پاکستان

زپ ٹیک سکینڈل: ’کروڑوں روپے لے کر دکان بند‘ جب پاکستانیوں نے سستا پی ایس فائیو آرڈر کیا جو انھیں کبھی نہ ملا

Share

کیا آپ نے فیس بک پر اچھے ریویوز دیکھنے کے بعد کبھی کسی سیلر سے پراڈکٹ خریدے ہیں؟ پاکستان میں ایسے ہی ایک کاروبار کے مالک پر الزام ہے کہ انھوں نے کمپیوٹر میں استعمال ہونے والے جی پی یوز اور گیمنگ کونسول کے پری آرڈر کے نام پر مبینہ طور پر لوگوں سے کروڑوں روپے لیے اور پراڈکٹ دیے بغیر غائب ہو گئے۔

نہ تو صارفین کو ان کے آرڈر ملے ہیں اور نہ رقم کی واپسی کی کوئی امید نظر آ رہی ہے تاہم ابھی یہ واضح نہیں کہ یہ محض کاروباری مشکل ہے یا بہت بڑا آن لائن دھوکہ۔

ساہیوال کے ماجد علی، کراچی کے عماد الدین، اسلام آباد کے حسیب اختر، فیصل آباد کے محمد زید اور حیدرآباد کے فارس عبدالعزیز ان سب افراد کا الزام ہے کہ ’زپ ٹیک‘ نام کی ایک آن لائن شاپ سے انھوں نے جی پی یوز اور سونی کے پلے سٹیشن فائیو پیسے دے کر خریدے لیکن ان سب کو کئی مہینے گزرنے کے بعد بھی یہ اشیا نہیں ملیں۔

ان چار لوگوں کے علاوہ فیس بک پر ’زپ ٹیک ایفیکٹیز‘ یعنی زپ ٹیک کے متاثرین کا گروپ بھی ہے جس میں متاثرین نے اپنی اور اپنے آرڈرز کی تفصیلات دی ہوئی ہیں جس کے مطابق اس کمپنی نے مبینہ طور پر 42 شہروں کے 385 افراد سے کروڑوں روپے سے زیادہ رقم وصول کر کے ابھی تک انھیں ان کے آرڈر نہیں دیے۔

متاثرین کا یہ بھی الزام ہے کہ زپ ٹیک کے مالک ملک سے فرار ہوگئے ہیں۔

اس سے پہلے کہ ہم آپ کو بتائیں کہ یہ مبینہ دھوکہ کیسے ہوا اور زپ ٹیک کیا ہے، یہ بتانا ضروری ہے کہ کنسول اور جی پی یو کیا ہوتے ہیں؟

زپ ٹیک

جی پی یو اور پلے سٹیشن کی اتنی طلب کیوں؟

جی پی یو یا گرافک پروسیسنگ یونٹ کمپیوٹر کا مائیکرو پروسیسنگ یونٹ ہوتا ہے۔ موجودہ دور کی ویڈیو گیمز میں بہترین گرافکس کو کمپیوٹر پر بغیر کسی رکاوٹ کے چلانے کے لیے کمپیوٹر کا اپنا سی پی یو کافی نہیں ہوتا اور اس کے ساتھ اضافی جی پی یو کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

جی پی یو صرف گیمنگ کے لیے استعمال نہیں ہوتا۔ فری لانسرز کو بھی اس کی ضرورت ہوتی ہے جو اپنے کمپیوٹر کی مدد سے گرافک ڈیزائنگ، ویڈیو ایڈیٹنگ وغیرہ بھی کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ جی پی یو کرپٹو مائنگ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اے ایم ڈی اور نیویڈیا کے جی پی یوز کافی پسند کیے جاتے ہیں۔

دوسری طرف کمپیوٹر پر گیمنگ کے علاوہ اور بھی کام ہو سکتے ہیں لیکن گیمنگ کنسولز 100 فیصد گیمز کھیلنے کے لیے بنے ہیں۔ اپنی پسندیدہ گیم کی ڈسک ڈالیے اور بے فکر ہو کر بہترین گرافکس والی گیم کھیلیے۔

