ایک نامکمل حکایت!
میں ایک گنہگار انسان ہوں ساری عمر لہودلعب میں گزری مگر ہر وقت میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا رہتا تھا چنانچہ میں نے اپنے بہت سے دوستوں سے مشورہ کیا کہ کوئی ہے مجھے ہدایت دینے والا ،مگر وہ سارے کے سارے خود ’’بےہدیتے ‘‘ تھے، مجھے سیدھا رستہ کیسے دکھاتے مگر میں نے اللہ کے کسی نیک بندے کی تلاش جاری رکھی۔ کسی پر نیک ہونے کا ذرا سا بھی شک گزرتا میں اس کے پیچھے لگ جاتا، ان کے مسلسل پیچھا کرنے سے مجھے پتہ چلتا کہ یہ تو اپنے ہی بھائی بند ہیں میکدے سے نکلتے ہیں تو مسجد میں جا بیٹھتے ہیں تو مسجد سے نکل کر اپنے کاروبار میں الجھ جاتے ہیں اور وہاں ہر طرح کی ہیرا پھیری کرتے ہیں۔ اس دوران ایک صاحب میرے پاس آئے اور محلے میں پہلے سے سات مسجدوں کی موجودگی میں اپنے ذاتی مسلک کے حوالے سے وہ آٹھویں مسجد بنانا چاہتے تھے چونکہ میں خود بھی اس مسلک سے تعلق رکھتا تھا چنانچہ میں نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر اس نیک کام میں حصہ ڈالا، ان صاحب نے مجھے بتایا تھا کہ مسجد تیار ہے بس رنگ وروغن کا کام باقی ہے تقریباً ایک ماہ کے بعد میرا ادھر سے گزر ہوا تو وہ صاحب ایک خوبصورت گھر کے باہر کھڑے نظر آئے مجھے دیکھا تو بڑے تپاک سے ملے اور اپنے ڈرائنگ روم میں بہت پرتکلف چائے پلائی، اس دوران میں نے ان سے پوچھا برادر جو مسجد آپ بنا رہے تھے اس کا کیا بنا!بولے الحمدللہ بالکل تیار ہے میں نے عرض کی آپ زحمت کرکے مجھے وہاںلے جائیں تاکہ میری آنکھیں روشن ہوں فرمایا آپ مسجد ہی میں تشریف فرما ہیں، میں نے کہا یہ تو آپ کا گھر ہے اس کا جواب انہوں نے اس شعر کی صورت میں دیا؎
واعظ شراب پینے دے مسجد میں بیٹھ کر
یا وہ جگہ بتا دے جہاں پر خدا نہ ہو
میں نے پریشان ہو کر پوچھا آپ شراب پیتے ہیں؟ انہوں نے اس کے جواب میں لاحول ولا پڑھا اور کہا حضرت یہ بات شاعر نے کہی ہے آپ نے مسجد کا پوچھا تھا میرا جواب تھا کہ خدا ہر جگہ موجود ہے شعر کا پہلا مصرعہ مجبوراً پڑھا تھا !
اب میں اپنی تلاش میں زیادہ سرگرم اور پہلے سے زیادہ محتاط ہو گیا ۔اس دوران مجھے پتہ چلا کہ پیر خانوادے کا ایک جانشین صاحب ِکرامت ہے، میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنا مسئلہ بیان کیا۔ انہوں نے کہا اللہ خیر کرے گا آپ چند روز کیلئے میرے ساتھ بیٹھنا شروع کر دیں۔ میں نے حکم کی تعمیل میں ان کے گھر آنا جانا شروع کر دیا۔ایک دن ان کی اہلیہ بھی ہمارے ساتھ آن بیٹھیں اور مسائل تصوف کے حوالے سے بہت باریک نکات بیان کئے، میں ان سے بہت متاثر ہوا اور میں نے محسوس کیا کہ پیر صاحب کی تمام تر کوشش کے باوجود میری روحانی تشنگی وہیں کی وہیں ہے چنانچہ میں نے پیر صاحب کی بجائے ان کی اہلیہ کو اللہ کے زیادہ قریب پایا چنانچہ میں ان کا قرب حاصل کرنے کیلئے کوشاں رہا اور بالآخر نہ صرف یہ کہ میری یہ خواہش پوری ہوئی بلکہ مجھے احساس ہوا کہ یہ نیک روح بھی میرا قرب چاہتی تھی ۔میری طرح اسے بھی مجھ میں روحانیت کا سپارک نظر آیا اور ہم ایک دوسرے سے قریب تر اور پیر صاحب سے دور تر ہوتے چلے گئے ،یہ بات خود پیر صاحب نے بھی محسوس کی چونکہ ان کی شدید خواہش تھی کہ اِس بھٹکے ہوئے راہی کو صحیح راستہ دکھایا جائے چنانچہ وہ مطمئن ہو گئے کہ اِسے مرشد مل گیا ہے اور اس کے بعد جب کبھی انہیں پتہ چلتا کہ میں آیا ہوں تو وہ ادھر ادھر ہو جاتے کہ کہیں ان کی وجہ سے اس گنہگار شخص کی روحانی تربیت میں کوئی کمی نہ آ جائے، الحمدللہ پیر صاحب کی اس شفقت سے میں روحانیت کی تہہ در تہہ منزلیں طے کرتا چلا گیا ،مجھے محسوس ہوا کہ جس رستے کو میں بہت دشوار سمجھتا تھا وہ تو بہت کشادہ ہے ۔میں اللہ کا شکر کس زبان سے ادا کروں کہ نہ صرف مجھے اللہ نے ہدایت دی بلکہ اب میری روحانیت کے چرچے کوبکو ہیں اور میرے دروازے پر ہر وقت سائلوں کا ہجوم رہتا ہے ۔میں انہیں بہت کہتا ہوں کہ بھائی میں بھی تم ایسا گنہگار بلکہ تم سے زیادہ گنہگار ہوں مگر انہیں غیب سے آواز آتی ہے کہ اس کی باتوں میں نہ آنا تمہیں اگر آسودگی ملے گی تو اسی شخص سے ملے گی جو خود کو گنہگار کہتا ہے، یہ انکسار صرف اللہ کے نیک بندوں ہی میں پایا جاتا ہے بس اس کا دامن تھامے رکھنا !
یہ حکایت یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ یہ سلسلہ در سلسلہ آگے چلتی ہے مگر میں اس حکایت کا بیان یہیں ختم کرتا ہوں کہ مجھے حکم ہے کہ ’’خاموں کی باتیں عاموں ‘‘ سے نہیں کرنی چاہئیں۔
پس نوشت:سردیوں کے دن تھے۔ کسی نے بابا جی سے پوچھا : فحاشی بہت بڑھ گئی ہے، کیا بنے گا؟
بابا جی نے فرمایا: جاؤ لکڑیاں اکٹھی کرکے لاؤ۔
لکڑیاں آگئیں۔
بابا جی نے فرمایا :خشک الگ کرکے آگ جلاؤ، آگ جلانے کے بعد بابا جی نے ہاتھ سینکتے ہوئے فرمایا:دکھ یہ نہیں ہے کہ فحاشی بڑھ گئی ہے، دکھ یہ ہے کہ ہماری جوانی ڈھل جانے کے بعد بڑھی ہے۔