کوک سٹوڈیو سے شہرت پانے والے قوال بھائی زین اور زوہیب: ’امی نے ڈنڈا پکڑا ہوتا تھا کہ کالج کیوں نہیں گئے‘
عزیز میاں، صابری برادران، استاد نصرت فتح علی خان، عابدہ پروین۔۔۔ قوالی کی دنیا میں یہ چند بڑے نام ہیں جن کی پیروی کرنا آسان نہیں اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب دنیا کا ہر شعبہ تیزی سے تبدیلی کے سفر پر گامزن ہے جس میں موسیقی بھی شامل ہے لیکن ایسی ہی دنیا میں دو نوجوان بھائیوں نے اپنا الگ نام پیدا کیا ہے۔
یہ زین اور زوہیب ہیں جو پاکستان میں ایک نئی طرز کی جدید قوالی متعارف کروانے کی کوشش میں کامیاب رہے ہیں۔
یہ کام شاید کسی اور کے لیے مشکل ہوتا لیکن زین علی اور زوہیب علی استاد حاجی رحمت علی خان کے پوتے ہیں جنھوں نے 40 سال تک استاد نصرت فتح علی خان کے ساتھ پرفارم کیا۔
’گھر والے اس حق میں نہیں تھے‘
بی بی سی سے گفتگو میں زین اور زوہیب نے اپنے بچپن اور قوالی کے سفر پر بات چیت کی جس کے دوران ان کو اپنے دادا کی حمایت حاصل تھی تو دوسری جانب والدہ کی مخالفت کا بھی سامنا تھا۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ نے موسیقی کو سوچ کر بطور کیریئر چنا تو زین اور زوہیب نے جواب دیا کہ ’ہمارے دادا جی استاد نصرت فتح علی خان کے ساتھ جاتے تھے، بس وہیں سے سفر شروع ہوا۔‘
’گھر والے تو بالکل اس حق میں نہیں تھے کہ ہم قوالی کریں۔ امی اور ابو دونوں گریجویٹ تھے۔ ان کو پتا تھا کہ جو بھی اس فیلڈ میں آتا ہے وہ پڑھتا نہیں۔ ان کا یہی تھا کہ سب سے پہلے ان کی تعلیم مکمل ہو اور اس کے بعد یہ جو کرنا چاہیں وہ کر لیں۔‘
’تو ہمیں دونوں طرف سے تھوڑی تھوڑی مار پڑی ہے کیونکہ دادا جی سے ہمیں یہ تعلیم ملنی تھی اور امی فل سخت تھیں، ڈنڈا پکڑا ہوتا تھا انھوں نے کہ کالج کیوں نہیں گئے۔‘
’تو ہمیں دونوں کا فائدہ ہوا کہ ہم تھوڑا پڑھ بھی گئے اور ساتھ ساتھ قوالی بھی سیکھ لی۔‘
ایک طرف موسیقی اور وہ بھی قوالی کا ریاض اور دوسری جانب کالج کی روایتی تعلیم۔۔۔ کم عمری میں ایسی زندگی مشکل تو تھی لیکن زین اور زوہیب کہتے ہیں کہ اس زندگی کا بھی اپنا مزہ تھا۔
’کبھی کبھی یہ بھی ہوتا تھا کہ ہوم ورک کرنے کو دل نہیں کر رہا تو ہارمونیئم یا طبلہ لے کر بیٹھ گئے۔‘
’ہمیں یہ فائدہ ہوا کہ کالج میں بھی ہمیں سکالر شپ مل گئی اسی وجہ سے اور کالج میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ اپنا کام کرتے رہے۔‘
’ہم سیدھی چیز کو الٹا کر کے دیکھتے ہیں‘
زین اور زوہیب نے قوالی جیسے مشکل فن کو ہی کیوں چنا، اس کا جواب وہ اس طرح سے دیتے ہیں۔
’قوالی میں ایک ایسی انفرادیت ہے کہ ہماری عمر میں عام طور پر آسان موسیقی کی طرف جایا جاتا ہے لیکن ہم دونوں میں کچھ ہے کہ ہم سیدھی چیز کو الٹا کر کے دیکھتے ہیں۔ ہمارا ذہن ایسا ہے۔‘
’لیکن کسی ایسے شخص کے لیے، جس کا تعلق موسیقار گھرانے سے نہ ہو، قوالی کو جاری رکھنا بہت مشکل ہے۔‘
تاہم وہ مانتے ہیں کہ قوالی میں جدت وقت کی ضرورت ہے اور اس کام میں بھی وہ استاد نصرت فتح علی خان کی ہی پیروی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