گیمنگ کنسولز میں ایکس باکس اور سونی پلے سٹیشن کے کنسولز کافی مقبول ہیں۔

2020 میں کورونا کی وبا کی وجہ سے عالمی سطح پر گیمنگ کے رجحان میں مزید دلچسپی اور اضافہ نظر آیا۔ کمپیوٹر گیمنگ کے آن لائن پلیٹ فارم سٹیم کے مطابق سال 2020 میں 21 فیصد زیادہ گیمز کھیلی گئیں اور لوگوں نے اوسطاً 50 فیصد زیادہ گھنٹوں گیمز کھیلیں۔

گیمنگ کے علاوہ بٹ کوائن مائنگ سے ملنے والے منافع نے جی پی یو کی طلب کو مزید زیادہ کر دیا جبکہ جی پی یو کی رسد کم تھی کیونکہ یہ چینی کمپنیاں بناتی ہیں اور چین میں کورونا کی وجہ سے فیکٹریاں بند تھیں۔

دوسری جانب سونی نے پلے سٹیشن کا نیا ماڈل ’پی اس فائیو‘ لانچ کیا۔ چند لمحوں میں ہی سارا سٹاک خرید لیا گیا اور جی پی یو کی طرح  اس مشین کی رسد کے وہی مسئلے تھے۔

لہٰذا مارکٹ میں ان دونوں چیزیوں کی طلب بہت تھی، جن لوگوں کے ہاتھ یہ شروع میں آ گئیں انھوں نے کئی گنا زیادہ دام میں انھیں بیچنے کا کاروبار بھی شروع کر دیا۔

پاکستان میں بھی یہی رجحان چل رہا تھا فرق یہ تھا کیونکہ یہ کمپنیاں براہ راست اپنی چیزیں یہاں نہیں بیچ رہی تھیں تو ان کی قیمت اور زیادہ تھی۔

اس صورتحال میں زپ ٹیک نے ایسی آفر دی، جسے ٹھکرانا مشکل تھا۔ اکتوبر 2021 میں وہ پی ایس فائیو ڈیجیٹل ایڈیشن 92 ہزار روپے کا جبکہ  ڈیسک ایڈیشن ایک لاکھ 11 ہزار کا بیچ رہے تھے۔

فارس عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ جو پلے سٹیشن فائیو انھیں دوسرے دکاندار ایک لاکھ پچاس ہزار روپے میں دے رہے تھے انھیں زپ ٹیک سے ایک لاکھ 11 ہزار کا مل رہا تھا، ماجد علی نے بتایا نویڈیا کا گرافک کارڈ جو انھیں 53 ہزار کا زپ ٹیک سے مل رہا تھا وہ دیگر بیچنے والوں سے ایک لاکھ دس ہزار کا مل رہا تھا۔

بس ایک پیچیدگی یہ تھی کہ آپ کو پری آرڈر دینا تھا یعنی 100 فیصد پیسے ابھی جمع کروائیں اور چند مہینے کے انتظار کے بعد آپ کی چیزیں آپ کے پاس۔

ٹیک

معروف انفلوئنسر بھی زپ ٹیک کے متاثرین کی فہرست میں؟

ایک آفر چاہے جتنی بھی اچھی ہو، بڑی رقم میں مال خریدنے سے پہلے آپ اس پر تحقیق کرتے ہیں اور اس کی ساکھ کا اندازہ لگاتے ہیں۔ ایسی توقع آپ زپ ٹیک سے پری آرڈر کرنے والوں سے بھی کرتے ہوں گے۔

محمد زید اور عماد الدین نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے مشہور سوشل میڈیا انفلوئینسرز سے متاثر ہو کر زپ ٹیک سے خریداری کی۔

ان میں سے ایک انفلوئینسر جنید اکرم تھے، جن کی ایک ویڈیو میں وہ ایک پی ایس فائیو کو ان باکس کر رہے تھے اور ساتھ اسے فراہم کرنے والی کمپنی زیپ ٹیک کی تعریف بھی کر رہے تھے۔

