ہوتیں تو یہ سب کچھ نہ ہوتا۔
اب الزام برائے الزام کا نہ تو یہ مقام ہے اور نہ ہی وقت‘تاہم کارگل جنگ 1999ء میں پکڑے گئے بھارتی پائلٹ کو چھوڑنے کی میاں نواز شریف کو جو جلدی تھی اس کی کہانی منیر بلوچ لکھ چکا ہے۔ رن آف کچھ کے نزدیک پاکستانی فضائی حدود میں بھارت نے پاکستان کا نگرانی والا جہاز پی تھری اورین مار گرایا‘ اس میں سولہ شہادتیں ہوئیں اور بھارت وقوعہ تبدیل کرنے کی غرض سے پاکستانی تباہ شدہ جہاز کا ملبہ‘ جو کئی سو گز پاکستانی جغرافیائی حدود میں گرا تھا اٹھا کر بھارتی جغرافیائی حدود میں لے گیا اور پاکستان نے اس بھارتی حملے کا نہ تو کوئی جواب دیا اور نہ ہی اس پر عالمی سطح پر کوئی مؤثر آواز اٹھائی اور اب ایاز صادق کو ایسی باتیں یاد آ گئی ہیں جن کا نہ کوئی وجود ہے اور نہ حقیقت۔
یہ وہ حرکتیں ہیں جن سے ان الزامات میں جان پڑ جاتی ہے کہ میاں نواز شریف اور ان کے قریبی رفقائے کار حکومت کی دشمنی میں اتنے اندھے ہو چکے ہیں کہ حکومت دشمنی سے ذاتی دشمنی اور پھر ذاتی دشمنی سے ریاست کی دشمنی کی سطح پر آ چکے ہیں۔ گوجرانوالہ اور کوئٹہ کے جلسوں میں میاں نواز شریف کے خطاب پر حکومتی حلقوں کا کہنا تھا کہ ان خطابات پر بھارتی میڈیا خوشی کا اظہار کر رہا ہے‘ لیکن ایاز صادق کے بیان پر بھارتی میڈیا جو بغلیں بجا رہا ہے اور جس طرح اسے پاکستان کی بزدلی پر منتج کر رہا ہے اس سے 27 فروری 2019ء سے شرمندگی کا شکار بھارت اور اس کی افواج پہلی بار اس دباؤسے نکلی ہیں جس کا وہ پونے دو سال سے شکار تھیں۔ بھارت کو اس مسلسل شرمندگی‘ خجالت اور بے عزتی سے نکالنے میں جتنی مدد ایاز صادق کے بیان نے دی ہے‘ بھارت اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
اب اس بیان کی صفائی‘ اس کی وضاحت اور مزید تفصیل عذر گناہ بدتر از گناہ کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں‘ لیکن اب اس کا حل یہ ہے کہ اس پر باقاعدہ کمیشن بٹھایا جائے اور اس کا کوئی نتیجہ نکالا جائے۔ کمیشن غیر جانبدار اور با اختیار ہو‘ تا کہ اس کی سفارشات پر عمل کیا جائے اور اس قسم کے غیر ذمہ دارانہ اور ریاست دشمن بیانات کا آئندہ کے لئے راستہ روکا جائے۔ یہ کوئی مذاق نہیں کہ سابق سپیکر ایک نہایت واہیات قسم کا الزام لگائے اور کوئی شہری اس پر کسی تھانے میں مقدمہ درج کروا دے‘ اگلی صبح عمران خان بیان جاری کریں کہ اسے تو اس پرچے کا علم اخبار پڑھ کر ہوا ہے اور ایاز صادق دندناتا پھرے اور نعرے مارے کہ کسی میں ہمت ہے تو مجھے گرفتار کر کے دکھائے۔
میں اس بیان کا دوسرا پہلو بھی خواہ کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو سامنے لاتے ہوئے یہ بھی کہوں گا کہ ‘‘اگر” ایاز صادق کا بیان درست ہے تو اس پر بھی ایکشن لیا جائے اور جس جس کی ٹانگیں کانپی تھیں وہ از خود استعفیٰ دے دے اور گھر جائے‘ خواہ وہ وزیراعظم یا وزیر خارجہ ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن اگر یہ بات جھوٹ اور محض سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہے تو اب وقت آ گیا ہے کہ سیاسی مخاصمت اور ریاست دشمنی کی سرحدیں واضح طور پر علیحدہ علیحدہ کر دی جائیں اور ریاست کی عزت و آبرو کو داؤ پر لگانے والوں کو نشانِ عبرت بنایا جائے تا کہ آئندہ کسی کو اس قسم کی حرکت کی جرأت نہ ہو اور تمام سابقہ حکمرانوں اور ذمہ داروں کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا بھی پابند کیا جائے۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ‘ لیکن کسی کو یہ جرأت نہیں ہونی چاہیے کہ محض اپنے سیاسی مخالفین کو نیچا دکھاتے دکھاتے ریاست کو نیچا دکھا دے۔ اسے ایک ٹیسٹ کیس بنایا جائے اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کیا جائے۔ بس بہت ہو گئی‘ اب مزید کی گنجائش نہیں۔