’قوالی میں اتنی صلاحیت ہے کہ موسیقی کی کوئی بھی قسم اس میں سما سکتی ہے جیسے استاد نصرت فتح علی خان نے تجربے کیے۔ انھوں نے پیٹر گیبریئل کے ساتھ کافی کام کیا جس کو پوری دنیا نے بہت پسند کیا۔ ہم بھی تجربے کرتے رہتے ہیں۔‘
گمنامی سے شہرت کا سفر
زین اور زوہیب کی قوالی سے رغبت اور ان کے دادا کے استاد نصرت فتح علی خان سے تعلق کے باوجود ان کے لیے یہ آسان سفر نہیں تھا لیکن ٹیکنالوجی نے یہاں ان کی مدد کی۔
وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح سوشل میڈیا نے ان کو ایسا پلیٹ فارم دیا جس کے ذریعے ان کو اپنے کام کو لوگوں تک پہنچانے میں مدد ملی۔
’سوشل میڈیا کی وجہ سے ہمیں کافی فائدہ ہوا کیونکہ سچی بات ہے کہ ہمارے پاس پیسے نہیں تھے خود کو پروموٹ کرنے کے لیے۔ نہ ہم کسی کے پاس جاتے تھے کہ بھائی ہمیں کام دے دو۔‘
’ہم خود ہی ایک کیمرا پکڑتے تھے۔ صبح صبح کہیں چلے جاتے تھے۔ وہ ویڈیوز ابھی بھی یوٹیوب پر ہیں۔ ان کو ہم سوشل میڈیا پر ڈالتے تھے۔ ایسے ہی سب دوستوں نے پیسے ملا کر حیدریم کے نام سے ویڈیو کی جس میں ہم ٹرین پر سیہون گئے۔‘
اور پھر نیس کیفے بیسمنٹ میں اسی قوالی نے زین اور زوہیب کا نام دنیا کو متعارف کروایا۔
’جب تک درگاہیں ہیں، قوالی کا مستقبل ہے‘
ایک وقت تھا جب استاد نصرت فتح علی خان کی ایک قوالی کیا دورانیہ چالیس منٹ تک کا بھی ہوتا تھا مگر سامعین کی توجہ ان سے ہٹتی نہیں تھی لیکن زین اور زوہیب کا ماننا ہے کہ نئی نسل کے لیے قوالی میں جدت ضروری ہے۔
’اگر ہم آج کے دور میں بیس بیس منٹ کی قوالی کریں گے تو کوئی بھی نہیں سنے گا۔ اگر گانا تین منٹ کا ہو سکتا ہے تو قوالی کیوں نہیں ہو سکتی۔ اگر تین منٹ اچھے لگیں گے تو پھر وہ بیس منٹ بھی سن لیں گے۔‘
لیکن کیا ٹک ٹاک کے دور میں قوالی زندہ رہ سکتی ہے؟
زین اور زوہیب کا خیال ہے کہ پاکستان میں قوالی کا فن جلد ختم ہونے والا نہیں اور وہ اس کی وجہ بھی بیان کرتے ہیں۔
’قوالی کا مستقبل بالکل ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہماری درگاہیں ہیں۔ جب تک وہ ہیں، قوالی بھی ہے۔‘
لیکن وہ اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ جدت کے بغیر قوالی کا فن ادھورا رہے گا۔
’جیسے جیسے دور بدل رہا ہے، اگر اس میں تجربے ہوں، ساوئنڈ کو سائنسی طریقے سے دیکھا جائے، کمپوزنگ اور شاعری کو دیکھا جائے، ہر چیز میں اگر ماڈرنزم آیا ہے تو قوالی میں بھی آنا چاہیے۔‘
نوجوان قوال جو مائیکل جیکسن سے بھی سیکھتے ہیں
جب زین علی اور زوہیب علی سے پوچھا گیا کہ وہ کن گلوکاروں کو سنتے ہیں تو پہلا نام تو استاد نصرت فتح علی خان ہی کا ہونا تھا۔
’استاد نصرت فتح علی خان کے علاوہ لتا جی، میڈم نور جہاں، محمد رفیع کو پسند کرتے ہیں۔ آج کے دور میں ارجیت سنگھ، سونو نگم اور بہت سے لوگ ہیں جن کو سنتے ہیں۔‘
’مائیکل جیکسن کو بہت سنا ہے اور بھی مغربی موسیقاروں کو سنتے ہیں کہ ان سے کیا ہمیں مل سکتا ہے۔‘