جنید اکرم نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ زپ ٹیک نے ان کے ساتھ بھی مبینہ طور پر دھوکہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے 2021 میں اپنی ویڈیو میں اپنے پیسوں سے خریدا پی ایس فائیو دکھایا تھا اور زپ ٹیک کمپنی کا انتخاب اس وجہ سے کیا کیونکہ جب انھوں نے اپنے انسٹاگرام پر فالورز سے یہ رائے لی کہ انھیں کس سے یہ خریدنا چاہیے تو بہت بڑی تعداد میں انھیں لوگوں نے زپ ٹیک کا کہا۔

اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ ان کے ایک دوست نے فیس بک گروپ پاکستان پی سی گیمرز (پی پی جی) کا حوالہ بھی دیا جہاں زپ ٹیک کو ویریفائد سیلر قرار دیا گیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’جب میں نے چیز منگوائی تو وہ وقت پر میرے پاس پہنچی اور کورونا وائرس کے وقت یہ آسانی سے دستیاب بھی نہیں تھی۔ میں ان سے بہت متاثر ہوا۔‘

جنید اکرم کا کہنا تھا کہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اچھے مقامی کاروبار کو وہ فروغ دیں اور وہ زیادہ تر یہ کام پیسے لیے بغیر نیک نیتی کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ زپ ٹیک کے معاملے میں بھی انھوں نے پیسے لیے بغیر یہ کیا۔

انھوں نے مزید دعویٰ کیا کہ زپ ٹیک کے اچھے تجربے کی بنیاد پر کاروبار کی غرض سے مزید انھوں نے زپ ٹیک سے ہی 45 پی ایس فائیو خریدے جن میں سے انھیں صرف 15 ملے جبکہ زپ ٹیک نے انھیں 33 لاکھ 30 ہزار روپے کے 30  پی ایس فائیو ابھی تک نہیں دیے لہٰذا وہ بھی متاثرین میں سے ہیں۔

ماجد علی کا کہنا تھا کہ انھوں نے بھی زپ ٹیک پر اس لیے بھروسہ کیا کیونکہ ایک مقبول اور قابل اعتبار فیس بک گروپ پی پی جی (پاکستان پی سی گیمرز) نے زپ ٹیک کو اپنے ’ویریفائڈ سیلرز لسٹ‘ یعنی تصدیق شدہ فروخت کرنے والوں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔

زپ ٹیک

پاکستان پی سی گیمرز میں میجر زپی کی آمد

 پی پی جی فیس بک گروپ کا 2011 میں قیام ہوا۔ اس گروپ کا مقصد پاکستان میں ویڈیو گیمنگ کا فروغ اور اس سے متعلق پیشرفت کے بارے میں بات چیت اور سب سے اہم خرید و فروخت کے لیے محفوظ اور با اعتماد ماحول فراہم کرنا ہے۔ اس گروپ میں اس وقت تقریباً ایک لاکھ تیس ہزار سے زیادہ ممبر ہیں۔

اس گروپ کے موجودہ ایڈمنز میں مرتضٰی رزاق اور عثمان شیخ شامل ہیں۔ مرتضٰی نے بی بی سی کو بتایا کہ دو سے تین سال پہلے گروپ میں ایک سیلر سامنے آیا جس کی پروفائیل کا نام میجر زپی تھا۔ اس نے بہترین قیمتوں پر اشیا بیچیں جن کا کوئی مقابلہ نہیں تھا اور ساتھ وہ زبردست کسٹمر سروس بھی دیتا تھا۔

’میں ایسی سروس کی بات کر رہا ہوں کہ وہ لوگوں کے گھر پہنچ کر آرڈر ان کے ہاتھ میں پکڑاتا تھا اور جو آرڈر ہے اس سے بہتر چیز دیتا تھا لہٰذا اس نے بہت جلد لوگوں کا اعتماد جیت لیا۔ اس حد تک کہ ہر گروپ کی ہر پوسٹ کے نیچے لوگ میجر زپی کی پروفائل کا لنک دے کر لوگوں کو اس سے خریدنے کا مشورہ دیتے تھے۔‘

مرتضٰی نے بتایا کہ وہ اور دیگر ایڈمن ہر کسی کو گروپ میں اپنا سامان فروخت کرنے کی اجازت نہیں دیتے اور اس کے لیے بیچنے والے کو ’ویریفائڈ سیلرز کی لسٹ‘ میں شامل ہونا پڑتا ہے۔

