پاکستان میں مزاحمت کی سیاست کا مستقبل؟
پاکستان میں ایک کمزور قسم کی مزاحمت اس طاقت کے خلاف ہے، جو ’عوامی امنگوں کے برعکس‘ فیصلے کرتی ہے، انتظامی فیصلوں کو موم کی ناک کی طرح مروڑتی اور میڈیا کو کنٹرول کرتی ہے۔
ضرورت پڑے تو پارلیمینٹ میں سیاسی جماعتوں کو من مرضی کی قانون سازی پر راضی کرتی ہے اور عدلیہ میں بولنے والے ججز کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ملک میں بظاہر سب آزاد نظر آتے ہیں مگر اصل میں ایسی ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے، جو نظر بھی نہیں آتیں۔
پاکستان میں محفوظ الفاظ میں اس طاقت کو اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں۔ ملکی تاریخ میں اسٹیبلشمنٹ ہی اہم فیصلہ ساز رہی ہے۔ مشرقی پاکستان میں فوج کشی کر کے اکثریت کو چپ کرانا ہے، 1970ء کے انتخابی نتائج کے بعد اقتدار منتخب وزیراعظم مجیب الرحمان کو نہیں دینا، حالات قابو سے باہر ہوں تو بھٹو کو سامنے لانا ہے۔ بھٹو اگر قابو سے باہر ہو تو اسے گھر بھیجنا اور پھر پھانسی لگانا ہے۔ ملک میں انتخابات ہونے ہیں یا نہیں۔ اگر ہونے ہیں تو کس کو کتنا حصہ دینا ہے؟
جنرل ضیاالحق کا طیارہ تباہ ہو تو اس کی تحقیقات کو منظرعام پر لانا ہے یا نہیں۔ بے نظیر بھٹو سے کیا طے کرنا اور انہیں کس طرح اقتدار دے کر اقتدار سے فارغ کرنا اور نواز شریف کو متعارف کروانا ہے۔ پھر کچھ عرصہ بلی چوہے کا کھیل کیسے کھیلنا ہے۔ کب ڈگی ڈگی بجانا اور نچوانا ہے اور کب خاموشی اختیارکر کے ملک پر قبضہ کرنا ہے۔ جب مشرف کنٹرول سے باہر ہو رہا ہے تو انہیں بھی گھر بھیجنا ہے مگر عزت کے ساتھ کیونکہ وہ اپنا ہے۔
بے نظیر کے ساتھ ڈیل کرنا ہے پھر اس کی پراسرار ہلاکت کے بعد اقتدار پیپلز پارٹی کو دینا اور پانچ سال بعد ن لیگ کو منظرعام پر لانا یا پھر عمران خان کے بت میں جان ڈالنا۔ ان سب واقعات میں کہیں نہ کہیں اس اسٹیبلشمنٹ کا کہیں نہ کہیں اہم ترین کردار موجود ہے۔
صرف یہی نہیں پاکستان نے بھارت کے ساتھ تعلقات کیسے رکھنا ہیں؟ چین کے ساتھ سی پیک پر آگے بڑھنا ہے یا اسے رول بیک کرنا ہے؟ سعودی عرب سے محبت کرنا ہے یا امریکا کے سامنے گھٹنے ٹیکنے ہیں۔ ایران سے معاملات آگے بڑھانے ہیں یا افغانستان میں امن عمل میں اپنا کردار ادا کرنا ہے، ان سب میں بھی اسی اسٹیبلشمنٹ کا ہی کردار ہے۔
سوال یہ ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اگر ملکی تاریخ کے یہ سب بڑے فیصلے اسٹیبلشمنٹ نے ہی کیے ہیں یا ان فیصلوں میں کلیدی کردار ادا کیا ہے تو کیا ملک میں کبھی عوام کی اصل نمائندہ حکومت آئی ہی نہیں؟ جی نہیں عوامی حکومتیں ضرور آتی رہیں۔ کچھ انفرادی مزاحمت کار بھی آتے رہے مگر موقع ملتے ہی اسٹیبلشمنٹ دوبارہ ملک پر قابض ہوجاتی رہی۔ تاہم منظم اور طاقتور اسٹیبلشمنٹ کا مقابلہ منظم اور طاقتور انداز میں کبھی کیا ہی نہیں گیا۔
