نسل پرستانہ رویوں کا خاتمہ ضروری ہے
نسل پرستی ایک ایسا زہر ہے جو ہمارے سماج میں اب بھی پھیلا ہوا ہے۔ اورہزاروں لوگوں کی جان لے رہا ہے۔ نسل پرستی کا احساس اس وقت زیادہ محسوس ہوتا ہے جب یہ یا تو امریکہ یا یورپ کے کسی شہر میں نسل پرستی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے۔
اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ برسوں سے ان ترقی یافتہ ممالک میں نسل پرستی کے خلاف تحریک چلائی گئی ہے یا سیاہ فام لوگوں نے غلامی کی زندگی کے خلاف آواز بلند کی ہے۔مالکم میکس سے لے کر محمد علی باکسر جیسے معروف لوگوں نے کھل کر نسل پرستی کے خلاف آواز اٹھائی تھی جس سے سیاہ فام لوگوں میں اتحاد اور اعتماد پیدا ہوا۔ تاہم نسل پرستی کا زہر اب بھی ہمارے معاشرے میں عام پایا جاتا ہے۔ نسل پرستی کے متعلق میری اپنی رائے مختلف نہیں ہے۔ برطانیہ میں 30 سال رہنے کے دوران مجھے نسل پرستی کا تجربہ گاہے بگاہے ہوتا رہا اور اس کا احساس بھی ہے۔
برطانیہ میں نسل پرستی کے خلاف لڑنے کے لیے کئی ا دارے بنائے گئے اور یہ ادارے کسی نسلی حملے یا گاہے بگاہے کچھ واقعات پر آواز اٹھاتے ہیں لیکن کہیں نہ کہیں ان میں سیاسی مفاد پرستی دکھتی ہے۔ تاہم کچھ سیاہ فام لوگوں کے ادارے کافی فعال اور کارآمد دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں ایک نام (BAME-Black Asian Minority Ethnic)بلیک ایشین مائینیریٹی ایتھنک ہے جو کافی فعال اور اثر انداز ہے۔ جس کے مشورے پر حکومت عمل کرتی ہے اور جس کے بینر تلے نسل پرستی کے خلاف لوگوں کو پیغام بھی دیا جاتا ہے۔تاہم نہ جانے کیوں لوگوں میں ایک غلط فہمی عام پائی جاتی ہے کہ نسل پرستی صرف سیاہ فام لوگوں کے ساتھ ہی ہوتا ہے جو کہ سراسر غلط ہے۔
نسل پرستی ایک نظریہ ہے جو کسی انسانی نسل کا ممتاز ہونے یا کمتر ہونے سے متعلق ہے۔نسل پرستی کسی بھی خاص انسانی نسل کی کسی دوسری انسانی نسل یا ذات پر فوقیت یا احساس برتری کے بارے میں امتیاز کا ایک نظریہ ہے۔اس کے علاوہ نسل پرستی میں ایک نسل کی بنیاد پر سہولیات، حقوق اور سماجی فوائد تک رسائی محدود کر دی جاتی ہے اور نسل پرستی کے شکار لوگوں کو کمتر سمجھا جاتا ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق، نسل پرستی اور گروہی امتیاز میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں ہے۔یہ دونوں مجموعی طور پر ایک طرح کے معاشرتی مسائل ہیں۔ مثلاً ایک ایک خاص نسل کے لوگوں کو اعلیٰ سمجھنا یا ان کو سماج میں اعلیٰ مرتبہ دینا کیونکہ ان کا رنگ سفید یا وہ تاریخی اعتبار سے ایک کامیاب اور اعلیٰ نسل مانے گئے ہیں۔
مثال کے طور پر سفید امریکی،یورپ اورساؤتھ افریقہ کے لوگ جنہوں نے دنیا بھر میں حکومت کی اور دوسری نسل اور رنگ کے لوگوں کو غلام بنا کر اپنے لیے کام کروائے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ نسل پرستی کے خلاف قوانین اور لوگوں میں اس کی جانکاری کچھ عرصہ قبل سے ہی عام ہوئی ہے۔ ورنہ تیس سال قبل نسل پرستی کے خلاف شکایت کرنا یا اس پر ایکشن لینا ایک غیر ضروری بات سمجھی جاتی تھی۔
جب ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اس بات کا افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے بیچ بھی نسلی بھید بھاؤ اور امتیازی سلوک عام ہے۔ مثلاً بر صغیر اور دنیا میں بسے ایشائی مائیں اپنے بیٹوں کے لیے گوری رنگت کی لڑکی کا انتخاب کرنا فخر سمجھتی ہیں۔ یعنی کہ اگر لڑکی کا رنگ گورا ہو تو اس کی سیرت اور، تعلیم اور صلاحیت گورے رنگ کے سامنے بے معنی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم کسی لڑکی کو پسند نہیں کر رہے ہیں بلکہ قربانی کا جانور پسند کر رہے جس کے دانت، سینگ اور تندرستی زیادہ اہم ہے اور وہ جانور تمام نقص سے پاک ہو۔