’ضروری بات سمجھنے کی یہ ہے کہ آپ اس فہرست میں کمیونٹی کے مثبت رائے کے بغیر شامل نہیں ہو سکتے جو زپ ٹیک کو بڑی آسانی سے مل گئی۔ اسے اس حد تک حمایت حاصل تھی کہ وہ بیسٹ سیلر کا ایوارڈ بھی جیت گیا۔‘

مرتضیٰ بتاتے ہیں کہ سب لوگوں کو ایک باقاعدہ بزنس نظر آرہا تھا اور ہر کوئی اس پر بھروسہ کر رہا تھا۔ جو گرافک کارڈ مارکیٹ میں ایک لاکھ 90 ہزار کا مل رہا تھا وہ زپی 80 ہزار میں دے رہے تھے لیکن آپ کو تین سے چھ مہینے انتظار کرنا پڑتا تھا۔

انھوں نے کہا ’پاکستان میں کوئی سستی چیز مل رہی ہو تو لوگ لیتے ہیں چاہے جہاں سے بھی ملتی ہو اس طرح زپ ٹیک کا پری آرڈر کا کاروبار شروع ہوا۔ ڈیڑھ سال تک یہ آرڈر ٹائم پر ڈیلیور ہوتے رہے اسی وجہ سے مارکیٹ میں میجر زپی کا نام مزید پھیل گیا۔‘

 مرتضی نے بتایا کہ اگست 2021 میں میجر زپی نے پی پی جی گروپ کے ذریعے ایسے گرافک کارڈ کے پری آرڈر لیے جس کو کمپنی نے بنانا چھوڑ دیا تھا اور اس کی طلب بہت تھی۔ ’کروڑوں کے کارڈ پری آرڈر ہوئے اور 60 فیصد آرڈر ڈیلیور بھی ہوئے۔‘

مرتضٰی کا کہنا ہے کہ دسمبر 2021 میں انھیں زپ ٹیک اور کمانڈر زپی کے متعلق شکایات موصول ہونے شروع ہوئیں کہ وہ اپنے آرڈر ڈیلیور نہیں کر رہے، جس کے بعد پی پی جی کے ایڈمنز نے براہ راست میجر زپی سے رابطہ کر کے لوگوں کو ان کی اشیا دلوانے کی کوشش کی۔

’اسے ہر روز کہنا پڑتا تھا کہ آپ سے یہ کارڈ آرڈر کیا گیا ہے یہ انھیں دیں، اس طرح ہم نے اگست میں دیے آرڈر کلیئر کروائے۔ جنوری میں ہم نے گروپ میں پری آرڈر بند کر دیے اور لوگوں کو بتایا کہ زپی کے مسائل چل رہے ہیں اس سے آرڈر نہ کریں لیکن اس کے باوجود لوگوں نے درجنوں کے حساب سے پی ایس فائیو اور گرافک کارڈ خریدے۔‘

میجر زپی
،تصویر کا کیپشنمیجر زپی کا نام محمد حسن ہے۔ ان کا یوٹیوب پر چینل بھی ہے جس پر وہ گیمنگ کی ویڈیوز سٹریم کرتے تھے

حسن عرف میجر زپی

میجر زپی کا نام محمد حسن ہے۔ ان کا یوٹیوب پر چینل بھی ہے جس پر وہ گیمنگ کی ویڈیوز سٹریم کرتے تھے۔

2019 سے انھوں نے پی پی جی گروپ پر کمپیوٹر کی ایسیسریز فروخت کرنا شروع کی جبکہ 2020 میں جی پی یوز اور گیمنگ کنسولز پیچنے شروع کر دیے۔

2020 میں ہی انھوں نے زپ ٹیک نام کا فیس بک پیج شروع کیا۔ زپ ٹیک نام کی دکان بھی انھوں نے پہلے کراچی کے رم جھم ٹاور میں کھولی لیکن بعد میں کلفٹن میں منتقل ہو گئے۔

