ہیڈلائن

کالعدم بلوچ تنظیم کا بانی ’خطرناک دہشت گرد‘ منظم کارروائی میں گرفتار

Share

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے کہا ہےکہ کالعدم بلوچ نیشنل آرمی (بی این اے) کے بانی اور خطرناک دہشت گرد گلزار امام عرف شمبے کو خفیہ اطلاع پر منظم کارروائی میں گرفتار کیا گیا، جس کی بدولت دشمن تنظیموں کے عزائم آشکار ہوگئے ہیں۔

آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ خفیہ اداروں نے مسلسل انتھک کاوشوں کے بعد گلزار امام عرف شمبے کو بلوچستان سے گرفتار کر لیا تاہم مقام کا نام نہیں بتایا گیا۔

بیان میں کہا گیا کہ گلزار امام عرف شمبے 1978 میں بلوچستان کے ضلع پنجگور کے علاقے پروم میں پیدا ہوا اور2009 تک ٹھیکیدار اور نیوز رپورٹر کی حیثیت سے ملازمتیں کیں۔

آئی ایس پی آر نے بتایا کہ گرفتار دہشت گرد 2018 تک کالعدم بلوچ ری پبلیکن آرمی میں براہمداغ بگٹی کا نائب رہا۔

مزید بتایا گیا کہ گلزار امام 11 جنوری 2022 کو بلوچ ری پبلیکن آرمی اور یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے انضمام کے نتیجے میں بننے والی بلوچ نیشنلسٹ آرمی کا سربراہ منتخب ہوا اور اس سے قبل نومبر 2018 میں 4 کالعدم تنظیموں کے انضمام سے بننے والی بلوچ راجی اجوئی سنگر نامی تنظیم کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

گرفتار ملزم کو انتہائی خطرناک دہشت گرد قرار دیتے ہوئے بیان میں کہا گیا کہ آزاد بلوچستان کی تحریک کے دوران دشمن انٹیلیجنس ایجنسیوں کے اصل عزائم آشکار ہوگئے ہیں۔

آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ دہشت گرد نے دسمبر 2017 میں گل نوید کے نام سے افغانستان کے پاسپورٹ پر بھارت کا دورہ بھی کیا تاہم اس کی گرفتاری کالعدم تنظیموں اور دشمن انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ناپاک عزائم کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔

بیان میں کہاگیا ہے کہ گلزار امام نے گرفتاری کے بعد حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے ملکی سیکیورٹی اداروں سے مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے اور ریاستی اداروں کے رویے سے ان کی رائے تبدیل ہوئی ہے۔

آئی ایس پی آر نے بتایا کہ گلزار امام کے مطابق بلوچ علیحدگی پسندوں کی حالیہ تحریک بلوچ عوام اور پاکستانی ریاست کے لیے نقصان دہ ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کے دہشت گرد رہنما کی گرفتاری سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی دہشت گردی کے ناسور کے خاتمے کی صلاحیت کی عکاسی ہوتی ہے اور گم نام ہیروز کی قربانیاں رنگ لا رہی ہیں۔

خیال رہے کہ عسکریت پسند گروپ کے بڑے لیڈر کی گرفتاری کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب وزیراعظم شہباز شریف نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کر رکھا ہے۔

ملک میں گزشہ چند ماہ سے دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے اور ملک بھر میں دہشت گرد حملے کر رہے ہیں۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے نومبر 2022 میں سیزفائر ختم کرنے اور حملوں کے اعلان کے بعد خیبرپختونخوا میں پولیس لائنز مسجد پشاور حملے سمیت دہشت گردی کے بڑے واقعات پیش آئے اور افغانستان کے سرحدی علاقوں سے بھی حملے کیے گئے۔ اسی طرح بلوچستان میں موجود انتہاپسندوں نے بھی کارروائیوں میں اضافہ کردیا اور ٹی ٹی پی کے ساتھ اشتراک کر رکھا ہے۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کنفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز سے جاری اعداد وشمار کے مطابق جنوری 2023 میں سب سے زیادہ حملے ہوئے اور جولائی 2018 کے بعد بدترین مہینہ رہا اور 134 افراد دہشت گردی سے لقمہ اجل بن گئے۔

اس حوالے سے بتایا گیا کہ دہشت گردی کے واقعات میں 139 فیصد اضافہ ہوا اور اس دوران ملک بھر میں دہشت گردی کے کم از کم 44 حملوں میں 254 افراد زخمی ہوئے۔