یہاں مقابلے کا مطلب شکست یا توہین نہیں صرف پارلیمینٹ اور آئین کے تقدس کی عملی یقین دہانی ہے۔ عدلیہ کے احترام اور میڈیا کی تنقید کا خیرمقدم ہے۔ حکومتوں اور وزیراعظم کے عہدوں کی پانچ سالہ مدت کی بلاتعطل تکمیل ہے۔ کسی عملی مداخلت کے بغیر۔
سوال مگر یہ ہے کہ پاکستان میں عوامی امنگوں کی ترجمان مزاحمت کی سیاست کا آج علمبردارکون ہے؟ کیا ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگاتی مسلم لیگ ن ؟ وہی جس نے جنوری کے پہلے ہفتے میں اپنی پارٹی قیادت کے حکم پر آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیح کے قانون کی بلا چوں و چراں حمایت کر دی ۔ حالانکہ ماضی میں وہ ایسے اقدامات کی مداخلت کرتی رہی۔ جی نہیں ہرگز نہیں۔ اب مسلم لیگ ن اسٹیبلشمنٹ سے طلاق کے بعد دوبارہ بیاہ کے لیے حلالے کے عمل سے گزر رہی ہے۔ اب یہ جماعت عملی طور پر مسلم لیگ ن سے مسلم لیگ شہباز بن چکی۔ جس میں مزاحمت کی آوازیں یا تو مریم نواز کی طرح خاموش ہیں یا پھر پرویز رشید کی طرح دبا دی گئی ہیں۔
تو کیا قومی سطح پر پیپلزپارٹی مزاحمت کا علم اٹھائے ہوئے ہے؟ نہیں وہ بھی نہیں! مذکورہ توسیع کے بل پر بڑھ چڑھ کر حمایت کرنے والی یہ جماعت مزاحمت کی ترجمان کیسے ہو سکتی ہے؟ یہ جماعت بھی اسٹیبلشمنٹ سے معاملات طے کرنے کے لیے بیتاب ہے، جس کا اظہار وقتاﹰ فوقتاﹰ ہوتا رہتا ہے۔
تو کیا جمعیت علمائے اسلام ف اور جماعت اسلامی جیسی جماعتیں، جن کے ہاتھوں پر مشرف کے ایل ایف او کو آئین کا حصہ بنانے کا داغ ابھی تک نمایاں ہے، مزاحمت کی سیاست کی علمبردار ہیں؟
شاید آپ کہیں گے ہاں! دیکھیے، انہوں نے تو سروسز چیفس کی حالیہ قانون سازی میں کردار ادا ہی نہیں کیا۔ وہ ڈٹے رہے لیکن اس میں جمعیت کا موقف دلچسپ ہے، وہ پارلیمینٹ کا حصہ ہے مگر کہتی ہے کہ یہ جعلی انتخابات پر مبنی پارلیمینٹ ہے، اس لیے یہ قانون سازی متنازعہ ہے۔ جماعت اسلامی نے تاہم توسیع کی بھرپور مخالفت کی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو اس وقت پارلیمینٹ کے اندر عملی طور پر سینیٹر حاصل بزنجو کی سربراہی میں نیشنل پارٹی، محمود اچکزئی کی قیادت میں پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے ارکان اور منظور پشتین کی سربراہی میں پشتون تحفظ موومنٹ کے حمایت یافتہ دو آزاد اراکین محسن داوڑ اور علی وزیر ہی مزاحمت کی سیاست کے اصل علمبردار ہیں۔ کم ازکم یہ وہ جماعتیں ہیں کہ جن کے دامن کافی حد تک صاف ہیں۔
ان جماعتوں کا المیہ یہ ضرور ہے کہ یہ صرف خیبر پختونخواہ اور بلوچستان تک ہی محدود ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قومی سطح پر مزاحمت کی سیاست کے لیے ن لیگ کی ڈیل کے بعد پیدا ہونے والی خالی جگہ پُر کون کرئے گا؟
کیا یہ وقت نہیں کہ صوبائی سطح پر مزاحمت کی سیاست کرنے والے آگے بڑھیں اور قومی سطح پر پائی جانے والی اس کمی کو پورا کریں۔ مشکلات تو ہوں گی مگر شاید بہتری کا کوئی رستہ ہی نکل آئے، ورنہ تو مستقبل تاریک ہی ہے۔