متاثرین کے مطابق زپ ٹیک کے نمائندے لاہور اور اسلام آباد میں بھی تھے جبکہ ملک کے دیگر شہریوں کے خریدار بینک ٹرانسفر کے ذریعے آن لائن اشیا آرڈر کرتے تھے۔ اس وقت ان کی کلفٹن میں موجود دکان کرائے کے لیے خالی ہو چکی ہے۔

حسن کی اپنی پروفائل، زپ ٹیک کا پیج اور حسن کی طرف سے کی گئی پی پی جی گروپ پر پوسٹس آج بھی موجود ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ مختلف اشیا بیچ رہے ہیں۔

بی بی سی نے محمد حسن سے مختلف طریقوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاکہ ان الزامات کے بارے میں ان سے ان کا مؤقف لے سکیں لیکن انھوں نے ابھی تک جواب نہیں دیا۔

متاثرین کا یہ بھی الزام ہے کہ محمد حسن ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔

محمد حسن نے اس معاملے پر گذشتہ برس مئی میں زپ ٹیک کے پیج پر چند ویڈیوز شائع کی جن میں انھوں نے کہا ’ہم کچھ ہفتوں سے بتا رہے ہیں ہماری سپلائی چین کا مسئلہ ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اس سے پہلے تمام آرڈر وقت پر پہنچائے ہیں اور اس بار ایسا اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ کچھ ’جائز شپنگ کے مسائل ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ اگست میں جیسے لوگوں کو ریفنڈ کیا ویسے ہی بعد میں پری آرڈر کرنے والے یہ فیصلہ کر کے بتائیں کیا وہ معاوضہ چاہتے یا چند مہینے انتظار کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ جلد فیس بک پر پول کریں گے۔

ایک اور ویڈیو میں انھوں نے اس بات کی تردید کی کہ وہ بھاگ کر چلے گئے ہیں ’یہاں پر ہم بیٹھ کر آپ سے اسی لیے بات کر رہے ہیں کیونکہ ہم اس مسئلہ کو حل کرنا چاہتے ہیں، ہم اسے بڑھانا نہیں چاہتے۔ اگر ہم نے اس کا حل نہیں کرنا ہوتا تو ہم آپ سے بات بھی نہیں کرتے۔ کب کا پیج غائب ہو چکا ہوتا، سب غائب ہو جاتا ہم یہاں پر ہی ہیں۔‘

زپ ٹیک کے متاثرین اور پی پی سی جی گروپ کے ایڈمن اس جواب سے متفق نہیں نظر آ رہے۔

عثمان شیخ کا کہنا تھا اگر شپنگ کا مسئلہ تھا ’تو وہ ائیر امپورٹ کی رسید دے دیتے جو کئی دفعہ مانگنے کے باوجود انھوں نے نہیں دی۔ اگر آپ سمندر سے بھی کوئی چیز درآمد کرتے ہیں تو زیادہ سے زیادہ 40 سے 60 دن لگتے ہیں۔‘

زپ ٹیک متاثرین کا گروپ اور محمد حسن کے خلاف ایف آئی آر

دکان

فارس عبدالعزیر بتاتے ہیں کہ جب ان کا اکتوبر 2021 میں دیا گیا دو پلے سٹیشن کا آرڈر فروری 2022 تک نہیں پہنچا اور مزید وقت گزرنے کے بعد زپ ٹیک نے جواب دینا بھی بند کردیا تو انھوں نے فیس بک اور واٹس ایپ پر گروپس بنا لیے جس میں باقی پری آرڈر کرنے والے افراد کو جمع کر لیا۔

انھوں نے بتایا ’میں نے لوگوں سے فارم پُر کروایا جو تقریباً 400 لوگوں نے کیا۔‘

فارس کا مزید کہنا تھا کہ ’کچھ عرصے بعد ہمیں اپنے ذرائع سے پتا چلا کہ حسن تُرکی چلے گئے ہیں اور انھوں نے اس بارے میں اعلان نہیں کیا۔ ایسا ہی محسوس ہوا کہ وہ فرار ہو گئے ہیں۔‘

فارس بتاتے ہیں کہ یہ جاننے کے بعد انھوں نے لوگوں کو ہدایت دی کہ وہ اپنے متعلقہ تھانوں میں زپ ٹیک اور اس کے مالک کے خلاف ایف آئی آر درج کریں لیکن ان کے مطابق یہ کرنے کے باوجود کچھ نہیں ہوا۔