برطانیہ ایک ایسا ملک ہے جہاں نسل پرستی کے خلاف آئے دن آواز اٹھائی جاتی ہے اور احتجاج بھی ہوتے رہتے ہیں کہ نسل پرستی کے خلاف سخت قدم اٹھائے جاتے ہیں۔ لیکن پھر بھی آئے دن کبھی پولیس تو کبھی سیاستدان تو کبھی دفتر میں نسل پرستی کی شکایتیں مسلسل موصول ہوتی رہتی ہیں۔ اب اسے فطرت کہیے یا سفید فام لوگوں میں نسلی بھید بھاؤ کا جنیاتی اثر۔ تبھی تو نسل پرستی کے خلاف قانون اور پالیسی کے باوجود سیاہ فام لوگ اور اقلیتی لوگ نسل پرستی کے مسلسل شکار ہوتے رہتے ہیں۔
2010 میں اپنی بیٹی زارا فہیم کو لندن کے ایک پرائمری اسکول چھوڑنے جاتا تھا۔ ایک دن اسکول کی گیٹ پر کھڑا ایک کمیونیٹی سفید فام پولیس آفیسر میرے پاس آ کر کہتا ہے کہ، یہاں گاڑی نہ پارک کرے۔ میں نے اس آفیسر سے کہا کہ لیکن گاڑی تو ہم نے اسکول کی گیٹ پر پارک نہیں کی تو آپ مجھے کیوں یہ بات کہہ رہے۔ پھر میں نے گاڑی اسٹارٹ کی اور دفتر چلا گیا۔ دوسرے روز جب پھر میں اسکول پہنچا تو اس سفید فام کمیونیٹی پولیس آفیسر کے ساتھ دوسرا سفید فام پولیس میرے پاس آیا اور مجھ سے کہا گاڑی کی انجن بند کرو اور باہر آؤ۔ سفید فام پولیس آفیسر نے مجھ سے کہا کہ کل تم نے گاڑی کیوں پارک کی، میں نے کہا گاڑی تو میں نے وہیں پارک کی جہاں گاڑی پارک کرنے کی اجازت ہے۔ ابھی ہم بات ہی کر رہے تھے کہ ایک سفید فام پولیس آفیسر نے مجھے زور کا دھکا دیا اور میں جھاڑیوں میں گر گیا۔ میں سفید فام پولیس آفیسر کی حرکت سے دم بخود ہوگیا۔
سوچے کیوں پولیس آفیسر کو میری بات اتنی بری لگی کہ اس نے مجھے دھکا دے کر گرا دیا۔ کیا سفید فام پولیس آفیسر کسی انگریز سفید فام کو اس طرح دھکے دے سکتا ہے۔ شاید کبھی نہیں۔بس میرا قصور یہ تھا کہ میں ایک ایشیائی بندہ سفید پولیس آفیسر کو جواب دے بیٹھا۔
دسمبر 2022کو شاہی استقبالیہ میں ایک سیاہ فام برطانوی چیریٹی کی سربراہ، جس سے بار بار پوچھا گیا کہ” تم کہاں سے ہو”، “واقعی تم کہاں سے ہو”ا س بات پر کافی حیرانی جتائی گئی کہ آخر لیڈی سوسن نے بار بار سیاہ فام محترمہ سے کیوں اس طرح سوال کیا۔ جس سے سیاہ فام لیڈی کافی برہم ہوئی اور انہوں نے کہا کہ یہ ان کے ساتھ بدسلوکی ہے اور اس پر کافی واویلا بھی مچا۔یہ واقعہ بکنگھم پیلیس میں پیش آیا اور بار بار سوال پوچھنے والی خاتون کا نام لیڈی سوسن ہسی تھا جو پرنس ولیم کی گارڈ مدر تھیں۔ اس واقعہ کے بعد آنجہانی ملکہ برطانیہ کی لیڈی سوسن ہسی نے استعفیٰ دے دیا۔
سیاہ فام لیڈی محترمہ فلانی نے 83سالہ لیڈی ہسی کے ساتھ ہونے والی گفتگو کو تفتیش سے تشبیہ دی اور سخت برہمی کا اظہا رکیا۔ بکنگھم پیلس نے لیدی ہسی کی باتوں کو ناقابلِ قبول اور انتہائی افسوس ناک قرار دیا۔تاہم اس کے بعد یہ واقعہ خبروں کی سرخیاں بن گئی اور اسے نسلی بھید بھاؤ سے جوڑاجانے لگا۔
یوں تو عام طور پر کسی سے پوچھنا کہ تم کہاں سے ہو، کوئی غلط بات نہیں لگتا ہے۔ لیکن لیڈی ہسی نے جس طرح سے بار بار سیاہ فام محترمہ فلانی سے یہی پوچھتی رہی کہ تم کہاں سے ہو اور ان کے مسلسل سوال کو دہرانے کی وجہ سے بکنگھم پییلیس سے لے کر برطانیہ کے زیادہ تر لوگ برہم ہوئے ہیں۔ اسی لئے اس معاملے کو نسلی بھید بھاؤ سے جوڑ ا جارہا ہے کیونکہ برطانیہ میں بہت سارے لوگ اب بھی غیر ممالک کے لوگوں کے ساتھ رنگ، زبان، ثقافت وغیرہ کی بنا پر نسلی بھید بھاؤ رکھتے ہیں۔تاہم بکنگھم پیلس اورمحترمہ فلانی کی جانب سے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس واقعے سے نمٹنے کے لیے دونوں میں ایک ملاقات ہوئی۔اس میٹنگ میں گرمجوشی اور افہام و تفہیم سے بھری ہوئی لیڈی ہسی نے محترمہ فلانی کو ان کی باتوں سے پہنچنے والی تکلیف کے لیے اپنی مخلصانہ معذرت کی۔
میں نے ہمیشہ نسل پرستی کا ہمیشہ کھل کر احتجاج کیا ہے اور اسے ایک خطرناک جرم مانا ہے۔ نسل پرستی ایک جنون ہے جس میں انسان کی جان بھی لے لی جاتی ہے۔ نسل پرستی کا بنیادی مسئلہ سفید فام انسان نہ ہونا ہے جو کہ ایک نہایت ہی سنگین اور خطرناک جرم ہے۔ آئیے ہم اور آپ نسل پرستی کے خلاف متحد ہو کر احتجاج کریں اور اسے سماج اور معاشرے سے اکھاڑ پھینکیں۔