’میں جب لوگوں سے کال پر بات کرتا ہوں تو وہ رو پڑتے ہیں، وہ کہتے ہیں ہم نے جمع پونجی لگا دی، ہمیں تو کچھ نہیں ملا، ہمارے لیے دوبارہ پیسے جمع کرنا عذاب ہے۔‘

اس مبینہ سکیم کی ایک ایف آئی آر کراچی کے سچل پولیس تھانے میں درج کی گئی جس میں 15 متاثرین نے اپنے بیان ریکارڈ کروائے اور ان کا کہنا ہے کہ ان کا کل نقصان 25 لاکھ 66 ہزار روپے بنتا ہے۔

کراچی کے مقامی مجسٹریٹ نے زپ ٹیک کے مالک محمد حسن کو مفرور قرار دے کر نا قابلِ ضمانت وارنٹ جاری کر دیے ہیں۔

کیس کے تفتیشی افسر ایس آئی عامر میمن کا کہنا ہے کہ مفرور کو اشتہاری قرار دینے کے بعد ان کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بند کر دیا جائے گا۔

زپ ٹیک کے جن متاثرین سے ہم نے بات کی وہ ایف آئی آر درج ہونے کے بعد اتنا وقت گزر جانے اور پیشرفت سست ہونے کی وجہ سے تفتیشی حکام سے کچھ مایوس ہیں۔

اس کے علاوہ زپ ٹیک کے مالک کے خلاف ایک پٹیشنر نے اسلام آباد کے کنزیومر کورٹ میں 39 لاکھ روپے کے نقصان کا الزام لگایا ہے اور عدالت نے انھیں حاضر ہونے کا نوٹس بھی دیا ہوا ہے۔

سکیم

کیا اسے دھوکہ کہا جا سکتا ہے؟

ماہر قانون ایڈووکیٹ حسن جاوید نے عمومی رائے دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی نے بڑے پیمانے پر پیسے لے کر وقت پر مال کی ادائیگی نہیں کی اور بعد میں طے شدہ توسیع کیے گئے وقت پر بھی اپنا وعدہ پورا نہیں کیا اور وہ منظر عام سے عائب ہو گیا تو یقیناً یہ سمجھا جائے گا کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہا۔

ان کا کہنا تھا ’جن پر الزام لگایا گیا ہے وہ ایف آئی آر کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کی دسترس میں نہیں آتے اور ملک سے باہر چلے جاتے ہیں تو ایف آئی اے اور وزارت داخلہ انٹرپول کے ذریعے انھیں واپس ملک میں لا سکتے ہیں۔‘

ایڈوکیٹ حسن کا کہنا تھا کہ ’نیب قانون کی نئی ترمیم کے بعد اگر کسی جرم کے متاثرین کی تعداد ایک سو سے زیادہ ہو اور 50 کروڑ روپے تک کا نقصان ہوا ہو تو پھر ایسا کیس نیب کے پاس جا سکتا ہے۔‘

مرتضیٰ اس متعلق کافی مایوس تھے کہ ان کے گروپ پی پی جی کی ساکھ اس سارے معاملے میں خراب ہوئی ہے۔

’ہماری اتنے سال کی محنت ضائع ہوئی۔ ہر کوئی کہتا ہے کہ ویریفائڈ لسٹ کا کوئی بھی فائدہ نہیں، پی پی جی کا فائدہ نہیں۔ اتنی محنت کرنے کے بعد کافی بری لگتی ہے یہ بات۔‘

انھوں نے بتایا کہ اس تجربے کے بعد ان کے گروپ پر پری آرڈر کا نام بھی نہیں آتا۔ انھوں نے کہا کہ اگر کسی کو خریداری کرنی ہے تو اچھی ڈیلز کا یا قیمتیں کم ہونے کا انتظار کریں۔

انھوں نے کہا کہ ’اگر آپ کوئی پراڈکٹ لے رہے ہیں تو وہ آپ کو فوراً ملنی چاہیے یہ نہیں کہ اس کے لیے تین یا چھے مہینے انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔‘